بے اوقاتے

   بے اوقاتے



 پتہ نہیں یہ جملہ آپ کو کسی سے سننے کو ملا ہے یا نہیں،مجھے تو اکثر مل جاتا ہے کہ اپنی اوقات میں رہو۔ایسے موقع پر ایک خیال رہ رہ کر آتا ہے کہ آخر اوقات جاننے کا پیمانہ کیا ہے،یعنی کسی  کو کیسے لگے کہ وہ اوقات میں ہے یا اوقات سے باہر ہو چکا ہے۔سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہوتا ہے ہم اپنی اوقات سے باہر اِس لئے چلے جاتے ہیں کہ اوقات کی حدود کا علم ہی نہیں ہوتا۔کل مجھے اِس وقت اپنی کم مائیگی کا شدت سے احساس ہوا جب ایک گدھا ریڑھی والے کو میں نے کہا سڑک کے درمیان کیوں چل رہے ہو، سائیڈ پر چلو، تو اُس نے ترت جواب دیا،بابو جی آپ بھی اپنی اوقات میں رہ کر بات کریں،اس کے جملے سے میں بغلیں جھانکنے لگا  کہ اپنی اوقات کیسے تلاش کروں،پھر اُس میں رہنے کی عادت بناؤں۔حقیقت یہ ہے ہم سب اپنی اپنی جگہ ”بے اوقاتے“۔اشفاق احمد کہا کرتے تھے ہم نے اپنی روح میں ایک بڑے بدمعاش کو اپنا آئیڈیل بنا  رکھا ہے۔اس کی تخصیص نہیں کرائی وڈا افسر ہے یا تانگے ریڑھی والا ہے۔ اس کے اندر کا بدمعاش بہت تگڑا ہوتا ہے،ایک زمانہ تھا اداکار مظہر شاہ کی بڑھکیں بہت مشہور تھیں۔یہ بھڑک تو بہت ہی مشہور ہوئی”اوے میں بندہ کھا جاں ڈکار نہ ماراں“۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں مولا جٹ جیسی فلم ورلڈ ریکارڈ قائم کرتی ہو صرف اس وجہ سے کہ اُس میں ایک بدمعاش پورے نظام کو روندتا نظر آتا ہے،وہاں کوئی بندہ اپنی اوقات میں کیسے رہ سکتا ہے۔لوگ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے محلے کا لڑکا افسر  بن کر اوقات بھول گیا ہے،نوکری سے پہلے وہ عاجز و مسکین صورت کے ساتھ پھرتا تھا، اب اُس کی نظر زمین پر نہیں ٹکتی،اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔انسان کی اوقات بھلانے کے لئے ہی تو ہمارا سارا نظام بنا ہے۔ایسی بیسیوں مثالیں تو میری اپنی یادداشت میں  ہیں کہ ایک نوجوان جس کے پاس ڈھنگ کی موٹر سائیکل نہیں ہوتی تھی،اپنی محنت سے سی ایس ایس کر کے جب اسسٹنٹ کمشنر بنا تو اُس کے نیچے دو کروڑ روپے مالیت کی گاڑی آئی،نوکر چاکر عملہ اور ست سلام کرنے والے اس  کے اردگرد منڈلانے لگے۔ایسے میں وہ اپنی اوقات کیسے یاد رکھے۔یاد رکھے تو پھر معاشرہ ہی اُسے جینے نہیں دے گا کہ ایک غریب خاندان کا بیٹا ہے، حرکتیں وہی غریبوں والی ہیں یہ نظام ہی اسے اوقات بھولنے پر مجبور کر دے گا۔خیر یہ تو ایک بڑی مثال دے دی۔ایک بار میری کوشش سے میرے محلے کے ایک نوجوان کو نائب قاصد کی نوکری مل گئی۔اُس کا باپ بہت پریشان رہتا تھا کہ بی اے کرنے کے باوجود کہیں ملازمت نہیں مل رہی۔ وہ مجھے کہتا ”آپ اسے کہیں اَڑا دیں“۔ملازمت ملنے کے چند ماہ بعد اسی محلے سے کچھ لوگ میرے پاس آئے۔ انہوں نے شکایت کی،جس محمد طاہر کو آپ نے ملازمت دلوائی تھی،وہ اپنی اوقات بھول گیا ہے۔محلے میں دھمکیاں دیتا ہے،پیسے بھی مانگتا ہے۔نہ دو تو اندر کرانے کی تڑی لگاتا ہے۔ایک نے کہا:”سر آپ اُسے اُس کی اوقات یاد دلائیں جب یہاں مارا مارا پھرتا تھا”۔مجھے اِس بات پر ہنسی آئی،جو پرندہ پنجرے سے باہر آ چکا ہے اُسے اندر کیسے کروں۔خیر میں نے کہا اُسے سمجھاؤں گا۔آپ جائیں۔ وہ چلے گئے اور میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ کہیں اُسے بُلا کر کچھ کہا تو مجھے ہی نہ کہہ دے۔ آپ اپنی اوقات میں رہیں۔

لندن میں رہنے والے میرے ایک دوست نے بتایا کل میں اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ ڈنر کر رہا تھا،اِس لئے تمہاری کال نہیں سُن سکا، میں نے کہا لازماً وہ ساتھی تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہو گی۔ اُس نے کہا نہیں وہ میرے دفتر کا نائب قاصد تھا۔میں اُس کی بات پر چونکا، کیا کیا نائب قاصد، تم اُس کے ساتھ ڈنرکر رہے تھے؟ اُس نے جواب دیا میں جانتا ہوں تم پاکستانیوں کو ایسی باتوں پر حیرت  ہوتی ہے،لیکن یہاں دفتر  کی حد تک افسری ماتحتی چلتی ہے،اُس کے بعد سب ایک جیسے سٹیٹس کے مالک ہوتے ہیں۔ یہاں کوئی کسی کو اُس کی اوقات یاد نہیں کراتا،سب کی اوقات برابر اور سب کا مرتبہ ایک ہی ہوتا ہے۔پھر اُس نے خود ہی کہا میں جب پاکستان میں تھا تو مجھے بھی یہ بیماری تھی۔ سٹیٹس کا خیال رہتا تھا۔کوئی چھوٹا بندہ سلام بھی کرتا تو چبھن سی ہوتی تھی کہ اُس نے کیا مجھے اپنے برابر سمجھ لیا ہے کہ مجھے سلام کر رہا ہے۔اُس نے کہا میں لندن میں ایک بڑے ادارے کا افسر ہوں،لیکن یہاں مجھے سب میرا نام لے کر پکارتے ہیں چاہے نچلے ترین درجے کا کوئی ملازم ہی کیوں نہ ہو۔اُس نے کہا دماغ تو اُس وقت خراب ہوتا ہے جب ہم کسی کو صاحب بہادر اور کسی کو لاٹ صاحب کا خطاب دے دیتے ہیں عام آدمی کو اوئے رفیقے کہتے ہیں اور خاص آدمی کو  سر، جناب، صاحب اور نجانے کیا کیا لقب دے کر بلاتے ہیں یہ سب باتیں انسان کا دماغ خراب کرنے والی ہیں،جس سے وہ اپنی اوقات بھول جاتے  ہیں۔میں نے اُس کی باتیں سنیں تو کہا،اچھا اچھا زیادہ لیکچر نہ دو، لگتا ہے تم بھی اوقات بھول گئے ہوں۔

ہمارے دوست شریف ظفر جو سینئر پولیس افسر رہے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، بڑی شوخ طبیعت کے مالک ہیں اعلیٰ افسر بھی رہے تو اُن کی عاجزی و انکساری مسلمہ تھی۔وہ معاشرتی رویوں پر بڑی نظر  رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا قصور صرف انہی کا نہیں جو کوئی عہدہ ملنے کے بعد اوقات بھول جاتے ہیں۔قصور اُن کا بھی جو کسی کی ترقی کو برداشت نہیں کرتے۔ مثلاً کہیں چند لوگ بیٹھ جائیں گے تو ایسے نوجوانوں کا ذکر کریں گے، جو پڑھ لکھ کر اعلیٰ مناصب پر فائز ہوئے۔کسی بڑے افسر کا ذکر کرتے ہوئے وہ جو کہ اِس وقت فلاں محکمے کا بڑا افسر ہے،پورے ملک  میں جس کی دھوم مچی ہوئی ہے۔وہ اپنے محلے کے تیلی مشتاق کا بیٹا ہے۔یوں اپنی ساری بھڑاس صرف ایک جملے میں نکال کر سکون سے بیٹھ جائیں گے۔اوقات بھولنا یہ تھوڑی ہے کہ کسی نے اگر ترقی کر لی ہے تو ہم اُس کے رہن سہن کو دیکھ کر یہ کہیں وہ بے اوقاتا ہو گیا ہے۔ اوقات بھولنا تو اصل میں یہ ہے کہ انسان دوسرے کی عزت وتکریم نہ کرے۔اس بات کو  نہ پرکھ سکے کہ کسی خاص واقعہ میں قصور اس کا تھا یا دوسرے کا، وہ اس بات پر بضد رہے کہ میں درست ہوں،تم غلط  ہو۔یہ اوقات بھولنے کی بدترین شکل ہے،بدقسمتی سے اس معاملے میں ہماری اکثریت بے اوقاتی ہے۔ہر آدمی کی آزادی ایک حد تک ہوتی ہے،جس کے بعد دوسرے کی آزادی شروع ہو جاتی ہے،کہا جاتا ہے کہ سامنے والے کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے،جہاں سے میرا ناک شروع ہوتا ہے۔اوقات میں رہنا یہ ہے کہ ہم دوسرے کی ناک میں نہ گھسیں،مگر ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں اس کے بغیر تو ہمیں چین نہیں آتا۔

٭٭٭٭٭





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں