سب حیران تھے ٹریفک وارڈن کو کیا ہو گیا ہے۔ ایک بڑی گاڑی کو روک لیا ہے اور کاغذات مانگ رہا ہے۔بھائیو یہ میں دبئی کی نہیں پاکستان کی بات کررہا ہوں، پاکستان میں بھی ملتان جیسے شہر کی جہاں افسر آتے ہیں تو سر جھکا کے کام کرتے ہیں تاکہ کوئی بڑی شخصیت ناراض ہو کر تبادلہ نہ کرا دے۔ کالے رنگ کی بڑی گاڑی کسی عام آدمی کی تو ہو نہیں سکتی۔ ہاں صاف نظر آ رہا تھاکہ اس کے شیشے کالے ہیں، جو قانون کے مطابق جائز نہیں۔ شاید اسی وجہ سے وارڈن نے روکنے کی جرائت کی تھی۔ میں اتفاق سے قریب ہی ایک میڈیکل ہال سے ادویات لے رہا تھا۔ میں نے دیکھا گاڑی کے بائیں طرف والا شیشہ نیچے ہوا، ڈرائیور نے وارڈن کو اشارہ کیا، اس طرف جائے۔ اندر بیٹھے ہوئے شخض نے غالباً ٹریفک وارڈن کو اپنا بتایا ہوگا، لیکن وارڈن نہ مانا۔ اس نے کہا شیشوں سے کالا پیپر اتار کر جانے دے گا اور چالان بھی کرے گا۔ بس پھر کیا تھا، وہ شخص آپے سے باہر ہو گیا۔ اس کی چلائی ہوئی آواز دس فٹ دور مجھ تک بھی پہنچ رہی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا تم مجھے جانتے نہیں میں تمہارے ایس پی کی بھی چھٹی کرا دوں گا، تمہیں نوکری سے نکلوانا تو کوئی بات ہی نہیں، مگر وارڈن نے اپنا وہی دھیما لہجہ رکھا اور سر سر کہہ کر انہیں شیشے صاف کرنے کا کہتا رہا۔اتنے میں کچھ لوگ بھی اکٹھے ہو گئے۔ وہ وارڈن کی جرائت اور قانون پسندی کی داد دے رہے تھے۔ اس بڑی گاڑی والے شخص نے کہیں کال ملائی اور فون وارڈن کو پکڑانے کی کوشش کی، وارڈن نے کہا سر یہ میری ڈیوٹی میں شامل نہیں میں اپنا فرض ادا کررہا ہوں، اس شخص نے ایک بار پھر تم مجھے جانتے نہیں کی گردان کی اور ڈرائیور سے کہا گاڑی چلاؤ۔ وارڈن سامنے کھڑا ہو گیا اور اس کے ساتھ وہاں موجود لوگ بھی گاڑی کے آگے آ گئے۔ مجھے یہ منظر بہت اچھا لگا، ایک سرکاری اہلکار کی ڈیوٹی میں اس کا ساتھ دینا قابل ستائش تھا۔ہم ہی یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ٹریفک وارڈن صرف موٹرسائیکل والوں کا چالان کرتے ہیں بڑی گاڑیوں کی طرف دیکھتے بھی نہیں، مگر ملتان میں تو ایک تاریخ رقم ہو رہی تھی۔ پھر سب نے دیکھا کہ اس شخص نے اپنے ڈرائیور سے کہا شیشوں پر سے کالے پیپر اتار دے۔مجھے پہلی بار لگ رہا تھا کہ آج اس بیانیے کو شکست ہو گئی ہے کہ تم مجھے نہیں جانتے۔ وارڈن نے چالان چٹ بھی حوالے کی اور ڈرائیور سے کہا جب ادا ہو جائے تو اپنا شناختی کارڈ لے جانا۔ اس واقعہ کے دوران میرے ساتھ ایک صاحب کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا دبئی میں کسی کی جرائت نہیں ہوتی کہ تم مجھے نہیں جانتے والا جملہ کہے۔ وہاں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایسے موقع پر کسی کو کال ملا کے ٹریفک سارجنٹ سے کہے کہ وہ فون سنے۔ ایسا کرنے کی صورت میں وہ سیدھا اندر جائے، یہ پاکستان ہی ہے جہاں ہر شخص تمن خان بنا ہوا ہے۔ تم مجھے نہیں جانتے کے خبط عظمت میں مبتلا ہے۔ گاڑی چلی گئی تو میں نے ٹریفک وارڈن سے کہا تمہارے کارنامے کی تو خبر لگنی چاہیے۔ اس نے کہا سر ایسا نہ کریں، یہ لوگ بہت تگڑے ہوتے ہیں، میرے پیچھے پڑ جائیں گے۔ بس میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے، یہ کوئی کارنامہ نہیں ہے، جس ملک میں قانون اپنا اثر کھو دے وہاں یہ بیانیہ زیادہ جڑ پکڑتا ہے۔پھر ہرشخص یہ جتانے لگتا ہے کہ میں ہی قانون ہوں، مجھے مانو۔ ”تم مجھے نہیں جانتے“، کو تکیہ کلام کے طور پر اپنا لیا گیا ہے۔ آج کل تجاوزات کے خلاف مہم چل رہی ہے تو غیر قانونی تعمیرات گرانے کے لئے جانے والوں کو بھی ڈرانے دھمکانے کے لئے یہ جملہ ضرور بولا جاتا ہے جو کمزور دل کے ہوتے ہیں وہ ڈر جاتے ہیں، جن کے دل مضبوط ہوں وہ اس جملے کو ہنسی میں اُڑا کر اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ اس جملے کا استعمال خاص طور پر وہ لوگ کرتے ہیں جو جان بوجھ کر قانون شکنی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ آپ کی زندگی میں بھی آئے ہوں گے۔ مجھے کالم لکھنے کی وجہ سے اس کا بارہا تجربہ ہوا ہے۔ اب تو میں سرکاری ملازمت کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو گیا ہوں تاہم جب تک پروفیسری رہی لکھنے کا سفر بھی جاری رہا۔ایک بار پنجاب کے ایک وزیر کی کرپشن پر کالم لکھا تو انہوں نے میری یہ کمزوری پکڑ لی کہ میں سرکاری ملازم ہوں، یہ پرویز مشرف کا زمانہ تھا۔ ایک دن فون آیا دوسری طرف وزیر صاحب تھے۔ انہوں نے کہا کالم لکھ کر الزامات کی تردید کریں وگرنہ آپ مجھے جانتے نہیں میں کس حد تک جا سکتا ہوں۔ میں نے کہا آپ ہر حد تک جا سکتے ہیں یہ آپ کی صوابدید ہے، لیکن میں نے کالم ثبوتوں کی بنیاد پر لکھا ہے جو میرے پاس محفوظ ہیں۔ انہوں نے دھمکیاں دیتے ہوئے فون بند کر دیا۔ ان دنوں میں روزنامہ ”خبریں“ میں ان کہی لکھتا تھا۔ میں نے ضیاء شاہد مرحوم کو فون کرکے تمام صورتِ حال بتائی، وہ کہنے لگے یہ تو بڑا منقسم مزاج آدمی ہے، تمہارے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے۔ میں نے کہا، میرے علاقے کا ہے، میں اس کی اوقات جانتا ہوں، میں نے صرف آپ کو اطلاع دینی تھی۔ تین روز گزرے ہوں گے کہ گورنمنٹ علمدار حسین اسلامیہ کالج کے ہیڈکلرک ملک منیر احمد بھٹہ مرحوم شام کے وقت پریشانی کے عالم میں میرے گھر آئے اور کہا اچھی خبر نہیں، آپ کا تبادلہ نارا کھنجور جو ضلع کیمبل پور میں ہے، کر دیا گیا ہے۔ پھر انہوں نے کہا محکمہ تعلیم نے پنڈی گھیپ کے نزدیک یہ کالج ایسے اساتذہ کے لئے بنایا جنہیں سزا کے طو رپر بھیجنا مقصود ہو کیونکہ یہاں کوئی سڑک نہیں جاتی اور گدھوں پر بیٹھ کر جانا پڑتا ہے۔یہاں کا پانی پینے سے رگوں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ اس پر مجھے یاد آیا یہ تو وہی کالج ہے جہاں ضیاء الحق کے دور میں اصغر ندیم سید، ڈاکٹر صلاح الدین حیدر، عابد شمس اور دیگر ایسے اساتذہ کو بھیجا گیا تھا جو مارشل لاء کے خلاف تھے۔
یہ ایک لمبی داستان ہے کہ یہ تبادلہ کیسے واپس ہوا۔ بس یہ سمجھئے کہ میں بھی اس ٹریفک وارڈن کی طرح ڈٹ گیا تھا جس نے بڑی گاڑی کے شیشے اتروا کر چھوڑے تھے۔ میں نے جب دو تین مزید کالم اس موضوع پر لکھے تو وزیر صاحب میرے گھر آ گئے اور پنجابی میں کہا بابا تو جیتا میں ہار گیا، ہن بس کر دے، تب میں نے سوچا جملے میں کافی تبدیلی آگئی ہے۔ تم مجھے نہیں جانتے سے ہن بس کر دے تک کا سفر بڑی تبدیلی ہے جس معاشرے میں تمیز بندہ و آقا ہو، جہاں بالا دست اور پیسے والے، غریبوں پر جھوٹے پرچے کٹوا دیتے ہوں، جہاں کسی دفتر میں کام کرنے والے ایماندار ملازم کو کرپشن میں رکاوٹ بننے پر جھوٹی درخواستوں کے ذریعے خوفزدہ کیاجاتا ہو، جہاں کسی مزارعے کی بیٹی کو اٹھوا کر کوئی وڈیرا جھوٹے مقدمات کی دھمکی دے کر چپ رہنے پر مجبور کر دیتا وہاں یہ بیانیہ زیادہ پروان چڑھتا اور سکہ ء رائج الوقت بن جاتا ہے کہ تم مجھے نہیں جانتے۔ اگر قانون سخت ہو۔ سب کو برابری کی نظر سے دیکھے تو کسی کی جرائت نہ ہو وہ اپنے بالادست ہونے کی تڑی لگائے، مگر ہمارا قانون تو موم کی ناک ہے۔