پنجاب کا مقدمہ

  پنجاب کا مقدمہ



وفاقی نظام حکومت میں وفاق کو مختلف اکائیوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور ہر اکائی ملکی آئین کے مطابق اپنا نظام حکومت چلانے میں خود مختار ہوتی ہے۔ تمام اکائیوں کووفاق کے بجٹ میں سے آبادی کے لحاظ سے حصہ دیا جاتا ہے۔پاکستان ایک وفاق ہے۔اس کی اکائیوں کو صوبہ کہتے ہیں۔2023 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی24 کروڑ  سے زائدہے۔ صوبہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اسی لیے اسے بڑا بھائی بھی کہا جاتا ہے۔لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ چھوٹے بھائیوں کے منھ سے کبھی بھی اپنے بڑے بھائی کے حق میں کوئی اچھی بات نہیں نکلی۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے پاکستان کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں بڑے بھائی نے ہی دیں۔1947 میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو صرف صوبہ پنجاب ہی تقسیم ہوا۔ پنجاب میں  ہی قتل و غارت گری ہوئی۔ پنجاب میں ہی بہنوں بیٹیوں کی عزتیں لٹیں۔ پنجابی ہی گھروں سے بے گھر ہوئے۔پنجابی ہی اپنی زندگی کی جمع پونجیاں چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔1965 اور 1971 کی جنگیں بھی پنجاب کی سرزمین سے لڑی گئیں۔1971 کی جنگ کے نتیجے میں پنجاب کا ہی رقبہ ہی انڈیا کے تسلط میں آیا۔ ان جنگوں میں بھی پنجابی ہی مرے۔ پنجابی ہی اپنی جائیدادوں سے محروم ہوئے اور پنجابی ہی اپنے گھروں سے نکالے گئے۔

دراصل پنجابی ہی ایک ایسی قوم ہیں جو ہر قسم کے تعصب سے پاک ہیں۔ وہ دوسرے صوبوں سے آنے والے اپنے پاکستانی بھائیوں کا ہمیشہ خیر مقدم کرتے ہیں۔ لیکن اگر پنجابی کسی دوسرے صوبے میں چلا جائے تو اسے صوبائی تعصب کی بھینٹ چڑھا یا جاتا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں پنجابیوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے  وہ سب کے سامنے ہے۔پچھلے چند سالوں میں بلوچستان میں پنجابیوں کا  جس طرح چن چن کر قتل عام کیا گیااس کا تصور کر کے ہی کلیجہ منھ کو آتا ہے۔بھری بسوں کو روک مسافروں سے شناختی کارڈ طلب کیے جاتے ہیں۔پھرپنجابیوں کو علیٰحدہ کرکے گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔بلوچستان لبریشن آرمی کے بقول وہ اب تک تقریبا پانچ ہزار پنجابیوں کو قتل کر چکے ہیں۔کیا کبھی پنجاب میں بھی کسی بلوچی، پٹھان یا سندھی کا صوبائی تعصب کی بنا پر قتل کیا گیا ہے؟ پنجاب بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے تمام صوبوں کے باسیوں کو اپنا چھوٹا بھائی سمجھتا ہے۔ ان کے ساتھ ہمیشہ شفقت اور محبت کاسلوک کرتا ہے۔لیکن باقی صوبے نا معلوم وجوہات کی بنا پرپنجابیوں کو غاصب اور ان کے حقوق کا قاتل سمجھتے ہیں۔ 

قابل افسوس امر ہے کہ ہمارے بلوچی بھائیوں کو گوادر کی تعمیر و ترقی پر اعتراض ہے۔ جب کہ1958سے پہلے گوادر بلوچستان کا حصہ نہیں تھا۔ وزیر اعظم پاکستان جناب فیروز خان نون، جو پنجابی تھے، کے دور حکومت میں اسے عمان کے سلطان سیرین تیمور سے ایک معاہدے کے تحت خریدا گیا۔ اس کی قیمت کا زیادہ تر حصہ سر آغا خان۔4 نے ادا کیا۔ باقی رقم حکومت پاکستان نے ادا کی۔جب اسے خریدا ہی حکومت پاکستان نے ہے تو اس پر صرف بلوچستان کا حق کیسے ہوسکتا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی سہولتیں کم ہیں جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پنجاب میں صرف 7  اور بلوچستان میں 13 کیڈٹ کالج ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں 85 فی صد سے زائد نمبر حاصل کرنے والے بچوں کو MBBS میں داخلہ ملتا ہے جب کہ بلوچستان میں 60 فیصد نمبروں پر بھی داخلہ مل جاتا ہے۔ ہمارے بلوچی بھائی جتنا ٹیکس حکومت کو ادا کرتے ہیں ہم سب کو معلوم ہے۔ ایک سروے کے مطابق وہ بجلی کے کل بل کا تقریبا 15  فی صد تک ادا کرتے ہیں۔انھیں پنجاب کی خوشحالی پر بھی اعتراض ہے جب کہ پنجاب مدتوں سے خوشحال رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ پنجاب پورے ہندوستان کی اناج کی ضرویات پوری کیا کرتا تھا۔ایک اعتراض  یہ بھی کیا جاتا ہے کہ فوج پر بھی پنجابیوں کا قبضہ ہے۔ جب کہ بلوچستان اور سندھ کے تمام اضلاع میں فوجی بھرتی کے دفاتر موجود ہیں۔ وہ فوج میں کمیشن کے لیے کیوں نہیں اپلائی کرتے؟ کس نے روکا ہے انھیں؟راقم جب فوجی ملازمت میں تھا تو اس وقت میری یونٹ میں دو تین سندھی بھی تھے۔ ایک دن میں نے ایک سندھی ماہنوسے پوچھا کہ بھائی آپ لوگ فوج میں کیوں نہیں بھرتی ہوتے؟ اس نے بڑا مضحکہ خیز جواب دیا۔ کہنے لگا:”بھائی ایک تو فوج کی نوکری بڑی مشکل ہے دوسرا ہم بیوی کے بغیر نہیں رہ سکتے“۔ یہی حال ہمارے بلوچی بھائیوں کا  بھی ہے۔

اٹھارھویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری اپنے عروج پر ہے۔ اس کے باوجود اگر دوسرے صوبوں کے سیاستدان اس خود مختاری کے ثمرات عوام الناس تک پہنچانے میں ناکام ہیں تو اس میں پنجاب کا کیا قصور ہے؟موجودہ آئینی بندوبست کے مطابق امن عامہ کی صورتحال کو کنٹرول کرناصوبوں کی ذمہ داری ہے۔ وہاں کی صوبائی حکومتیں اگر اس میں ناکام ہیں اور انھیں فوج طلب کرنا پڑتی ہے تو اس میں پنجاب اور پنجابیوں کا کیا قصور ہے؟ کیا وہاں پرمنتخب شدہ وزیر اعلیٰ پنجابی ہیں؟ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی امن وامان کی صورتحال سے کون واقف نہیں ہے؟ کیا وہاں کی صوبائی حکومتیں اپنے اپنے صوبے کے معاملات کو کنٹرول کرنے کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ کیا ان دونوں صوبوں میں فوج خود بخود آگئی ہوئی ہے یا صوبائی حکومتوں نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے اسے طلب کیا ہوا ہے؟ وہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ فوج پر ڈال کر اپنے آپ کو بری الذمہ کیسے قرار دے سکتے ہیں؟ جب پارا چنار میں آگ لگی ہوئی تھی، قتل وغارت گری کا بازار گرم تھا، تو صوبے کے وزیر اعلیٰ صاحب کہاں تھے؟ کیا وہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھائی نہیں کر رہے تھے؟ کیا فوج ہی رہ گئی ہے کہ وہ آپ کے صوبائی امن و امان کو بھی کنٹرول کرے اور آپ لوگ اسے برا بھلا بھی کہیں۔جب کوئٹہ میں جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوا تو صوبائی انتظامیہ کہاں تھی؟ پولیس کی اسپیشل برانچ کیا کر رہی تھی؟ بلوچستان کی پولیس کہاں تھی؟ کیا یہ ذمہ داری بھی فوج کی تھی؟کیا وہاں کی صوبائی حکومت صرف پروٹوکول لینے اور سرکاری فنڈز ہڑپ کرنے کے لیے براجمان ہے؟اگر یہ سارے کام فوج نے ہی کرنے ہیں تو ہمارے سیاسی نمائندے کس مرض کی دوا ہیں؟ ان کے ماتحت پولیس ملازمین کی فوج ظفر موج کس لیے ہے؟ اگر وہ یہ کام نہیں کر سکتے تو استعفے دے کر گھر کیوں نہیں چلے جاتے؟ پھر فوج جانے اور اس کا  کام جانے۔

معروضی حالات کے پیش نظراب وقت آگیا ہے کہ ہمارے تمام سیاستدان قومی یک جہتی کی خاطر سر جوڑ کر بیٹھیں،اپنا فرض پہچانیں، سوچ و بچار کریں،حقائق کا کھوج لگائیں،  بلیم گیم ختم کریں۔اس بدامنی کا حل تلاش کریں۔ذاتی مفاد کی بجائے قومی مفاد کو ترجیح دیں۔صوبوں کے درمیان پیدا کی گئی منافرت کی بیخ کنی کریں۔تاریخ سے سبق سیکھیں۔بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈیں۔کیوں کہ طاقت کا استعمال کبھی بھی کسی سیاسی معاملے کا  مستقل حل نہیں ہوتا۔

           





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں