پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی جاری ہے۔ دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشن کے درمیان رابطہ قائم ہے اور دونوں کی طرف سے یقین دلایا جا رہا ہے کہ کوئی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں بھی یہ سوال البتہ زیر بحث ہے کہ یہ صورتِ حال کب تک برقرار رہے گی؟ گذشتہ 78سالوں میں دونوں کے درمیان بار بار جھڑپیں ہوئی ہیں،کئی بار باقاعدہ جنگ تک نوبت پہنچی ہے، خون بہا ہے، سہاگ اُجڑے ہیں،مائیں بے چراغ اور بچے بے سایہ ہوئے ہیں، معیشتوں کو نقصان پہنچا ہے اور غربتوں میں اضافہ ہوا ہے۔کسی بھی جنگ کے بعد یہ نتیجہ حاصل نہیں کیا جا سکا کہ آئندہ بارود کی بُو نہیں پھیلے گی، گولی نہیں چلے گی،سرحدوں پر اَمن رہے گا، دونوں ملکوں کے شہری آزادانہ ایک دوسرے سے مل سکیں گے اور آزادانہ اپنے فیصلے کر سکیں گے۔پاکستان اور بھارت دو دشمن ممالک کے طور پر وجود میں نہیں آئے تھے، کسی ایک قوم نے میدانِ جنگ میں کسی دوسری قوم کو شکست دے کر اِس سے دستاویز آزادی پر انگوٹھا نہیں لگوایا تھا۔جو کچھ ہوا پُرامن انداز میں ہوا، بات چیت کے ذریعے ہوا، برطانوی سامراج کے نمائندے اور برصغیر کی دو بڑی اقوام۔۔۔ہندو اور مسلمان۔۔۔ کے نمائندوں کے درمیان اتفاق رائے سے ہوا تھا۔ جب1946ء کے انتخابات کے ذریعے یہ بات ثابت ہوئی کہ آل انڈیا کانگرس پورے ہندوستان کی نمائندگی کا حق نہیں رکھتی، مسلمان رائے دہندگان نے اپنا وزن مسلم لیگ کے پلڑے میں ڈال دیا ہے، مختلف اسمبلیوں میں اپنے جو نمائندے چن کر بھیجے ہیں، وہ (75فیصد سے زائد) مسلم لیگ سے تعلق رکھتے ہیں تو برطانوی سامراج کی رخصت کے بعد کے ہندوستان کی ہیئت طے کرنے کے لئے مسلم لیگ کو نظرانداز کرنا ممکن نہ رہا۔مسلم لیگ اتنا ہی بڑا فریق بن گئی جتنا کہ کانگرس۔ کانگرس کو ہندوستان کی تمام اقوام کی نمائندگی کا دعویٰ تھا، 1937ء کے انتخابات کے بعد (کسی نہ کسی حد تک) اُس کا یہ دعویٰ تسلیم کیا جا سکتا تھا۔ مسلمان اکثریت کے علاقوں میں کانگرس کی حکومتیں قائم نہیں ہو سکی تھیں لیکن مسلم لیگ کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آیا تھا۔ 1946ء میں منظر یکسر تبدیل ہو گیا۔ مسلم لیگ مسلمان رائے دہندگان کی واحد نمائندہ جماعت بن کر اُبھری اور ہندوستان کی صورت گری اُس کی مرضی کے بغیر ممکن نہ رہی۔کیبنٹ مشن پلان نے جو دستوری خاکہ تجویز کیا تھا،اُس کے تحت ہندوستان کے ایک وفاق کی صورت قائم رہنے کے امکانات روشن ہو گئے تھے لیکن کانگرس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو نے یہ کہہ کر اُسے سبوتاژ کر دیا کہ جس دستوری سکیم پر اتفاق کیا جا رہا ہے آزادی کے بعد ہم اُس کے پابند نہیں ہوں گے یعنی پارلیمنٹ اُس میں ردوبدل کی مجاز ہو گی۔ یہ دھماکہ ہندوستانی وفاق کو اُڑا لے گیا،مسلم لیگ کو یہ صورتِ حال قبول نہیں تھی کہ آزادی کے بعد تقسیم اختیارات کا مسئلہ پھر سر اُٹھا لے اور ہندو اکثریت کی حامل قومی اسمبلی کو اپنی مرضی چلانے کا اختیارِ کلی دے دیا جائے۔نتیجتاً ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان کے نام سے ایک نئی مملکت وجود میں آئی،جو فسادات ہوئے اور مختلف قوموں کے منہ زوروں نے ایک دوسرے کے خون سے جو ہاتھ رنگے،وہ اعلانِ آزادی کے بعد کا معاملہ ہے اگر انگریز وائسرائے کی بدنیتی یا بے تدبیری شامل نہ ہوتی تو حالات کو سنبھالنا ناممکن نہیں تھا۔یہ بحث کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہوئے عرض یہ کرنا مقصود ہے کہ برصغیر کی تقسیم کا فیصلہ انگریز حکمرانوں، آل انڈیا کانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان اتفاق رائے سے کیا گیا تھا،کسی سرنڈر یا فوجی پسپائی کا نتیجہ نہیں تھا۔اِس تقسیم کے نتیجے میں نئی مملکت پاکستان ہی وجود میں نہیں آئی، بھارت کے نام سے بھی ایک نئے خطہ زمین نے جنم لیا۔ تاریخی طور پر وہ ملک جو بھارت(یا انڈیا یا ہندوستان) کے نام سے 15 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا، وہ یکسر نیا تھا۔ دنیا اِس جغرافیے کے ایسے کسی ملک سے اُس سے پہلے آشنا نہیں تھی۔
انگریزوں کے زیر انتظام ہندوستان میں ساڑھے پانچ سو سے زیادہ دیسی ریاستیں موجود تھیں جن کا انتظام اُن کے حکمران چلاتے تھے،خارجی اور دفاعی امور نئی دہلی کے زیر نگیں تھے۔اگر کیبنٹ مشن پلان سبوتاژ نہ ہوتا تو اُن تمام ریاستوں کا وجود برقراررہتا اور وہ اپنا الگ انتظامی اور جغرافیائی تشخص رکھ رہی ہوتیں۔برصغیر کی دو حصوں میں تقسیم نے جہاں مسلمان اکثریت کے علاقوں کو نیا ملک عطاء کیا،وہاں ہندو اکثریت کو بھی ایک ایسا ملک نصیب ہو گیا جو نہ تاریخ میں اپنا کوئی وجود رکھتا تھا،نہ مستقبل میں اُس کا خواب دیکھا جا سکتا تھا۔ بھارت نامی اِس نئے ملک کے حکمرانوں کو تو اِس پر مسلمان قیادت کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا لیکن انہوں نے پہلے دن ہی سے اپنے ہمسایے کی راہ میں کانٹے بکھیرنے شروع کر دیے۔ برطانوی وائسرائے اور کانگرسی قیادت کی ملی بھگت نے دونوں ممالک کی حد بندی کو منصفانہ نہ ہونے دیا اور مسلمان اکثریت کی ریاست کشمیر کو ہڑپ کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ایک ایسا تنازعہ کھڑا کر دیا گیا جو آج تک موجود ہے۔ آزادی کے فوراً بعد دونوں ممالک کشمیر میں آمنے سامنے آئے تو گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن اور وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی حکومت بھاگ کر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جا پہنچی، وہاں طے پایا کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا حق حاصل ہو گا۔اقوامِ متحدہ کے زیر نگرانی استصوابِ رائے کے ذریعے اِس کا تعین کیا جانے گا۔ وہ دن جائے اور آج کا آئے، بھارت اِس پر آمادہ نہیں ہے۔
پاکستان اور بھارت کئی جنگیں لڑ چکے،ایک دوسرے کی ضد میں دونوں ایٹمی صلاحیت بھی حاصل کر چکے،ایک دوسرے کا بڑا نقصان بھی کر چکے لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے۔ بار بار جنگ بندی ہوتی ہے لیکن جڑ سے علاج نہیں کیا جاتا۔ گذشتہ چند روز کے دوران جو کچھ ہوا ہے،اُس نے ایک نیا منظر دکھا دیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے دانت کھٹے کر دیے ہیں،اُس کے جارحانہ عزائم کو ناکام بنا ڈالا ہے، پاک فضائیہ کے ایک ہی ہلّے سے اُس کا دفاعی نظام ناکارہ ہو کر رہ گیا،رافیل زمیں بوس ہوئے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول ایٹمی جنگ اُنہوں نے رکوا دی ہے۔لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بچا لی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت اِس پر نازاں ہے۔ دونوں نے معجزہ کر دکھایا ہے،اللہ کے فضل و کرم اور عوام کی تائید سے مثالی کارکردگی کا مظاہرہ ہوا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے رکھا اور پانسہ پلٹ ڈالا۔ چین، ترکیہ اور دوسرے دوست ممالک نے مثالی تعاون کر کے اہل ِ پاکستان کے دِل جیت لیے ہیں۔ برتری کا بھارتی زعم خاک میں مل چکا ہے۔ صدر ٹرمپ جنگ بندی کا سہرا بڑے شوق سے اپنے سر باندھیں،خواہ اِس کا نوبل اَمن انعام بھی حاصل کر لیں لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ خطرہ ٹلا ہے، ختم نہیں ہوا۔کشمیر کا مسئلہ حل کرانے کے لیے وہ زور لگائیں گے تو ہی تاریخ میں اپنا نام جلی الفاظ میں لکھوا پائیں گے۔ سو، جنابِ صدر قدم بڑھایے اور وہ کچھ حاصل کر دکھایے جو ابھی تک کوئی حاصل نہیں کر سکا۔
(یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اور روزنامہ ”دُنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)