ابتدائے آفرینش سے ہی زمانے کا یہ دستور رہا ہے کہ ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگلنے کی کوشش کرتی ہے۔ اب چھوٹی مچھلی کی ہمت اور حکمت پر منحصر ہے کہ وہ اس غنڈہ گردی سے خود کو کیسے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ کیوں کہ کوشش ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔عربی کے ایک مقولے کا ترجمہ ہے: ”جس نے کوشش کی اس نے پا لیا“۔تاریخ اسلام کے مطالعہ سے بھی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جب سرور کائنات حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو ان کے ساتھ ہجرت کرنے والے مہاجرین مالی لحاظ سے بہت ہی کمزور تھے۔انصار نے انہیں سہارا دیا۔ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں ان کی معاونت کی۔ اس کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں مجاہدین کی ایک چھوٹی سی جماعت تیار ہو گئی۔ قریش مکہ اپنی طاقت کے زعم میں بد مست تھے۔وہ اس چھوٹی سی جماعت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے خواہاں تھے۔وہ ایک ہزار کا لشکر لے کر مسلمانوں کو نیست و نابود کرنیکی نیت سے مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ادھر سے مسلمان بھی سپاہ سالار اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولولہ انگیز قیادت میں تین سو تیرہ مجاہدین کو لے کر مدینہ سے نکلے۔مقام بدر پر دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا۔ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامیاب جنگی حکمت عملی اور خدائے لم یزل کی نصرت سے دشمنان دین کو عبرت ناک شکست ہوئی۔وہ میدان چھوڑ کر بھاگے اور بھاگتے ہوئے اگلے سال پھر آنے کی دھمکی دے گئے۔اگلے سال فریقین کا مقابلہ احد کے مقام پر ہوا۔ قریش مکہ کو شکست فاش ہوئی لیکن چند مجاہدین کی اجتہادی غلطی کی بنا پر مسلمانوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔ سن 5 ہجری میں وہ پھر 3000کا لشکر لے کر مدینہ پر چڑھ دوڑے۔ تاجدار مدینہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکمت اور حوصلے سے کام لیا۔ صحابہ کرامؓ کے مشورے سے مدینہ کے اندر رہ کرہی دشمنان دین کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔کفار نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا۔مجاہدین مدینہ نے جنگی حکمت عملی کے تحت جنگ کو طول دیا۔ حوصلے اور ہمت سے کام لیا۔ بالآخر قریش مکہ ناکام لوٹے۔ اس ساری بحث سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جنگ کے موقع پر حوصلہ، ہمت، جنگی حکمت عملی اور اللہ پر یقین ایسے عناصر ہیں جو جنگ جیتنے میں اہم کرادا ادا کرتے ہیں۔
6 اور 7 مئی 2025ء کی درمیانی شب طاقت کے نشے میں دھت بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حکم پر بھاری افواج نے پہلگام واقعہ کا بہانہ بنا کر پاک سرزمین کی سرحدوں کی خلاف ورزی کی۔ اسے”آپریشن سندور“کا نام دیا۔ میزائل داغے۔ بہت سے بے گناہ شہریوں کو شہید کیا۔ جواب میں پاکستانی مسلح افواج نے ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے تین عدد فرانسیسی ساختہ ”رافیل“ سمیت پانچ جنگی جہاز بھارتی سرزمین پر ہی مار گرائے۔ پھر بھارت نے 8 اور9۔مئی کو پاکستان کے مختلف شہروں پر اسرائیلی ساختہ ڈرونز سے حملے کیے، لیکن ہماری مسلح افواج نے اللہ کے فضل و کرم سے تمام ڈرونز کو ناکارہ بنا دیا۔ پاکستان کی طرف سے بھارتی حکومت کو بار بار منع کیا گیا کہ وہ اس قبیح حرکت سے باز رہے، لیکن اس نے سنی اَن سنی کردی۔ادھر بھارت اور اسرائیل نواز ملک دشمن عناصر نے سوشل میڈیا پر پراپیگنڈہ مہم شروع کر دی کہ ہماری حکومت اور فوج بزدلی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ لڑنا نہیں چاہ رہی۔ہماری فوج کو فوری طور پر بھارت پر چڑھ دوڑنا چاہئے تھا۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ کچھ بدبختوں نے اس سارے آپریشن کو ہی نورا کشتی کا نام دے دیا۔ ان نمک حراموں اور بے شرموں کی طرف سے ایسی پوسٹیں دیکھنے کو ملیں جن کے مطابق نریندر مودی اپنے انتخابات جیتنے کے لئے اور ہمارے آرمی چیف اپنی ایکسٹینشن کے لئے یہ سب کچھ ملی بھگت سے کر رہے ہیں۔جبکہ ہماری مسلح افواج ایک جنگی حکمت عملی کے تحت یہ سب کچھ ہمت اور حوصلے سے برداشت کر رہی تھیں۔ اور مناسب وقت کے انتظار میں تھیں۔آخر جب بھارت اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے باز نہ آیا تو 10مئی 2025ء بعد از نماز فجر پاکستان کے آرمی چیف جناب جنرل سید عاصم منیرکی دعا کے ساتھ معرکہ ”بنیان مرصوص“ کا آغاز کر دیا گیا۔پاکستانی شاہین بھارت کی ایئر بیسز پر جھپٹے۔نہ تو روس کا سکیورٹی سسٹم کام آیا، نہ اسرائیل کے میزائیل اور ڈرونز اور نہ ہی فرانس کے مہنگے ترین جدید طیارے۔ہمارے شاہینوں نے بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔الحمد للہ تمام پائلٹ آپریشن کی تکمیل کے بعد صحیح و سلامت غازی بن کر لوٹے۔ جب بھارت کو ہوش آیا تو بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا تھا۔ پھر نریندر مودی کو اپنے آقا اور امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی یاد آئی۔ ان کی منتیں کیں کہ انہیں پاکستان کی مسلح افواج سے بچائیں۔ جناب ڈونلڈ ٹرمپ اپنے بغل بچے کی حمایت میں کو دے اور”سیز فائر“کے لئے ایک ٹویٹ کر دیا اور یوں پاکستان کی مسلح افواج کی پوری دنیا پر دھاک بیٹھ گئی۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس مختصر سی جنگ میں فریقین نے کیا کھویا اور کیا پایا؟یوں تو بھارتی بنیے نے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اپنی ہار کو جیت میں تبدیل کرنے کی سعی لاحاصل کی ہے اور سنا ہے کہ وہ اپنی فتح کا جشن بھی منا رہے ہیں،جبکہ یہ معرکہ بھارت کو کئی سال پیچھے لے گیا۔اس کا جنوبی ایشیاء پر بالادستی کا خواب چکنا چور ہو گیا۔مسئلہ کشمیر کے مردہ گھوڑے میں جان پڑ گئی۔چین کی ٹیکنالوجی کی پوری دنیا میں دھاک بیٹھ گئی۔اسرائیل، فرانس، روس،امریکہ اور بھارت کی جنگی ٹیکنالوجی کا بھی بھرم کھل گیا۔ چین اب باقاعدہ طور پر امریکہ کے ہم پلہ ہو گیا۔ امریکہ جو بھارت کی مدد کر کے اسے چین کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا تھا اس کا یہ خواب بھی ٹوٹ گیا۔پاکستان کی مسلح افواج نے چند گھنٹوں میں اپنی مہارت، جذبہ جہاد، شوق شہادت اور اعلائے کلمہ اللہ کا حق ادا کر دیا۔ 1971ء کی ہزیمت کا بدلہ بھی چکا دیا۔اس معرکہ نے پاکستانی عوام اور افواج پاکستان کے مورال کو اپنے عروج تک پہنچا دیا۔ پاکستانیوں میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح دشمن کی عددی اور ہتھیاروں کی برتری کا خوف ختم ہو گیا۔پاک چین دوستی نئی بلندیوں کو چھو نے لگی۔ ترکیہ اور آذر بائی جان کا پاکستان کی مدد کرنے سے غزوہ ہند کے موقع پر بننے والے اسلامی بلاک کا ایک دھندلا سا عکس سامنے آگیا۔ اب پاکستان کا فرض بنتا ہے کہ اس جیت پر تکبر اور غرور کرنے کی بجائے اس قوم کو شکرانے کے نوافل ادا کرنے کا کہیں۔ اپنے مشکل وقت کے دوستوں کو کبھی بھی نہ بھولیں خواہ جو بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ہمارے دشمن اب ہمیں طاقتور نہیں خطرناک سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ وہ کسی وقت بھی اپنی ہزیمت کا بدلہ چکانے کیلئے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ہمیں ہمہ وقت ان کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہنا ہو گا،کیونکہ ”ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے“۔