بھارت کی آنکھیں زیادہ کھلتی جائیں گی

  بھارت کی آنکھیں زیادہ کھلتی جائیں گی



پاکستان اور انڈیا دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ ہر ایک کے پاس170جوہری وارہیڈز موجود ہیں۔ دونوں ملک یہ جوہری بم کسی بھی وقت ایک دوسرے پر فائر کر سکتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اتنی زیادہ تعداد میں ایٹم بموں کے استعمال کی ضرورت کیا ہے۔پاکستان اور انڈیا دونوں کو ملا کر ”جنوبی ایشیاء“ کا نام دیا جاتا ہے۔اس جنوبی ایشیاء کی فضاؤں یا زمین پر اگر دو تین ایٹم بم بھی گرا دیئے جائیں تو اس سے انسانی جانوں کی جو تباہی ہو گی اس کا تصور بھی محال ہے۔

پہلے دو ایٹم بم امریکہ نے جاپان پر 1945ء میں گرائے تھے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کی بربادی کی داستان ہم سب کو معلوم ہے۔ لیکن ہم پھر بھی اس بلا کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ ایسا کرنے میں پہل انڈیا نے کی اور پاکستان کو اس کے جواب میں یہ تباہ کن ہتھیار بنانا پڑا۔ میڈیا پر اس موضوع کے سلسلے میں بہت کچھ آ چکا ہے  اور مجھے اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ قارئین کی اکثریت جانتی ہے کہ انڈیا اور پاکستان دونوں کے پاس 170یا 172بم موجود ہیں۔ یہ بم کہاں رکھے ہوئے ہیں، اس کی تفصیل شاید کم لوگوں کو معلوم ہے۔ 

میں یہ تفصیل اس لئے لکھ رہا ہوں کہ قارئین کو معلوم ہو کہ اس قسم کی آب و ہوا اور اس قسم کے ماحول میں غاریں اور سرنگیں کھود کر پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنا کتنا مشکل اور کارے دارد ہے۔ ایسی چٹانیں پاکستان کے دوسرے صوبوں مثلاً بلوچستان، کے پی اور گلگت بلتستان میں بھی پائی جاتی ہیں۔ پاکستان  کے جوہری وارہیڈز (ہتھیار) جوں جوں تعداد میں زیادہ ہوتے گئے،ان کو مختلف مقامات پر بکھرا کر رکھنا ناگزیر ہو گیا۔ 170جوہری بموں میں سے بعض کو ان پہاڑیوں میں ذخیرہ کرنے کی کافی گنجائش موجود تھی۔ 

سائبر وار فیئر کا کافی علم و فن (Knowhow) بھی پاکستان کے پاس ہے۔ اس لئے اس نے فوراً  (Jamming Devices)کو استعمال کیا اور انڈیا کے رافیل اور دوسرے طیاروں کو اس جیمنگ نے شدید نقصان پہنچا کر بے اثر کر دیا۔ پاک فضائیہ کے ہوا بازوں نے جس سرعت اور جس چابکدستی سے انڈین ائر فورسز کو بے اثر کیا اس پر انڈیا کے فضائی ہیڈکوارٹرز میں کئی متعلقہ شعبوں میں کھلبلی مچ گئی۔

میں اپنے گزشتہ کالم میں بھی عرض کر چکا ہوں کہ ائر فورس کے علاوہ نیول فورسز اور گراؤنڈ فورسز کے جدید ترین ہتھیاروں کے حصوں پرزوں اور ان کی کارکردگی کی تشریح کرنے کے لئے اردو زبان کی لغت تقریباً ”عاجز“ ہے۔ البتہ ان انگریزی آلات و پرزہ جات وغیرہ کو ”اردوانے“کی گنجائش موجود ہے۔یعنی جس طرح Stationکوسٹیشن لکھ دیا جاتا ہے اسی طرح انگریزی الفاظ کو بھی اردو میں املا کرنے کو ”اردوانا“ کہا جا سکتا ہے لیکن اس سے ایک ایسا قاری جس کو معلوم نہ ہو کہ کون سا لفظ اور کون سی اصطلاح کا مفہوم کیا ہے وہ پھر بھی صورتِ حال کی  نزاکت کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ اردو زبان نے ابھی تک اس میدان میں کوئی زیادہ کام نہیں کیا۔دوسری طرف نئے نئے ہتھیاروں کی ایجاد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور ان کے حصوں پرزوں کے نام بھی اسی نسبت سے فروغ پا رہے ہیں۔ اس لئے پاپولر میڈیا کے ایک عام قاری کو (خواہ اس کا مبلغِ علم و فن کتنا ہی کثیر اور وافر کیوں نہ ہو) درجِ بالا تکنیکی احوال و مقامات کی سُن گُن نہیں ہو پاتی!

  امریکہ کو معلوم ہوا کہ یہ تنازعہ بڑھ کر ایٹمی جنگ و جدال میں تبدیل ہو جائے گا تو پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہوگا کہ وہ اپنے ٹیکٹیکل نیوکلیئر وارہیڈز کو استعمال کرے جن کو ”بیٹل فیلڈ ٹیکٹیکل نیوکلیئر وارہیڈز“ بھی کہا جاتا ہے تو اس اٹامک تنازعے کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھ جائے گا جس کے نتیجے میں لاکھوں انسان لقمہء اجل بن جائیں گے۔ اس صورتِ حال کا احساس کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے دونوں ملکوں پر زور دیا کہ یہ جنگ فوراً بند کر دی جائے۔

یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوگا کہ اگر انڈیا یا پاکستان میں سے کوئی ایک فریق امریکی صدر کی بات نہ مانتا تو کیا ہوتا؟…… امریکہ کے پاس دوسری کون  سی آپشن تھی کہ وہ اس کا استعمال کرتا؟ ……

امریکہ کو معلوم تھا کہ پاکستان اس جنگ میں اکیلا نہیں،اس کے ساتھ چین بھی ہے۔اب یا تو امریکہ، بھارت کی مدد کو آتا اور آکر انڈیا میں ”بیٹھ“ جاتا یا انڈیا کو مجبور کرتا کہ وہ پاکستان اور چین دونوں کا مقابلہ کرے۔ لیکن اس کو معلوم تھا کہ انڈیا اس مقابلے میں ’بے دست و پا‘ ہو جائے گا۔

انڈیا  پاکستان سے لڑ سکتا تھا۔ اس نے پہلے  بھی 1947ء ، 1965ء، 1971ء اور 1999ء میں پاکستان کے خلاف جنگیں لڑی تھیں لیکن اب یہ جنگ بھارت بمقابلہ پاکستان و چین ہو چکی تھی اور بھارت کو معلوم تھا کہ وہ اس جنگ میں امریکہ کو اپنے ساتھ شامل نہیں کر سکتا اور ویسے بھی امریکہ یا رشیا اس جنگ میں کودنے کو تیار نہ تھے۔ رشیا تو چائنا کا اتحادی بھی ہے۔ اس لئے وہ اس جنگ میں نہیں کود سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بھارت نے تقریباً دو عشروں سے اپنا عسکری ساز وسامان اسرائیل، فرانس اور امریکہ وغیرہ سے لینا شروع کر دیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ انڈیا اس جنگ میں ”تنہا“ تھا اور پاکستان کے ساتھ چین کی ”غالب مدد“ شامل تھی، ہے اور انشاء اللہ رہے گی۔ 

اس جنگ (یا چار روزہ جھڑپ) نے انڈیا کی آنکھیں کھول دی ہیں …… اب امید ہے کہ یہ آنکھیں مرور ایام سے زیادہ کھلتی جائیں گی۔





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں