اردو ادب کا شاید ہی کوئی طالب علم ایسا ہو جو ڈاکٹر سید عبداللہ کے نام اور ادب میں اُن کے کارناموں سے واقف نہ ہو، میں جب1980ء میں شعبہ اردو زکریا یونیورسٹی کی ایم اے کلاس کا طالب علم تھا تو ڈاکٹر سید عبداللہ کا اپنے اساتذہ ڈاکٹر اے بی اشرف،ڈاکٹر عبدالرؤف شیخ اور ڈاکٹر نجیب جمال سے بہت ذکر سنا۔ ڈاکٹر اے بی اشرف سے تو ڈاکٹر سید عبداللہ کے بہت قریبی مراسم تھے۔ وہ اگرچہ ڈاکٹر اے بی اشرف کے استاد تھے،لیکن پھربھی محبت کا تعلق بہت گہرا تھا،وہ جب ملتان آتے تو ڈاکٹر اے بی اشرف کے ہاں ٹھہرتے،وہ جس طرح اپنے استاد کی ایک مرید کی طرح خدمت کرتے،اِس کے گواہ اُن کے بیٹے پروفیسر نعیم اشرف ہیں۔اُن کا کہنا ہے پاؤں دھو دھو کر پینے کا محاورہ اُن پر صادق آتا ہے،ہم اتنے خوش قسمت نہیں تھے کہ ڈاکٹر سید عبداللہ کو دیکھ سکتے، لیکن اُن کے بارے میں سُن کر اور پڑھ کر اُن کی شخصیت کا ایک ایسا نقش ثبت ہوا کہ جس کے نقوش آج تک مٹ نہیں پائے۔اس تناظر میں جب مجھے عبدالستار عاصم کے توسط سے جو قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے سی ای او ہیں،الطاف حسن قریشی کے انٹرویوز پر مشتمل کتاب ”دانش گفتگو“ ملی اور اُس میں شامل فہرست میں ڈاکٹر سید عبداللہ کے نام پر نظر پڑی تو دلچسپی کا ایک شدید ریلا مجھے اپنے ساتھ بہا لے گیا۔یہ انٹرویو الطاف حسن قریشی نے جولائی 1961ء میں کیا تھا۔ اُس وقت ڈاکٹر سید عبداللہ کی عمر 55سال کے لگ بھگ تھی۔یہ انٹرویو اُن کی رہائش گاہ واقع سمن آباد لاہور میں کیا گیا،جہاں ڈاکٹر صاحب چار پانچ سال سے مقیم تھے۔ اُس وقت وہ اورینٹل کالج لاہور کے پرنسپل تھے اور اُن کی وجہ سے درسگاہ اردو کے حوالے سے سب سے معتبر مقام حاصل کئے ہوئے تھی۔ انٹرویو کا پہلا حصہ بہت دلچسپ ہے،جس میں ڈاکٹر سید عبداللہ نے اپنی زندگی کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کا فارسی اشعار میں جواب دیا۔ تاہم یہ بھانپ کر جوابات ٹھوس کوائف پر مبنی چاہئیں، انہوں نے بتایا کہ وہ 1906ء میں ضلع ہزارہ کی تحصیل مانسہرہ میں پیدا ہوئے، اُن کے والد حکیم سید نور احمد شاہ صاحب ِ علیم، صاحب ِ طریقت بزرگ تھے،پرائمری اپنے گاؤں، مڈل مانسہرہ میں، نویں جماعت ایبٹ آباد میں پاس کی، لڑکپن ہی میں اُس زمانے کی بڑی تحریک ”خلافت“ میں شامل ہو گئے، تحریک سرد ہوئی تو لاہور کی مساجد میں عربی کی تعلیم حاصل کی،اس کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں مولوی عالم میں داخل ہو کر مولانا عبدالعزیز میمن جیسے استادسے کسب فیض کیا۔ پھر منشی فاضل اور اِس سلسلے میں صرف انگریزی کے سب امتحان پاس کر کے1925 میں ایم اے فارسی، 1932ء میں ایم اے عربی، 1935ء میں ڈی لٹ، جرمن انٹرمیڈیٹ اور لائبریری سائنس کا امتحان پاس کیا۔ 1924ء سے اورینٹل کالج اُن کی زندگی کا حصہ بن گیا، جہاں پروفیسر اقبال، پروفیسر حافظ محمود شیرانی اور پروفیسر محمد شفیع سے علم و فضل کی منازل طے کیں۔
اس انٹرویو میں ڈاکٹر سید عبداللہ نے ادب و فن پر جو گفتگو کی ہے وہ ادب کے طالب علموں کے لئے توشہئ خاص ہے۔جب اُن سے سوال پوچھا گیا تو کہ آپ ادب کا کیا تصور رکھتے ہیں اور زندگی میں اس کی کیا اہمیت ہے تو انہوں نے کہا مناسب ہو گا پہلے فن پر کچھ گفتگو ہو جائے کیونکہ ادب بھی ایک فن ہے۔یہ اس لئے کہ آج کل اس کے متعلق بہت سی پریشان خیالی پائی جاتی ہے۔غور کیا جائے تو فن انسانی طبیعت کے ایک ناگزیر داخلی تقاضے کو پورا کرتا ہے اور اپنی اصل میں بڑی آزاد،بے ساختہ اور معصوم چیز ہے۔جب اُن سے سوال کیا گیا کہ فن اور ادب بلا ارادہ اور بے مقصد ظہور میں آتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا ”جی ہاں، مگر یہ نہ بھولئے کہ ادبی یا فنی اظہار کسی داخلی یا خارجی تحریک کا محتاج ہوتا ہے۔یہ تحریک زندگی کے شعور اور حسن کے احساس سے پیدا ہوتی ہے،مگر زندگی کا شعور اور حسن کا احساس، یہ دونوں چیزیں ناقابل تعریف ہیں اورانہیں عقلی تعریفوں اور تشریحوں میں مقید کرنا ممکن نہیں تو سب نے یہ کہہ دیا کہ فن اور شاعری ایک لحاظ سے وجدان والہام کی طرح کی چیزیں ہیں“۔یہ دنیاوی بات کرنے کے بعد الطاف حسن قریشی نے اس سے منسلک اور بہت سے سوال کئے،جن کے جواب میں ڈاکٹر سید عبداللہ نے گویا علم و عرفان کے دریا بہا دیئے، اس کے بعد انہوں نے اپنے اس انٹرویو میں موسیقی اور مصوری کے بارے میں اپنے تصورات بیان کئے۔اُن کی یہ بات بہت اہم ہے ”میرا خیال ہے اگر یہ فنون اُس ذوقِ عبودیت سے ابھریں یا اُس بے نام اور معصوم بے خودی کا نتیجہ ہوں جس کا میں نے فن اور ادب کے ضمن میں ذکر کیا ہے تو فن ایک غیر جاندار اور معصوم بلکہ پاکیزہ فعل ہے“۔
یہ انٹرویو بہت دلچسپ اور معنی خیز ہے،اس کے ذریعے ڈاکٹر سید عبداللہ کی شخصیت و فکر کے وہ گوشے نمایاں ہوتے ہیں،جو شاید نقادوں اور اُن کے چاہنے والوں کی نظروں سے اوجھل رہے۔مثلاً اُن سے جب سوال کیا گیا کہ آپ اپنے ذاتی ذوق، مسلک اور مشرب کے متعلق کچھ بتا سکتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا ”یہ سوال آپ کی طرف سے مجھ پر زیادتی ہے اس سے اُس لڑائی کا راز آشکار ہو جائے گا جو مسلسل بیس برس سے میرے اور میرے نفس کے درمیان جاری ہے۔ میں ایک غم پسند آدمی ہوں اس کے زیر اثر میں نے اپنا ایک فلسفہ مرتب کیا تھا،جسے کبھی کبھی میں میر تقی میر کے تتبع میں فلسفہ ئ درد مندی کہہ لیا کرتا ہوں، درد مندی کے اِس صور میں ضمیر داری، ہمدردی، قربانی، درگذر، محبت ِ عام اور ذوقِ بے خودی سبھی چیزیں شامل ہیں“۔ آپ اُن کے اس جواب پر غور کریں تو اس سوال کا جواب مل جائے گا کہ ڈاکٹر سید عبداللہ کو میر تقی میر سے عشق کیوں تھا۔ اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ کلام میر میں وہ کون سے عناصر ہیں، جنہوں نے ڈاکٹر سید عبداللہ کی شخصیت پر گہرے نقوش ثبت کئے۔ اُن سے جب پوچھا گیا زندگی کی کوئی آرزو؟ تو انہوں نے کہا ”بھئی آرز وئیں تو بہت ہیں مگر ایک ایسی آرزو ہے جو اکثر جان و دل میں بسی رہتی ہے۔کاش میں زندگی میں دس پندرہ سطریں ایسی لکھ پاؤں جو انسانی دُکھ درد میں سفینہئ برگ گل بن سکیں۔میں سیاہی کے ایک قطرے کا آرزو مند ہوں جو تحریر میں ڈھل کے مرہم بن جائے“۔
٭٭٭٭٭