دو ماہ سے گردن میں تکلیف تھی۔ فرق خاک پڑتا، ایک مجھے یہ بیماری بھی تو ہے کہ ذرا آرام محسوس کروں تو دوائی چھوڑ دیتی ہوں۔ عید کے بعد گردن میں مسلسل تکلیف تھی۔ اوپر سے نند کے بیٹے کی شادی۔ اب تکلیف جائے بھاڑ میں، شادی کی تیاری تو بھر پور ہونی چاہئے۔ ساس نے کہا سیالکوٹ جا رہی تو ڈاکٹر کو دکھا کر آنا۔ گھر واپسی پہ انھوں نے پوچھا کیا کہا ڈاکٹر نے۔ کہا اب میں شادی کی تیاری کرتی کہ ڈاکٹر کے پاس دوڑتی۔ بعد میں آرام سے دکھا لوں گی۔ جس پر ساس کو غصہ تو بہت آیا لیکن بہوؤں کے آگے کس ساس کی چلی ہے۔ بھانجے کی شادی پہ میاں دیوانے ہوئے پھررہے تھے کہنے لگے مجھے لگتا تمہارا میک اپ ٹھیک نہیں کیا سیلون والی نے۔ میاں کو خوب کوسا دل میں نہیں منہ پر۔ کہا پورے ہال میں نظر دوڑائیں میرے علاوہ کوئی خوبصورت لگ رہا تو بتائیں۔ اگر نہیں لگ رہا تو مجھ سے اب دور ہی رہئے گا میرے قریب آکر بتانے کی کوشش ہر گز نہ کرنا۔ ایسے ہی بار بار آکر خراب میک اپ کا بتاتے اور منہ کی طرح میرا موڈ بھی خراب ہوجاتا، جبکہ میں اچھی طرح جانتی تھی خرابی میک اپ میں نہیں منہ میں ہے (درد کی وجہ سے)۔ میاں کے بھانجے کی شادی ختم ہوئی تو اچانک سے میرے بھانجے کی شادی آگئی۔ جس کے بارے خود بھانجے کو بھی یقین نہیں تھا کہ راتوں رات اس کے آنگن میں من چاہی دلہن اتر سکتی ہے۔ وہ ضد کررہا تھا لو میرج کرنے کی۔ ماں باپ مان کے نہیں دے رہے تھے۔ بہن کو سمجھایا بھلا آپ لوگوں نے ارینج میرج کر کے کیا تیر مار لیا جو اس کا رہ جائے گا۔ بہو بہو ہوتی ہے لو میرج سے آئے یا ارینج سے۔ شکر ہے یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی، ورنہ بہو تو آہی جانی تھی۔ منگنی کی ٹیرھی رسم کرنے کی بجائے صراط مسقیم پہ چلتے ہوئے شادی کی تاریخ رکھ دی گئی اور ایسی رکھی کہ بہن خود بھول جاتی کس دن منڈا کوڑی (گھوڑی)چڑھنا۔ ایک بار پھر سیالکوٹ میں ڈیرہ ڈالا۔ سوچا اب کہ کچھ ایسا ہونا چاہیئے کہ گھر واپسی پہ کہنے والی بنوں یہ دورہ کامیاب رہا۔ لہٰذا فزیو تھراپی کروانے کی ٹھانی۔ اس کا اتنا فائدہ ہوا کہ دلہن کا والہانہ استقبال کرنے کے قابل ہوگئی۔ لیکن یہ کیا ولیمے کی اگلی صبح پتہ چلا دلہن کے تو قدم ہی بھاری ہیں۔
گردن درد میں آرام کوئی نہیں اور دشمن نے کتے بھی چھوڑ دیئے ہیں۔ میاں کا صبح دس بجے فون آیا پتہ چلا ملکی حالات خراب ہیں انڈیا نے حملہ کیا رات کو؟ کہا اچھا سو کہ اٹھتی ہوں تو دیکھتی ہوں اور فون آف کر دیا، انہوں نے حسب معمول گالیاں دی ہوں گی دل میں، کہ منہ پر دینے کی جرات کبھی نہیں کی۔ خیر دشمن باز آیا نہ درد۔ بدھ کو میاں کا دوبارہ فون آگیا جمعہ کو گھر آنا ہے تو ڈاکٹر کو دکھا کر آنا پھر نہیں لیکر آنے والا میں۔ سوچا اب کی بار ایسے گئی تو کسی نے گھر میں گھسنے نہیں دینا۔ چیک اپ کے لئے ہسپتال گئی تو ڈاکٹر نے نسخہ بدل دیا اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ میاں صاحب جمعہ کو وعدے کے مطابق آن موجود ہوئے، لیکن رات اپنی بہن کی طرف چلے گئے ہفتے کی صبح آٹھ بجے کال کر دی، گھرجانے کا پروگرام تو وڑ گیا۔
حالات بہت خطرناک ہیں۔ ساری رات ہم نے جاگ کرگذاری ہے۔ کہا میری نیند کے دشمن کیوں ہوگئے؟ تو کہنے لگے ساری رات بلیک آوٹ رہا پاک فوج نے انڈین ڈرون گرائے ہیں اور دشمن کے گھر میں گھس کر ان کے طیارے بھی تباہ کئے ہیں۔ کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کہا صاحب پھر یہ چھپ کے بیٹھنے کا نہیں۔ یہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ خوابوں کے پورا ہونے کا اس سے بہتر زندگی میں موقع کبھی نہیں ملے گا۔ چلئے چل کر کارخانہ چلاتے ہیں فوجیوں کو برف سپلائی کریں گے، خوب منافع کمائیں گے۔ مہنگا بلاک بیچنے پر کوئی مائی کا لال آپ کو روک نہیں سکتا۔ کسی کارخانے کا مالک نہیں پوچھے گا تم نے برف مہنگی کیوں بیچی۔
بھاگم بھاگ گھر پہنچ جاتے کہ راستے میں پٹرول پمپ پر رش دیکھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا پاک آرمی نے انڈین ڈرون مار گرایا ہے۔ جس کے ٹکرے مجھ سمیت عوام کے جم غفیر نے خوشی خوشی دیکھے۔ کسی ایک کے بھی چہرے پر خوف نہیں تھا۔ پاک فوج زندہ باد کا نعرہ لگاتے پسرور اپنے گھر کی طرف بڑھے۔لیکن یہ کیا سہہ پہر چاربجے پتہ چلا امریکی لْچ کی وجہ سے سیز فائر ہو گیا ہے۔ دشمن اور ہمارے ارادے ایک ساتھ ملیامیٹ ہوگئے۔ اس خبر نے ایسے لوز موشن لگائے کہ میں انڈین آرمی کی طرح اٹھنے کے قابل نہ رہی۔ میں انڈین آرمی کی طرح شرمندگی سے سر اٹھانے کے قابل نہ رہی۔ ساس گھر نہیں تھی گھر پہ میرا راج تھا لیکن میں دیکھنے کے لائق کہاں۔ خفت سے کتنے دن اپنے ہی گھر میں ادھ موئی پڑی رہی۔ میاں کے ساتھ جا کر درد کے انجکشن لگوا آتی۔ متواتر چار دن انجکشنز لگنے کے بعد بھی درد میں کمی نہیں آئی تو اللہ سے اپنے گناہوں کی سزا معاف کروانے میں لگی گئی۔ کہا پتہ ہے گناہگار ہوں پر اتنی بھی نہیں جتنی سزا دے رہے، میں گنہگار ہوں پر تو تو رحیم ہے چل معاف کردے۔ دل ہی دل میں اپنے پیاروں سے بھی معافی مانگ لی۔ وقتاً فوقتاً حسب توفیق کلمہ طیبہ اور استغفار کا وردبھی کر لیتی، اب صرف عزرائیل کا انتظار تھا کہ ساس بیٹی کی طرف سے واپس آگئیں۔
مجھے دیکھا تو پریشان ہوگئیں۔ اپنے بیٹے اور میری ایک ساتھ کلاس لی۔ سوئے ہوئے لوگو کبھی تو اٹھ بھی جایا کرو۔ بیٹے سے کہا اس کی حالت دیکھو کیا ہورہی، فوراً ہسپتال لے کر جاؤ اُسے۔ وہاں جاکر پتہ چلا کہ بہت زیادہ ڈی ہائیڈریشن ہو چکی ہے۔ تین دن متواتر ڈرپس لگنے کے بعد آنکھیں کھلی ہیں تو سوچا اپنے قارئین کو باسی اور تازہ حالات سے آگاہی دے دوں۔ تو قارئین خبر یہ ہے کہ آپریشن بنیان مرصوص ختم ہوچکا ہے لیکن درد باقی ہے دشمن کابھی اور میرا بھی۔