نوائے وقت کا زمانہ تھا اورہم سب عاشق علی فرخ صاحب کی قیادت میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر شیخ ریاض پرویز صاحب کے کمرے میں جمع تھے۔ یاد نہیں کہ میچ کرکٹ کا تھا یا ہاکی کا لیکن اتنا یاد ہے کہ پاکستان کی کامیابی پر خوب جشن منایا گیا تھا۔ میچ ختم ہوا تو شیخ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں سگریٹ کا کش لگایا اور دریافت کیا ”کون جتے؟“ (کون جیتا ہے) سب نے کہا پاکستان۔۔ شیخ صاحب مسکرائے اور کہنے لگے ”انڈیا نال ہوندا تے زیادہ مزہ آندا“ (انڈیا کے ساتھ ہوتا تو زیادہ مزہ آتا)۔ سب نے قہقہہ لگایا اور ہم سمجھ گئے کہ شیخ صاحب حسب روایت میچ کے دوران اونگھ رہے تھے۔
یہ واقعہ اس لیے یاد آ گیا کہ پاکستان اور بھارت ہمیشہ سے روایتی حریف سمجھے جاتے ہیں۔ کوئی بھی میچ ہو ہم بے شک تمام میچ ہارجائیں لیکن بھارت کے ہاتھوں شکست برداشت نہیں ہوتی۔ اب خود سوچیں پہلگام میں پہل کرنے اور پاکستان کو میزائلوں کا نشانہ بنانے والے بھارت کو اس مرتبہ ہمارے جو انوں نے جب ناک کی لکیریں نکلوائیں تو ہمیں کتنی خوشی ہوئی ہو گی۔ اس تین روزہ جنگ نے ہمیں ماضی کی جنگیں بھی یاد کرا دیں۔
یہ ستمبر 1965ء کی کہانی ہے اس رات کی کہانی جب گرمی کی شدت ختم ہوچکی تھی اور حبس نے ملتان کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ شہر میں شدید حبس اور گھٹن کی کیفیت تھی۔ جوش ملیح آبادی نے تو حبس سے نجات کے لیے لُو کی دعا مانگی تھی مگر ملتان والے تو حبس میں لُوکی دعا بھی نہیں کر سکتے کہ وہ لُو کے تھپیڑوں سے بخوبی آشنا ہیں۔ ایسا ہی حبس کا موسم تھا جب 12ستمبر1965 ء کی رات ملتان کا آسمان روشن ہو گیا۔ اور اتنا روشن ہوا کہ یہ شہر اس روشنی میں مکمل طورپر نہا گیا۔ کوئی ایک خطہ، محلہ یاعلاقہ نہیں اس روشنی نے تو پورے شہر کو چند لمحوں کے لیے دودھیا کر دیا تھا۔ آسمان پر اگرچہ چاند بھی موجود تھا۔ وہ چاندنی رات تھی لیکن اس روشنی نے تو چاند کی روشنی کو بھی ماند کر دیا تھا۔ پنکھوں یا ایئرکنڈیشنرز کا اس زمانے میں ابھی رواج نہیں تھا۔ لوگ گرمی کے موسم میں گھروں کی چھتوں پر، سڑکوں پر، گلیوں میں یا کھلے احاطوں میں سوتے تھے۔ اس روشنی سے گہری نیند میں سوئے ہوئے لوگوں کی آنکھیں بھی چندھیا گئیں اور وہ نیند سے بیدارہو گئے۔ روشنی گہری نیند سے کیسے بیدارکرتی ہے اہل ملتان کو یہ تجربہ اسی روز ہوا تھا۔ اورابھی وہ نیند سے پوری طرح بیدار بھی نہ ہوئے تھے۔ ابھی انہوں نے اس روشنی کو پوری طرح دیکھا بھی نہیں تھا کہ زور دار دھماکوں کی آواز نے انہیں خوفزدہ کر دیا۔ جو بے خبر اس روشنی سے بھی بیدارنہ ہو پائے تھے۔ وہ دھماکوں کی آواز پر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ رات کے پچھلے پہر پورا ملتان جاگ اٹھا اور پھر خطرے کے سائرن بجنے لگے۔ فضا میں طیاروں کی گھن گرج سنائی دینے لگی۔ لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ بھارت نے ملتان پر فضائی حملہ کر دیا ہے۔ برقی رو بند کر دی گئی۔ بلیک آؤٹ کے نتیجے میں شہر تاریکی میں ڈوب گیا۔ رضاکاروں نے وردیاں پہنیں اور سیٹیاں بجاتے ہوئے سڑکوں اورگلی محلوں میں نکل آئے۔ کھلے آسمان تلے سوئے ہوئے لوگ بھاگ کر کمروں اور خندقوں میں گھس گئے۔ چھت پر سویا ہوا ایک بچہ بھی دھماکے سے خوفزدہ ہو کر رونے لگا۔ ماں نے اسے سینے سے لگایا اور بھاگ کر کمرے میں چلی گئی۔ جنگی طیاروں کی بھاگ دوڑ کچھ دیر جاری رہی اور پھر سناٹا ہوگیا۔ مہیب تاریکی اوراس سے بھی زیادہ مہیب سناٹا۔ یہ ملتان کی ایک اور رات تھی جو شہروالوں نے جاگ کرگزاری تھی۔
حملہ کہاں ہوا ہے؟کس جگہ کو نشانہ بنایا گیا؟ کتنا نقصان ہوا ہو گا؟ یہ سب کچھ رات بھر زیربحث رہا۔ ہرشخص یہ سمجھتا تھا کہ جیسے بم اس گھر کے قریب ہی کہیں گرے ہیں۔ رات اسی بے یقینی کے عالم میں گزری۔ صبح کی اذان سنائی دی تو مسجدیں نمازیوں سے کھچا کھچ بھرگئیں۔ سب کے چہروں پر پریشانی اور آنکھوں میں بہت سے سوال تھے۔ جنگ کے دوران اگرچہ مساجد میں ملکی سلامتی کی دعائیں پہلے ہی مانگی جارہی تھیں لیکن اس رات ملتان کی مسجدوں میں صرف شہر کی سلامتی کی دعائیں کی گئیں۔ اورجن ماؤں کے بیٹے محاذ پر تھے وہ اپنے اپنے گھروں میں مصلے بچھا کر بیٹھ گئیں۔ صبح صبح سب کے کانوں کے ساتھ ریڈیو لگا ہوا تھا۔ سب سے پہلے بی بی سی سنا گیا کہ اطلاعات کا مصدقہ ذریعہ اس زمانے میں بی بی سی کو ہی سمجھا جاتا تھا۔ بی بی سی پر جنگ کی خبریں توتھیں مگر ملتان کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ دن چڑھا تو معلوم ہوا کہ حملہ قاسم بیلہ کے قریب ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ بھارتی طیاروں نے اس علاقے پر بمباری کی تھی لیکن جو بم پھینکے گئے ان میں سے صرف ایک پھٹ سکا اور باقی ریت میں دھنس گئے۔ کوئی جانی نقصان نہیں ہواتھا۔ کچھ بھینسیں البتہ بم کی زد میں آ کر ماری گئیں۔ اور وہ جو شہر روشنی میں نہا کر دودھیا ہو گیا تھا وہ دراصل بھارتی طیاروں سے پھینکے گئے روشنی کے گولے تھے جن کے ذریعے وہ ہدف کا تعین کرنا چاہتے تھے اور ہدف ملتان ایئر بیس تھا۔
وہ بچہ جو 1965ء کے حملے میں چیخیں مارکر اٹھ بیٹھا تھا اورجسے اس کی ماں رات بھر سینے سے لگا کر بیٹھی رہی تھی۔ وہ اب 1970 میں اس نئی جنگ کی باتیں سنتا تھا۔اور سکول داخل ہو چکا تھا۔ ان دنوں سکول تو بند تھے لیکن شہر کی دیواروں پر کرش انڈیا (بھارت کو کچل دو) کے نعرے درج تھے اس کے دادا روزانہ صبح شام بی بی سی پر ”جہاں نما“اور ”سیربین“میں جنگ کی تفصیلات سنتے تھے۔ پھرایک شام اس نے دیکھا کہ گھرمیں ریڈیو پر ایک تقریرسنائی دے رہی ہے۔ ایک ٹرانسسٹر تھاجس کے پاس بیٹھے اس کے دادا غور سے وہ تقریر سن رہے تھے۔ ”دشمن ہماری لاشوں سے گزرکررہی مشرقی پاکستان فتح کرے گا“۔ سپہ سالار کی آواز فضاؤں میں گونجی اور اس کے دادا کاچہرہ خوشی سے دمک اٹھا لیکن اس سے اگلے روز ہی اس بچے نے دیکھا کہ اس کی والدہ رو رہی ہیں۔ آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ گلوگیر آواز میں اس کی ماں نے بتایا کہ ڈھاکہ پر قبضہ ہوگیاہے۔ دشمن اس بار بھی اسی غلط فہمی میں آیا تھا کہ وہ 1970 کی طرح پاکستان کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اسے معلوم نہیں تھا یہ 2025 ہے پاکستان اب ایٹمی قوت بھی بن چکا ہے۔