شاعرہ و دانشور بینا گوئندی نے ایک دن مجھے مشورہ دیا، اپنا دِل سخت کرو، تمہاری نرم دِلی کی وجہ سے لوگ تمہیں بے وقوف بناتے ہیں،کام نکلواتے ہیں اور بھول جاتے ہیں، میں نے کہا لیکن اب اس عمر میں یہ تبدیلی کیسے لا سکتا ہوں۔ جیسا ہوں ویسا ہی رہنا چاہتا ہوں،پھر کچھ دِنوں بعد مجھے ایک بڑے دھوکے کا سامنا کرنا پڑا،بس یوں سمجھیں کہ کسی نے عین وقت پر میری کمر میں چھرا گھونپ دیا، وہ شعر بھی یاد آیا جس میں کہا گیا تھا کہ پلٹ کر دیکھا تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔میں نے اپنے واک فیلو دوست ڈاکٹر ذوالفقار علی مانا کو بتایا کہ بینا گوئندی نے مجھے دِل سخت کرنے کا مشورہ دیا تھا،دِل سخت کر لیتا تو ایک دوست کے دھوکے میں نہ آتا،کیا مجھے اب اُس کے مشورے پر عمل کر لینا چاہئے، کہنے لگے آپ یہ کام نہیں کر سکتے،آپ کو مطلوبہ سہولت حاصل نہیں ہے، لیکن اب میرا ذہن مسلسل اس نکتے پر اٹکا ہوا ہے کیا میں نے دِل نرم رکھ کے غلطی کی ہے۔میں اگر ایسا نہ کرتا تو کیا بڑا آدمی ہوتا۔ امیر کبیر اور کوٹھیاں، بنگلے میری ملکیت ہوتے۔ نوکروں چاکروں کا ہجوم ہوتا اور بادشاہوں جیسی زندگی گزارتا،مگر میں نے اس خیال کو جھٹک دیا،جو مزہ نرم دِلی میں ہے وہ سخت دِلی میں کہاں،جو تسکین مظلوم بننے میں ہے وہ ظالم بننے میں نہیں مل سکتی، جو عزت و احترام حسینؓ نے کمایا ہے وہ یزید سو جنم کے بعد بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ دِل پر کچوکے ضرور لگتے ہیں،رویوں کی چبھن ضرور محسوس ہوتی ہے، دُکھ ضرور ہوتا ہے،مگر سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس رویے میں ضمیر ملامت نہیں کرتا۔نیند سکون کی آتی ہے۔میں اُس چبھن کو محسوس کر سکتا ہوں جو کسی کے ساتھ زیادتی کے بعد پتھر سے پتھر دِل انسان کو بھی محسوس ہوتی ہے بس فرق یہ ہے وہ اسے جان کا روگ نہیں بناتا۔ کل ایک بڑے پولیس افسر بتا رہے تھے یہ عہدہ اور اختیار اللہ کی طرف سے بہت بڑا امتحان ہے۔ اچھلے بھلوں کو پاگل کر دیتا ہے۔انہوں نے کہا میں اکثر ماتحتوں پر بہت زیادہ گرم ہو جاتا ہوں،انہیں سخت زبان میں تنبیہ کرتا ہوں، جس دن میں یہ کرتا ہوں اُس رات مجھے نیند نہیں آتی۔میں سوچتا ہوں ایسا کرنے سے کیا ملا،نیند تو اپنی برباد ہوئی، عہد کرتا ہوں کہ اب ایسا نہیں کروں گا، مگر اگلی صبح ہی دفتر ہوتا ہے اور وہی کروفر، رات کا عہد دن کے اجالے میں اُسی طرح معدوم ہو جاتا ہے،جس طرح دیے کی روشنی۔انہوں نے کہا میں اپنے ساتھی افسروں کو دیکھتا ہوں تو سارا دن وہ دفتر میں بیٹھ کے فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہیں،ماتحتوں کو گالیاں بھی دیتے ہیں اور کام کے لئے آنے والے سائلوں کی داد رسی بھی نہیں کرتے،پھر کہنے لگے انہیں نیند کیسے آتی ہو گی؟ میں نے کہا کبھی کبھی خدا ظالموں کو سکون دے کر بھی آزمائش میں ڈالتا ہے،اُس کی پکڑ کے طریقے اور ہیں،ہم انسان نہیں سمجھ سکتے،لیکن آپ ایک کام کریں اپنے غصے پر قابو پائیں،اپنے دِل کا نرم خانہ خالی نہ ہونے دیں۔سکون کی نیند بھی سوئیں گے اورقدرت کی طرف سے نوازے بھی جائیں گے۔
بعض دوست اس ٹوہ میں رہتے ہیں کون سا افسر مال بنا رہا ہے،اس کا طریقہئ واردات کیا ہے۔میں اکثر ایسی باتوں میں عدم دلچسپی ظاہر کرتا ہوں،ایسی باتوں سے خوام خواہ کا ڈپریشن ہوتا ہے،لیکن پھر بھی بتانے والے کب باز آتے ہیں۔ایک باخبر دوست نے مجھے ایک خاص افسر کا نام لے کر بتایا تمہیں پتہ ہے اس کی ڈیفنس لاہور میں 50کروڑ روپے سے کوٹھی بن رہی ہے جو اب تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے،میں نے کہا او بھائی مجھے کیوں پتہ ہو اور میں کیوں پتہ رکھوں،جس گھر جانانہیں اُس کی طرف نظریں کیوں۔کہنے لگے آپ کالم لکھتے ہیں، باخبر تو ہونا چاہئے کون کیا کر رہا ہے۔میں اُس کی بات پر ہنسا،کیسا غافل آدمی ہے کہ سامنے کی حقیقتوں کے باوجود کھوج لگانے کی بات کرتا ہے۔اِس ملک میں اس میں کوئی خبریت رہ گئی ہے کہ لوٹ مچی ہوئی ہے جو جتنا بااختیار ہے وہ اتنا ہی حرص دو لت میں مبتلا ہو چکا ہے۔ایک زمانے میں کوئی خوف نہیں بھی ہوتا تھا تو یہ خوف ضرور دامن گیر رہتا تھا کہ مرنا بھی ہے۔اب مرنے کا خوف بھی ہم بھلا چکے ہیں، گور پیا کوئی ہور، کے مصداق سامنے ہونے والی اموات کے باوجود یہ سمجھتے ہیں یہ تو بیمار ہو گیا تھا،اِس کے پاس تو اچھے علاج کے پیسے نہیں تھے، ہم تو بیمار بھی نہیں اور اگر ہو بھی گئے تو اتنا پیسہ ہے بیرون ملک جا کے بھی علاج کرا آئیں گے۔ یونیورسٹی کے زمانے میں اشفاق احمد شعبہ اردو زکریا یونیورسٹی آئے،لیکچر دیا اُس کے بعد سوال و جواب کا سیشن ہوا۔مجھے یاد ہے میں نے سوال کیا تھا کیا امیر بننے کے لئے انسان کا ظالم، بے ایمان اور پتھر دِل ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا تھا تمہارے ذہن میں یہ گھٹیا سوال کیوں آیا۔ یہ اُن کا مخصوص انداز تھا۔ کہنے لگے میں تو یہ سوال سن کر خوفزدہ ہو گیا ہوں،میں تو یہ سوچ رہا ہو ں جن باتوں کو ہماری نسل نے اپنائے رکھا اب وہ اگلی نسل میں منتقل ہو رہی ہیں،کوئی بند باندھنے کو تیار ہے اور نہ یہ بتانے کو کہ گھٹیا راستے سے امیر بننا گوبر کھانے کے مترادف ہے۔ انہوں نے اس موقع پر یہ تاریخی جملہ کہا تھا، عزت کمانے کے لئے مزدوری کرنا دولت کمانے کے لئے ظلم کرنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ آج اس بات کو چالیس سال ہونے کو آئے ہیں کچھ بھی نہیں بدلا،بلکہ ظلم اور بے ایمانی بڑھ گئی ہے،معاشرہ جنگل بن چکا ہے۔
میرے ایک دوست آصف گلزار ایک بڑے میڈیکل ہال کے مالک ہیں اکثر اُن کے پاس بیٹھنا ہوتا ہے۔ میں نے اُن سے پوچھا پچھلے دِنوں نیند اور سکون آور گولیوں کی قیمتیں بڑھنے کا سنا تھا، کیا یہ بات درست ہے؟ انہوں نے کہا پچھلے ایک سال میں کئی بار بڑھ چکی ہیں، میں نے کہا کیا ان کی ڈیمانڈ ہے،کہنے لگے بہت زیادہ۔ پھر میں نے پوچھا ان کے خریداروں میں کون لوگ زیادہ ہیں، آصف گلزار نے کہا پولیس کے افسر،انتظامی افسر، دولت مند امراء، بڑے بڑے صنعتکار سرمایہ دار ان گولیوں کے بڑے خریدار ہیں، غریبوں کی تعداد بہت کم ہے،ان میں وہ آتے ہیں جن کے جسم میں درد ہو یا کسی زخم کی و جہ سے انہیں نیند نہ آتی ہو۔ دماغی سکون کے لئے صرف بڑے لوگ ہی یہ گولیاں لیتے ہیں۔ پھر پوچھنے لگے آپ کون سی گولی کھاتے ہیں؟ میں نے کہ آصف تم یقین نہیں کرو گے، مگر یہ حقیقت ہے میں نے زندگی میں ایک بھی نیند یا ذہنی سکون کی گولی نہیں کھائی۔ یہ سن کر وہ کہنے لگے سر آپ تو واقعی اس دور کے ولی ہیں یہ سن کر مجھے جناب مجیب الرحمن شامی کی یہ بات یاد آ گئی کہ نسیم شاہد اِس دور کا زندہ ولی ہے،حالانکہ میری کیا اوقات اور کیا بساط۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ مجھے زندگی بھر کسی پر ظلم کرنے کی توفیق نہیں ملی۔یہ بہت کرم کا مقام ہے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ہم میں سے اکثر کی خواہش یہی ہے انہیں مظلوم نہیں ظالم تسلیم کیا جائے۔
٭٭٭٭٭