ایک نئی اردو۔ انگلش ڈکشنری کی ضرورت!

  ایک نئی اردو۔ انگلش ڈکشنری کی ضرورت!



انڈیا اور پاکستان کی اس چار روزہ جھڑپ میں بہت سی نئی باتیں یا ایسی نئی معلومات جاننے کوملیں جن سے پاکستان کی پبلک آگاہ نہیں تھی……

سب سے پہلی بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ انڈیا اور پاکستان کی گزشتہ جنگوں میں سب سے آخری جنگ 1965ء کی پاک بھارت جنگ تھی۔ 1999ء کی کارگل جنگ جو بیشتر پاکستانی ناظرین کی نگاہوں سے اوجھل رہی وہ زیادہ تر ایک گوریلا وار تھی۔ پاکستان ناردرن لائٹ انفنٹری کی چند سب یونٹیں کارگل کی ان بلندیوں پر جا کر بیٹھ گئیں جو انڈیا کے قبضے میں تھیں۔ انڈین آرمی ان بلندیوں سے موسم سرما کی ابتداء میں نیچے اتر کر کم بلند میدانی علاقوں میں چلی جاتی تھی…… سالہا سال تک ایسا ہوتا رہا…… پھر پاکستان نے فیصلہ کیاکہ جب انڈین انفنٹری فورسز موسم سرما کی آمد پر ان بلندیوں سے اتر کر کم بلند اور کم سرد علاقوں میں جا بیٹھیں گی تو ان ایام میں پاکستانی فوج ان بلندیوں پر جا کر بیٹھ جائے گی۔جب سردیاں گزر گئیں اور انڈین آرمی حسبِ معمول اپنی سابقہ کارگل بلندیوں پر پہنچی تو اسے معلوم ہوا کہ پاکستان آرمی وہاں پر قابض ہو چکی ہے۔ کارگل کی انہی بلندیوں سے پاک فوج کو بے دخل کرنے کی حربی کارروائی کو ”کارگل وار“ کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن اب تو اس وار کو بھی 26برس گزر چکے تھے۔ اس عرصے میں پوری ایک نسل جوان ہو جاتی ہے جو گزشتہ نسل کی جگہ سنبھالتی ہے…… لیکن اس بار (2025ء میں) کارگل پر کوئی جنگ نہ ہوئی۔ اس کی بجائے یہ جنگ پاکستان کے میدانی علاقوں کی فضاؤں میں لڑی گئی جسے ہم پاک۔ بھارت انٹرنیشنل سرحد کی ”فضائی جنگ“ کہہ سکتے ہیں۔ یہ چار روزہ فضائی جنگ6مئی کو شروع ہوئی تھی اور 10مئی کو فریقین نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ 

اس جنگ میں انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا۔ یہ چار روزہ جنگ شروع تو انڈیا کی طرف سے کی گئی تھی اور ابھی پاکستانی عوام امید لگائے بیٹھے تھے کہ جنگ شروع ہو کر میدانی، فضائی اور بحری حدود تک پھیل جائے گی اور 1965ء کی پاک۔ بھارت جنگ کا سماں پھر سے پیدا ہوجائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ 1965ء سے 2025ء تک 60برس کا طویل دور گزر چکا تھا۔ یہ دور انڈیا اور پاکستان کے درمیان بہت سی اُن حربی جھڑپوں کا دور بھی کہا جا سکتا ہے جن میں جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔

اس مختصر کالم میں اس 60سالہ طویل عرصے کو کیپسول میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان برسوں میں انڈیا اور پاکستان دونوں ملکوں کے درمیان کئی بار کھلی اور آل آؤٹ وار ہوتے ہوتے رہ گئی……یہ بات انڈیا کے ”کریڈٹ“ میں جاتی ہے کہ اس نے اس ”حربی جمود“ کوتوڑنے میں پہل کی۔ پاکستان پر دہشت  گردی کے الزام تو اَن گنت بار لگائے گئے لیکن 22اپریل 2025ء کو پہل گام پر جو حملہ کشمیری مجاہدینِ آزادی نے کیا اس کو انڈیا برداشت نہ کر سکا۔

انڈیا نے دو ہفتوں تک جنگ کا نقارہ پیٹا۔ 22اپریل سے 5مئی تک ”شیر آیا، شیرآیا“ کی گونجیں سنائی دیں۔ لیکن جب 6مئی کو واقعی انڈیا کا شیر میدان میں نکلا تو اس کو معلوم ہوا کہ اس کے مقابلے میں پاکستان کا ’شیرِببر‘ میدان میں آ چکا ہے۔ 

فوجی اصطلاح میں اس شیر ببر کا نام J-10CE نام کا چینی طیارہ تھا جس پر نصب PL-15 میزائلوں نے وہ کام کر دیا جس پر ساری دنیا کی افواج حیران رہ گئیں۔ اس پر قارئین اب تک بہت سے مواد کا مطالعہ کر چکے ہیں۔ میں اس کا اعادہ نہیں کروں گا۔ صرف یہ عرض کروں گا کہ اس چینی طیارے J-10CEنے PL-15میزائل کے ساتھ مل کر الیکٹرانک وار فیئر کا جو نیا باب رقم کیا اس کی داستان آنے والے کئی برسوں تک تاریخِ جنگ کے اوراق کی زینت بنتی رہے گی…… اب تک کسی کو یہ یقین نہیں آ رہا کہ صرف چار دنوں میں ڈرونوں کی جنگ سے آگے نکل کر J-10Cنے ایسا کیا کارنامہ سرانجام دیا کہ انڈیا کی ساری وار مشینری ”جام“ ہو کر رہ گئی۔ ٹرمپ نے دونوں ممالک کو وارننگ دی کہ اگر اس ’ہاوہو‘ کو بند نہ کیا گیا تو لاکھوں انسان جوہری جنگ کی نذر ہو جائیں گے…… چنانچہ ”فی الحال“ دونوں فریق ”فائر بندی“ پر مجبور ہو چکے ہیں لیکن انڈیا کو زیادہ ”تلملاہٹ“ کا سامنا ہے۔

انڈیا نے اس جنگ میں پاکستان پر ڈرون حملوں کی ابتداء کی جس کا احوال ہم سب میڈیا پر سن چکے ہیں۔ الیکٹرانک وار فیئر کا مسئلہ یہ ہے کہ جنگ کی ہما ہمی نظر نہیں آتی، البتہ اس کا نتیجہ (یا اسے انجام کہہ لیں) ضرور دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کا کوئی سپاہی اس جنگ میں بین الاقوامی سرحد پار کرکے فریقِ مخالف تک نہیں پہنچا، کوئی ٹینک یا APC بھی ایسا نہیں کر سکی۔ اب شاید اس جھڑپ کے بعد فریقینِ جنگ یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ جن بھاری ہتھیاروں (توپ،ٹینک، آرمرڈ فائٹنگ وہیکل اور میزائل بردار گاڑیاں وغیرہ) کو سالہا سال تک جمع کرتے آئے ہیں اور ان پر فوج کے افسروں اور جوانوں کو ٹریننگ دیتے آئے ہیں ان کا مصرف مستقبل قریب و بعید میں کیا ہوگا۔ کیا آنے والے ایام میں صرف ائر فورس ہی پر تکیہ کیا جائے گا اور اس میں بھی الیکٹرانک جنگ و جدل پر ہی فوکس رکھاجائے گا؟

اس چار روزہ جنگ نے سٹاف کالج اور وارکالج کے نصاب میں انقلابی تبدیلیوں کے دروازے بھی کھول دیئے ہیں۔ برسبیل تذکرہ مجھے یہ کہنے میں بھی کچھ باک نہیں کہ چین نے دنیا کو بھی روس۔ یوکرین جنگ میں اس ٹیکنالوجی سے بے خبر رکھا ہے جس کااستعمال اس نے پاکستان ائر فورس کے توسط اس پاک۔ بھارت جنگ میں آزمایا ہے۔ چین کا اصل مقابلہ تو امریکہ سے ہے جس کے ڈانڈے چاردانگ عالم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بحرالکاہل دنیا کا سب سے بڑا بحر ہے اور اسی بحر میں چین کا ایک جزیرہ تائیوان بھی موجود ہے جس کو امریکہ کی مدد اور شہ حاصل ہے۔ اب دیکھیں گے کہ یہ پاک۔ بھارت مختصر جنگ، کس انداز میں تائیوان کی انتظامیہ پر اثر انداز ہوتی ہے۔

چین کا وہ طیارہ (J-10C)کہ جو اس پاک۔ بھارت جنگ کا اصل ہیرو ہے کیا وہ J-20اور J-35بلکہ اس سے بھی آگے نجانے کن کن مدارج تک چلا جائے گا اور کن راستوں کا مسافر بنے گا؟ پاکستان نے چینی ٹیکنالوجی کو جس خوبی سے آزمایا اور فتح یاب کیا ہے اس نے پاکستان کے لئے چین کی روشن تر حربی ایجادات کے دروازے بھی وا کر دیئے ہیں۔

میں شاید کسی گزشتہ کالم میں عرض کر چکا ہوں کہ جدید وار فیئر میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کے اسرر و رموز اس قدر گنجلک اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں کہ اردو زبان ان کی تفصیل بتانے کے لئے کماحقہ تیار اور قادر نہیں۔ اسے یا تو جدید ٹیکنیکل اصطلاحات کو بیان کرنے میں نئے لسانی در وا کرنے پڑیں گے یا جدید اصطلاحات اور دوسری زبانوں کے الفاظ و مرکبات کو ”اردوانا“ پڑے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ جدید اصطلاحات کو اردو میں املا کرکے بیان کرنا پڑے گا۔ اگر الیکٹرانک وار فیئر کی تشریح کرنی ہو تو اس میں جوجو اجنبی الفاظ اور اصطلاحات آئیں گی ان کو اردو میں لکھ دینا ہی مناسب عمل شمار ہوگا۔ مثال کے طور پر یہ فقرہ دیکھئے:

”چینگ ڈو J-10 وگورس ڈریگون نام کا طیارہ ہے جو میڈیم ویٹ، سنگل انجن،ملٹی رول، کمبٹ ہائر کرافٹ ہے جس میں ڈیلٹا ونگ اور کانارڈ (Canard) ڈیزائن ہے“۔

اس فقرے میں میڈیم ویٹ، سنگل انجن، ملٹی رول، کمبٹ ائر کرافٹ اور کانارڈ کے الفاظ ایک عام اردو خواں قاری کے لئے اگر مکمل نہیں تو نیم مکمل اجنبی الفاظ ضرور ہوں گے جن کی تشریح لازم آئے گی۔ اس لئے میں عرض کررہا تھا کہ جدید ہتھیاروں اور دوسرے حربی ساز و سامان میں بیشتر الفاظ و تراکیب کو اردو میں ڈھالنا ایک مشکل کام ہوگا۔ اردو زبان کے ماہرینِ لسانیات کو اس طرف توجہ دینی ہوگی اور ایک نئی طرح کی انگلش۔ اردو ملٹری ڈکشنری ”ایجاد“ کرنی ہوگی۔





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں