پولیس کلچر میں تبدیلی ……سچ یا جھوٹ

    پولیس کلچر میں تبدیلی ……سچ یا جھوٹ



اس وقت پنجاب پولیس میں ایک اہلکار 602 شہریوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہے جبکہ لاہور میں 513 افراد کیلئے ایک پولیس اہلکار دستیاب ہے۔ یہ نفری معیاری پولیسنگ کے اعتبار سے بہت کم ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کا تو ذکر چھوڑیں ہمسایہ ملک بھارت کے دارالحکومت دہلی میں 198 شہریوں جبکہ ممبئی میں 294 افراد کیلئے ایک پولیس اہلکار موجود ہے۔ لندن میں یہی تناسب 1:157 ہے۔ لاہورکی آبادی مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ 11لاکھ 26ہزار 285 ہے۔ علاوہ ازیں 40 ہزار کے لگ بھگ روزانہ دیگر شہروں سے لوگ یہاں آتے جاتے ہیں۔ اس آبادی کیلئے لاہور پولیس کی نفری 32ہزار ہے (ظاہر ہے کہ اس نفری میں ڈرائیور، کلرک اور دیگر نان کمبیٹ عملہ بھی شامل ہوگا)۔ اسکے برعکس دہلی جو لاہور جتنا ہی شہر ہے وہاں پولیس کی نفری 82 ہزار ہے۔ اب ذرا وسائل کی بات ہو جائے۔ پنجاب میں پولیس پر سالانہ 8.44 ڈالر فی کس اخراجات کئے جاتے ہیں۔ بھارتی پنجاب میں یہ تناسب 15.9 ڈالر، ترکی میں 135 ڈالر اور لاہور میں 7.42ڈالر ہے جبکہ لندن پولیس کو فی کس اخراجات 754 ڈالر سالانہ دیے جاتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہماری پولیس فورس اپنی استعدادکار سے کہیں زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ لاہور کا شمار ایسے شہر وں میں ہوتا ہے جہاں احتجاج اور مظاہرے بھی معمول کی بات ہیں۔ دہشتگردی یا بڑے حادثات کے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ پولیس میں بعض ایسے عناصر ضرور ہیں جو محکمے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں لیکن ایسے افسر اور اہلکار بھی ہیں جو بدعنوانی کو اپنے لئے گالی سمجھتے ہیں۔ یہی احساس تحفظ پوری دنیا میں پولیس کے وجود کی بنیادی  وجہ ہے۔ عام آدمی کو اندازہ نہیں کہ پولیس کلچر میں کتنی تبدیلی آچکی ہے۔ افسوس منفی پہلو فوراً میڈیا اور سوشل میڈیا میں عام ہوجاتا ہے لیکن مثبت بات کو ’خبر‘ ہی نہیں سمجھا جاتا۔ لوگ علاقے کے تھانیدار کو ہی پولیس سمجھتے ہیں موجودہ انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور ماڈرن پولیسنگ پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے پولیس نظام میں بہتری کیلئے سائنسی خطوط پر اقدامات کی حوصلہ افزائی کی۔ پرموشنز پولیس افسران کا خواب ہی رہتا تھا لیکن موجودہ آئی جی پولیس ان افسران کے خوابوں کی تعبیر ٹابت ہوئے ہیں۔تھانوں کی بوسیدہ عمارتوں کو خوبصورت?مارتوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔پولیس ویلفیئر پو توجہ دے کر ادارے کا مورال بلند کیا گیا ہے۔ اسی طرح پنجاب بھر کے پولیس خدمت مراکز کو آپس میں مربوط کر دیا گیا ہے۔ صوبہ بھر میں سیف سٹی پراجیکٹ جرائم کی شرح کو کنٹرول کرنے کے لیے معاون ثابت ہوا ہے۔سیف سٹی کی کارکردگی نے پولیس کو اپنا معیار بڑھانے میں مدد فراہم کی ہے اسی کی بدولت آج ون فائیو کے ڈیٹا کو مثال بنا کر جرائم کی شرح میں کمی کا دعوی کیا جاتا ہے درحقیقت یہ کمی کا موجب سیف سٹی اور اس کے آفیسرز ہی بنے ہیں۔ پولیس فورس کو شہریوں کے ساتھ اچھے اخلاق اور برتا? کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ سسٹم میں شفافیت اور جدت کی وجہ سے جرائم کی رپورٹنگ اور اندراج میں اضافہ ہوا جس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جرائم بڑھ گئے ہیں۔ حالانکہ اگر پولیس کے نظام میں کمپیوٹرائز تبدیلی اور ماڈرن پولیسنگ کو مدنظر رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو جرائم پر کنٹرول کی شرح میں کئی گنا اضافہ دکھائی دیگا۔پولیس میں تنخواہ بھی کم ہے جس کی وجہ سے ”رشوت ستانی“ میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک اور مسئلہ جو پولیس کی کارکرگی کو بہتر نہیں ہونے دیتا وہ ہے ڈیوٹی ٹائم۔ دنیا بھر میں کسی ملک میں کسی شعبہ میں ڈیوٹی کا دورانیہ 24 گھنٹے نہیں ہے مگر حیران کن طور پر پاکستان میں پولیس کی ڈیوٹی 24 گھنٹے کی ہے جس کی وجہ سے اس کی کارکردگی شدید متاثر ہوئی ہے۔ کئی بار شفٹ سسٹم کے نفاذ کا عندیہ دیا گیا ہے مگر تاحال ایسا نہیں ہوا پولیس اپنا اصل کام کرنے کے بجائے اہم شخصیات کی حفاظت کے لئے اور بیرونی ممالک سے آئے VIP اشخاص، سیاستدانوں اور اعلی افسران کے محافظ کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہے، اس سے پولیس کے ادارے اور جوانوں پر بہت برا اثر پڑا ہے اور پولیس اپنے اصل مقصد سے ہٹ گئی ہے۔





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں