آثار یہی بتا رہے ہیں کہ دنیا اب ڈونلڈٹرمپ کے ورلڈ آرڈر پر چلے گی۔ یہ ٹرمپ کی دنیا کہلائے گی، اگر آج کل آپ ڈونلڈ ٹرمپ کی باڈی لینگویج دیکھیں تو آپ کووہ جیمز بانڈ سیریز کا وہ ہیرو نظر آئیں گے جو ہر ناممکن کو ممکن بنا دیتاہے۔ حالت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے آگے کوئی بند باندھنے کی پوزیشن میں نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کے قائم رہنے کی ضمانت وہ ایسے دیتے ہیں جیسے پنڈ کا کوئی چودھری دیتا ہے۔ صاف لگ رہا ہے کہ نریندر مودی جو آج کل خفت مٹانے کے لئے دھمکیاں اور سبق سکھانے کی باتیں کررہے ہیں، وہ صرف گیڈر بھبھکیاں ہیں کیونکہ امریکہ سے جنگ بندی کی پہلی فریاد تو بھارت ہی نے کی تھی، جس کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رات بھر کی سفارت کاری کے بعد جنگ رکوا دی۔ اب نریندر مودی کس خوشی میں اپنے عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے جھوٹے بیانیے گھڑ رہے ہیں، حالت تو یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایپل کمپنی کے مالک سے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ انہیں بھارت میں کمپنی کا کام کرنا پسند نہیں کیونکہ اس سے امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ وہ بھارت سے کمپنی کو امریکہ منتقل کریں اور اپنی مصنوعات وہاں بنائیں، برتری کے خواب دیکھنے والے بھارت کے لئے یہ پہلا بہت بڑا اور براہ راست جھٹکا ہے۔ اس سے پہلے امریکی صدر یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ بھارت کو امریکہ سے تجارت نئے ٹیرف کے مطابق کرنی ہوگی۔ گویا ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے اس غبارے سے بھی ہوا نکال دی ہے کہ وہ انسانوں کی بہت بڑی منڈی ہے اور کوئی ملک اس سے بگاڑ نہیں سکتا۔ ڈونلڈٹرمپ کو علم ہے کہ بھارت کی امریکہ سے تجارت کا حجم کیا ہے، اگر ایپل کمپنی بھارت میں اپنا پروڈکشن یونٹ بند کر دیتی ہے تو وہ بھارتی انڈسٹری جسے آئی ٹی کی بادشاہت کا نام دیا جاتا ہے زمین بوس ہو جائے گی۔ پھر بھارت کو سب کچھ امریکہ سے منگوانا پڑے گا، جس کے لئے وسیع زرمبادلہ درکار ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات سے صاف نظر آ رہا ہے کہ ان کی پوری دنیا پر نظر ہے۔ انہوں نے اس امریکی حکمتِ عملی کو بدل کر رکھ دیا ہے جس میں امریکہ دنیاکو اپنے زیر نگیں رکھنے کے لئے طاقت، اسلحے اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا تھا۔ ہزاروں میل دور اپنی فوجیں بھیجتا اور ان پر اربوں ڈالر خرچ کرتا۔ افغانستان میں امریکہ کو ایک طرف شکست اٹھانا پڑی تو دوسری طرف امریکی معیشت اس جنگ کی وجہ سے شدید دباؤ میں آ گئی۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی تھا کہ دنیا میں امریکہ کا تاثر منفی ہوگیا، اسے ظالم، جابر اور بے رحم غاصب کے طور پر جانا جا رہا ہے۔ یہ ایسی پالیسی تھی کہ پینٹاگان کے خوف سے کوئی امریکی صدر اسے تبدیل نہیں کرتا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جونہی اقتدار سنبھالا، اسٹیبلشمنٹ اور پینٹاگان کو یہ پیغام دیا جو کچھ وہ چاہیں گے وہی ہوگا جو اس کے مخالف ہیں وہ نوکریاں چھوڑ کے گھر چلے جائیں۔ اسی پالیسی کے تحت پہلا حملہ ٹیرف بڑھانے کے تحت کیا گیا، چین، روس، کینیڈا، یورپ جیسی معاشی طاقتوں کو ہلاکے رکھ دیا۔ وقتی طور پر امریکی عوام اس سے متاثر ہوئے مگر اب انہیں سمجھ آگئی ہے کہ امریکہ اسلحے کی بجائے معاشی پالیسیوں سے دنیا کی سپرپاور بننے جا رہا ہے۔
ایک امریکی اخبار نے لکھا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی پالیسی میں سب سے بڑی تبدیلی ہوئی ہے کہ اسلحہ بیچو، اسلحہ استعمال نہ کرو، اس سے پہلے امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کا سب سے بڑا خریدار خود امریکہ تھا، اب اس نے اسے امریکہ کی معاشی بہتری کے لئے استعمال کرنے کی حکمت عملی اختیار کرلی ہے۔ڈونلڈٹرمپ نے اپنے حالیہ دورۂ مشرقِ وسطیٰ جس میں سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات شامل تھے، تقریباً تین سو بیس ارب ڈالر کے معاہدے کئے۔ یہ کسی امریکی صدر کے ایک دورے میں کئے جانے والے سب سے بڑے معاہدے ہیں۔ سعودی عرب سے تو ڈونلڈ ٹرمپ نے چھ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ بھی لیا ہے جو آنے والے برسوں میں کی جائے گی۔ڈونلڈ ٹرمپ کا جس طرح ان تینوں ممالک میں استقبال ہوا اور جس طرح کام روایات سے ہٹ کر انہیں خوشی کرنے کے لئے غیرروائتی طریقے استعمال کئے گئے، اس سے اندازہ ہوتا ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اقدامات اور اپنی شخصیت کے گلیمر سے دنیا کو تبدیل کر رہے ہیں۔ اگرچہ ان کے استقبال کے انداز پر تنقید بھی ہو رہی ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ یہ تینوں ممالک اپنے پر لگے رجعت پسندی اور مذہبی شناخت کے لیبل کو اتارنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک جدید، ترقی یافتہ اور روشن خیال امیج کے ساتھ دنیا کے سامنے آ رہے ہیں۔ ڈونلڈٹرمپ نے بالآخر اس بات کو اپنی جارحانہ پالیسیوں سے منوا لیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جتنے بھی ممالک ہیں، ان کا فلسطین کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں۔ ان تینوں ممالک کے دوروں میں غزہ کی صورتِ حال کا تذکرہ تک نہیں ہوا، بلکہ انہوں نے واشنگٹن پہنچ کر جو گفتگو کی اس میں غزہ کو ایک فریڈم زون قرار دے کر اس میں امریکہ کو شامل کرنے کی تجویز دے دی اس کا مطلب ہے غزہ کا عملاً ڈراپ سین ہو گیا ہے اور وہاں مرتے، بھوک سے بلکتے اور بیماریوں سے گلتے سڑتے مظلوم فلسطینیوں کا اب کوئی مددگار نہیں۔ ٹرمپ کی دنیا میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں، سوائے اس کے ڈیزائن کردہ مقامات کے جو فلسطینیوں کو بسانے کے لئے مختلف ممالک میں مختص کئے جائیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے معاشی آرڈر کا طوفان لگتا ہے تھمنے والا نہیں۔ اب انہوں نے یورپی یونین کو بھی اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے یہ واضح ہو چکا ہے یورپی یونین کی تشکیل امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے کی گئی، آپس میں آزاد تجارت اور امریکہ کے ساتھ بھاری ٹیکسوں کی تجارت کرکے یورپی ممالک نے ایک طرح سے امریکہ کو عالمی معیشت سے نکالنے کی کوشش کی، اب وقت آ گیا ہے اس کے خلاف بھی کوئی لائحہ عمل بنایا جائے۔ اب آپ غور کریں تو صاف دکھائی دے گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ہر طرف معاشی یلغار کا پروگرام بنا لیا ہے۔ پہلے چین کو جھنجھوڑا، پھر کینیڈا اور رو س کی خبر لی، اب یورپی یونین کی طرف رخ کرلیا ہے، اس سے پہلے دنیا کے سب سے امیر خطے مشرق وسطیٰ کے ممالک کو اپنی مرضی کے معاہدوں پر مجبور کیا ہے۔ کل کلاں یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بعض ممالک پر یہ پابندی لگا دیں کہ وہ امریکہ سے تجارت کرنا چاہتے ہیں تو اسی نوعیت کی کسی اور ملک سے تجارت نہیں کریں گے، صاف نظر آ رہا ہے کہ دنیا ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات سے سہمی ہوئی ہے جو امریکی صدر اپنے دو دن کے دورے میں تین سو بیس ارب ڈالر سمیٹ کر لے جائے، چین، روس، یورپ کے ممالک سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات سے چند ارب ڈالر کے معاہدوں کو کئی دن کے مذاکرات سے بھی عملی جامہ نہ پہنا سکیں، وہاں کسی کو کیا شک رہ جاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں ٹرمپ کا جادو چل رہا ہے اور ہم ٹرمپ کی دنیامیں جی رہے ہیں۔