بے مقصد ہیرو سازی یا بامقصد وحدت امت 

  بے مقصد ہیرو سازی یا بامقصد وحدت امت 

 میرے بالمقابل بیٹھے چیف جسٹس اسلامی جمہوریہ موریطانیہ نے دو پرچم میز پر سجائے اور پاکستانی پرچم کی طرف احتراماً اشارہ کرکے بولے: “خوشبو میں بسا یہ پرچم وہ نشان راہ ہے جسے دیکھ کر ہم آپ کی اقتدا میں چلتے ہیں “. یادش بخیر 2012 میں موصوف پاکستان آئے تو اسلامی یونیورسٹی میں بھی تشریف لائے۔ صدر جامعہ محبی ڈاکٹر ممتاز مرحوم مجھے نہ صرف اجلاس میں لے گئے بلکہ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھایا۔ اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے!  یزدان سے کہوں تو کیا، کہوں بھی یا نہیں۔ وڈیرے کو ہاری کا کچھ بھا جائے تو وہ اچک لیتا ہے۔ مدت بعد مجھے نازک ریشوں سے بنے دل والا ڈاکٹر ممتاز کیا ملا کہ یزداں نے اسے یکبارگی اچک لیا۔ ہمیں تو وہ پیارے تھے ہی، ناگہانی وفات پر امریکی کانگرس کا ایک بہت بڑا وفد گوجر خان ان کی قبر پر گیا تھا، اللہ اللہ!

چیف جسٹس موریطانیہ بتا رہے تھے کہ 1960ء میں ہم فرانس سے آزاد ہوئے تو پاکستان کی اتباع میں ہم نے اپنے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ موریطانیہ رکھا۔ پھر پاکستانی پرچم دکھا کر بولے: “کلیتاً تو کسی کا پرچم نہیں لیا جاتا لیکن اپنا پرچم بناتے وقت پاکستانی پرچم ہی ہمارے پیش نظر تھا۔ ہم تو 50 سال سے پاکستان کی پیروی کر رہے ہیں “۔ چیف جسٹس موریطانیہ کی یہ 13 سال پرانی باتیں میں یادداشت کے سہارے لکھ رہا ہوں. الفاظ و مفاہیم میں کسر و انکسار ہو تو ہو، لب لباب یہی تھا کہ ہم ہمیشہ پاکستان کی اقتدا کرتے رہے ہیں۔ تو کیا تب ہم ایٹمی قوت تھے؟ یقینا نہیں!

بحر ہند کا ملک جزر القمر (Comoros) فرانس سے آزاد ہوا تو وہ ہماری اقتدا میں تیسرا اسلامی جمہوریہ بنا۔  بعد میں لفظ اسلامی تو بوجوہ ہٹا دیا گیا لیکن آئینی طور پر ملک وہی اسلامی ہی ہے۔ 1979ء میں انقلاب کے بعد ایران چوتھا اسلامی جمہوریہ قرار پایا۔ پانچویں کی کچھ تفصیل درکار ہے جسے دیہاتی لوگ بہتر سمجھ لیں گے۔ اگر آپ دیکھیں کہ سامنے سے بپھرا بیل حملہ کرنے آرہا ہے تو مت گھبرائیے۔ میرا  بارہا کا تجربہ ہے کہ مکے لہرا کر جارحانہ انداز میں اسی کی طرف دوڑ پڑیں تو وہ بھاگ جاتا ہے۔ اپنے لادین اور ان کے مغربی سرپرست، دستور 1956ء میں ملک کا اسلامی نام رکھنے کی تجویز پر بپھرے ہوئے تھے۔ دستور بننے کے بعد بھی وہ ہماری اسلامی شناخت پر حملے کرتے رہے۔ 1962ء میں وہ ملکی نام میں لفظ اسلامی نہ لگانے میں کامیاب بھی ہو گئے۔

ہاں تو بپھرے بیل کے آگے تن کر کھڑے رہیں تو وہ بھاگ جاتا ہے۔ ایوب خان نے 1962ء میں ملکی نام کے ساتھ اسلامی نہ لگایا تو اس کے اپنے بلدیاتی نمائندوں سے بنی ربر اسٹمپ اسمبلی تن کر کھڑی ہو گئی۔ پہلے ہی اجلاس میں آئینی ترمیم پیش ہوئی اور منظور بھی ہو گئی، ملک اسلامی جمہوریہ ہی رہا۔ فکر اسلامی بپھرے لادینی بیل کے آگے مزید جمی رہی، اس نے نئے دارالحکومت کا نام اسی امر سے اسلام آباد رکھوا کر دم دیا۔ اس دور کی مغربی صحافت دیکھیں تو اسے آپ فکر اسلامی پر حملہ آور بیل ہی پائیں گے۔ لیکن فکر اسلامی کل عالم میں اتنا جم کر کھڑی رہی کہ نوزائیدہ پاکستان کا اختیار کردہ اسلامی نام موریطانیہ، جزر القمر اور ایران سے ہوتا ہوا 2004 ء میں امریکی زیر تسلط افغانستان میں جا  پہنچا۔ افغانستان نے بھی اسے من و عن اپنا لیا۔ جی ہاں، وہاں بپھرے امریکی بیل کی نگرانی میں انتخابات ہوئے تو صدر اشرف غنی انتظامیہ نے ملک کا نیا نام اسلامی جمہوریہ افغانستان رکھا اور طالبان نے اسے امارت اسلامی افغانستان قرار دیا۔

حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد آج دنیا بھر میں پاکستان کی جو واہ واہ ہو رہی ہے، کسی 30 سالہ نوجوان کے لیے وہ باعث حیرت ہے لیکن پاکستان مسلم دنیا کے لیے ہمیشہ منارہ نور رہا۔ جمہوری و آمرانہ دونوں ادوار میں بھارت سے ہم ہمیشہ قدرے آگے ہی رہے۔ آج ہمارے سوا تین روپوں کے عوض بکتا بھارتی روپیہ 1999ء کے پینٹاگونی انقلاب سے قبل 98 پیسے کا تھا۔ سفارت و حرب اور میدان اقتصاد میں ملک آج مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ سب اپنے کام بخوبی کر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں افق کے  پار دیکھنے والے کچھ اہل نظر چاہئیں جو سوز لا الہ الا اللہ والے اسلامی ممالک کو یکجا کریں۔ الحمدللہ ایسے تین اسلامی ممالک جڑے ہوئے ہیں۔

ان تعارفی کلمات کے بعد کہنا یہی ہے کہ فتح کے بعد نت نئے ہیرو مت تراشیے۔ کیا مقتدرہ نے فاتح جلال آباد کے خونی پراجیکٹ کے تراشیدہ بت سے کچھ نہیں سیکھا؟ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جما کرتی (Rome was not built in a day)۔ ملک ایک دن میں نہیں بنا کرتے۔ ہمیں حالیہ مقتدرہ کے جملہ عناصر سے انس ہے۔ یہ دیسی لوگ ملک کی جڑوں سے پھوٹنے والے دلکش پھول، غنچے، کلیاں اور کونپلیں ہیں۔ ملک ان کے مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ تاہم امت کے خمیر میں سورما پرستی (hero worship) کی کوئی گنجائش نہیں۔ تو ذرائع ابلاغ پر  ایک ہی شخص کی پوجا کیوں ہو رہی ہے۔ پورا مغرب متفق تھا کہ جنگ عظیم دوم میں اتحادیوں کی فتح چرچل کے تدبر کے باعث تھی۔ پھر چرچل کی سورما سازی اتنی بڑھ گئی کہ قوم نے انتخابات میں چرچل کو مسترد کر کے اس کا سورمائی بت اٹھا کر بن میں ڈال دیا۔ عوام کے تراشیدہ ہیرو کی حنا بندی وقت کے بگولے کیا کرتے ہیں، پریس ایڈوائس سے یہ کچھ نہیں ہوا کرتا۔ 

یہ فتح کسی ایک یا چند معززین کے نام مت کیجیے۔ میچ جاوید میانداد کے آخری چھکے پر جیتا گیا تھا لیکن چھکے سے قبل رن بنانے والے چند دیگر کھلاڑی بھی تو تھے۔ ملکی جڑوں میں فولاد رکھنے والے مرحومین میں لیاقت علی خان، ملک فیروز خان نون، ذوالفقار علی بھٹو، شہید جنرل ضیاء  الحق، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور غلام اسحٰق خان بھی تو ہیں۔۔ سورما سازی کی اس سرسامی کیفیت سے نکل کر اپنے مقصد اول (لا الہ الا اللہ) کی طرف آئیے۔ لوہا گرم ہے۔ ذرائع ابلاغ پر ہیرو متعارف کرانے کا  کام بند کیجیے۔ اب فخر ایشیا والے فیلڈ مارشل کا عہد تمام نہیں ہے۔ محیر العقول فتح پر اللہ نے ہر اپنے پرائے کے دل میں آپ کی  قدر و منزلت ڈال دی، پر معلوم نہیں آپ چند کلیوں پر کیوں قناعت کرگئے۔ لغوی معنوں میں تو مارشل بے ثغور و بے کراں ہوتا ہے تو وہ فیلڈ میں کیوں جا گھسا؟ خاموشی سے وحدت امت پر دھیان دیجئے۔ پاکستان،  ایران، افغانستان کو مضبوط اکائی بنائیے۔ مرزا کہتے ہیں یہ شخص جنرل ضیاء  الحق کا نیا ایڈیشن ہے، الحمدللہ۔ لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا۔ مزید گفتگو انشاء اللہ اگلے ہفتے۔





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں