ڈمپر گردی  لاہور بھی پہنچ گئی……!

  ڈمپر گردی  لاہور بھی پہنچ گئی……!



 کراچی ایک بہت بڑا شہر ہے،اس کے ڈھیروں مسائل ہیں جن میں موت بانٹتے ڈمپر بھی ہیں۔ زیرزمین پینے کا صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے کینچھر جھیل کراچی والوں کو پانی مہیا کرتی ہے۔ کراچی میں اس پانی کی ”نیلامی“ کر کے شہر میں بنے ہائیڈرنٹس طاقتور لوگوں میں بانٹ دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ پانی کے ٹینکر مہنگے داموں بیچ سکیں۔ اس طرح ڈمپروں کو سڑکوں پر دندنانے اور لوگوں کی جانیں لینے کی کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔ اس سال ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 250 سے 300 بتائی جاتی ہے، لیکن یہ تعداد اس سال گزرے دنوں سے یقینا زیادہ ہے۔ لاہور والے خوش قسمت ہیں کہ ان کے زیرزمین میٹھے پانی کا سمندر موجود ہے۔ یہ پانی پہلے بمشکل چند فٹ کھدائی پر نکل آتا تھا، مگر بے دریغ استعمال کے باعث اب کم از کم 200 سے 300 فٹ نیچے جانا پڑتا ہے۔واسا تو 700 سے 800 فٹ کی گہرائیوں کا پانی سپلائی کرتا ہے۔ یہ پانی پینے کے قابل ہوتا ہے لہٰذا لاہور کی سڑکوں پر واٹر ٹینکر کی شکل میں بدمست پاگل ہاتھی گھومتے نظر نہیں آتے، لیکن لاہور میں ایک اور محکمہ ہے جس کا کام صفائی اور ستھرائی ہے۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ (ایل ڈبلیو ایم سی) نامی اس محکمے کے ڈمپر اب لگتا ہے کراچی کے ڈمپرز کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہورہے ہیں۔ لاہور میں گزشتہ ہفتے ایل ڈبلیو ایم سی کے ایک ڈمپر نے جو شادمان سے کچرا لے کر لکھو ڈیر جا رہا تھا، پاکستان منٹ آخری سٹاپ پر تمام حدیں پار کر دیں۔ اِس ڈمپر ڈرائیور نے نہ صرف تیزرفتاری سے گاڑی چلائی، بلکہ ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تین رکشوں اور دو موٹر سائیکلوں کو بھی ٹکر مار دی،ایک رکشہ اس کے بالکل نیچے کچلا گیا۔قرآن پاک حفظ کرنے جانی والی دو بچیاں،ایک استانی اور دو مرد کل پانچ افراد دنیا سے موقع پر کوچ کر گئے۔ یہ خاتون قرآن پڑھانے اور یہ بچیاں قران پاک حفظ کرنے جا رہی تھیں۔ یہ گھر سے مدرسے جانے کے لئے نکلی تھیں، مگر ان کو راستے میں ہی ایک ”پاگل وحشی“ نے کچل ڈالا۔ یقینا ہمیں کسی شخص کو پاگل یا وحشی کہنے کا کوئی حق نہیں، لیکن یہ علم ہونے کے باوجود کہ حد رفتار 40 یا 50 کلومیٹر ہے، اس سے تیز چلایا تو حادثہ ہوسکتا ہے، خاص طور پر بچوں کے سکول جانے کے اوقات میں کیسے کوئی سمجھدار شخص گاڑی 70 سے 80 کلومیٹر کی رفتار سے دوڑا سکتا ہے، مگر اس  ”پاگل شخص“ نے ایسا ہی کیا، جانے والے تو چلے گئے۔ 

ڈرائیور رکشہ چلا کر اپنے بچوں اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرتا تھا، اس کے گھر والوں کا کیا بنے گا؟ کسی کو اس سے کیا غرض۔ آج اتنے دن ہوگئے کہیں سے کسی نے کسی معمولی سی امدادی رقم کا بھی اعلان نہیں کیا۔ پنجاب پولیس کا ایک سپاہی اگر شہید ہوجائے تو ایک کروڑ روپیہ دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کا اگر ایک غریب،بے بس، مظلوم شہری کسی سرکاری کارندے کے ہاتھوں ”مارا جائے“ تو سرکار کی کوئی تو ذمہ داری بنتی ہو گی،یا وہ ذمہ داری صرف 10، 20، 50ہزار روپے ہے۔ افسوس یہ ہے کہ اس حادثے کی ذمہ داری ایل ڈبلیو ایم سی نے قبول کرنے سے ہی انکار کر دیا ہے (کہ ڈمپر کرائے پر تھا لہٰذا ڈمپر سپلائی کرنے والوں کا کنٹریکٹ منسوخ کر دیا) ہم بے قصور ٹھہرے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ ستھرا پنجاب کی مہم چلا رہی ہیں، وہ پورے پنجاب کو ایک صاف ستھرا ماحول دینا چاہتی ہیں جو بڑی خوشی کی بات ہے۔ ہم تو سن کے ہی خوش ہو جاتے ہیں، لیکن جس محکمے LWMC کو پورے پنجاب کے لئے ماڈل قرار دیا جا رہا ہے اس کی حالت یہ ہے کہ اس کے پاس ”سامان“ تک پورا نہیں ہے۔ اب ان بچوں کے مرنے کے بعد ایل ڈبلیو ایم سی نے  ”اعتراف“ کیا ہے۔ میں اس اعتراف  پر یہی کہوں گا کہ ہمارے پاس تو مشینری پوری نہیں،ہم نے تو کوڑا اٹھانے کی ذمہ داری ٹھیکیدار کو سونپی ہوئی ہے۔ وہ ہمارے ٹرانسفر سٹیشن سے کوڑا اُٹھا کر لکھو ڈیر یا یا دوسرے کوڑا جمع کرنے والے مقامات پر پہنچاتے ہیں لہٰذا ہم  ”بری الذمہ“ ہیں، ڈمپر ڈرائیور  سرکار کا ملازم نہیں نکلا لہٰذا اس پر سخت ترین پرچے کرا دیئے گئے ہیں، لیکن کیا کسی نے ایل ڈبلیو ایم سی افسران سے یہ پوچھا کہ کیا اس گاڑی کا فٹنس سرٹیفکیٹ چیک کیا تھا؟ کیا یہ چیک کیا گیا تھا کہ گاڑی کی حالت کیسی ہے؟ کیا گاڑی سڑک پر چلنے کے قابل ہے؟ کیا سرٹیفکیٹ جاری کرنے والوں کو جوابدہی کے لئے طلب کیا گیا کہ تم نے اس گاڑی کو فٹنس سرٹیفکیٹ کیسے دیا جس کی بریک فیل ہوئی (یا حسب معمول میز کے نیچے سے لفافہ پکڑ لیا)۔ اس حادثے سے صرف تین چار دن قبل لاہور کینال پر تاجپورہ سے پہلے ایک انتہائی ٹوٹا پھوٹا ایل ڈبلیو ایم سی کا کوڑا اٹھانے والا ٹرک دیکھا تھا تو سوچا تھا کہ کیا یہ مشینری پاکستان کے دل کی سڑکوں سے کوڑا اُٹھا رہی ہے جس میں سے زیادہ کوڑا تو راستے میں جاتے جاتے گر جائے گا (چند سال پہلے تک ایل ڈبلیو ایم سی کی ساری مشینری ہی ٹوٹی پھوٹی تھی، اب رنگ پیلے سے بدل کر سبز کردیا گیا ہے)۔ نجانے مریم نواز شریف صاحبہ کو کونسی مشینری دکھائی جاتی ہے۔ کاش وہ اپنی کسی ”خصوصی ٹیم“ پرویز رشید صاحب کی نگرانی  کے ذریعے لاہور میں ہونے والے ان کاموں کا  ”اصلی جائزہ“ بھی لے سکیں تاکہ ”ہمارا مستقبل یہ بچے“ مرنے سے بچ سکیں۔  ویسے بھی یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اسی ہفتے راولپنڈی میں دو واقعات ہوئے ہیں، راولپنڈی میں جی ٹی روڈ پر ایک ڈمپر نے ایک موٹر سائیکل کو ٹکر مار دی، موٹر سائیکل سوار زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہسپتال پڑا ہے اور اس کے ساتھ بیٹھے بیوی اور بچہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ڈمپر ڈرائیور ”حسب ہدایت مالکان بھاگ“ گیا۔ پنڈی میں ہی جی پی او چوک میں ڈمپر نے رکشہ اور موٹر سائیکل کو ٹکر ماری، ایک لڑکا اور ایک لڑکی جان سے گئے، دو افراد زخمی ہوئے، ڈمپر ڈرائیور بھاگ نکلا۔ لگتا ہے یہ ابتدا ہے، لاہور اور پنجاب والوں کو سوچنا چاہئے کہ خدانخواستہ کہیں ہم کراچی کی لائن پر تو نہیں چل پڑے؟ کہیں ہم کراچی نہ بن جائیں۔ وہاں تو ایم کیو ایم کے گورنر کامران ٹیسوری پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے خلاف کوئی بیان تو دے ہی دیتے ہیں، لیکن ہماری وزیراعلیٰ مریم نوازشریف صاحبہ خوش قسمت ہیں کہ پنجاب کے گورنر نے پیپلز پارٹی سے تعلق ہوتے ہوئے بھی اس مسئلے پر اپنی زبان نہیں کھولی۔

(نوٹ) کیا لاہور والا خونی ڈمپر کہیں کراچی کی طرح افغانی تو نہیں۔

٭٭٭٭٭





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں