آوازِ خلق نقارہ خدا ہے کہ نہیں؟

آوازِ خلق نقارہ خدا ہے کہ نہیں؟



کچھ روز پہلے ایک معروف شخصیت نے انتہائی نامناسب موازنہ کرتے ہوئے انبیاء کرام کو ایک عام بندے سے کم تر ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس نے کہا کہ نبیوں کو بھی وہ مقبولیت نہیں ملی جو اسکو ملی ہے۔ اس لغو موازنہ کو انکی چاپلوسی سمجھ لیں یا نا سمجھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان صاحب کو اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ مقبولیت معقولیت اور حقانیت کی ضامن نہیں ہوتی۔ بلکہ کئی بار اس سے بالکل بر عکس ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ آوازِ خلق نقارہ خدا ہو۔ عموماً سچی مگر دھیمی آواز اکثریت کو متاثر کرنے میں تا دیر ناکام رہتی ہے۔ جھوٹ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اگرچہ محاورہ “Vox populi vox Dei” (لوگوں کی آواز خدا کی آواز ہے) اس پر مصر ہے کہ مقبول رائے ہمیشہ درست یا منصفانہ ہوتی ہے۔ تاہم، تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔اس کے بر عکس اونچے نعرے، جھوٹے وعدے اور چمکیلے فلسفے جلد مقبولیت حاصل کر لیتے ہیں۔ کئی کذاب اور دھوکے باز بہت لوگوں کو اپنے جھوٹے، من گھڑت اور گمراہ کن پیغام کے پیچھے لگانے میں کامیاب رہتے ہیں اور اس آواز کو مقبولیت حاصل ہو جاتی ہے جس کی بنیاد پر تشدد اور گمراہی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ فرانسیسی انقلاب (1793-1794) کے دوران، بنیاد پرست جیکوبنز نے،  بھڑکے ہوئے عوامی جذبات کو استعمال کر کے من گھڑت دلائل سے اپنے مخالفین کو انقلاب مخالف قرار دے دیا۔ عوام کی بڑی تعداد اسکی بات پر لبیک کہتے ہوئے ان لوگوں کے خلاف ہو گئی اور  ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔حقیقت یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کسی خبر کی  صداقت کی تصدیق کی تکلیف اور تکلف نہیں کرتی۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت ذہنی کاہلی کا شکار ہوتی ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ نئے اور مختلف عنوانات کو عقلی کی بجائے بدیہی طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور شاید یہ وجہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ اپنی زندگی میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ گہری سوچ و فکر کے لئے وقت نہیں نکال پاتے۔ بہت سے ایسے ہوتے ہیں انکی سوچ اور فکر سطحی ہوتی ہے۔ اس محدود ذہنی وسعت اور عدم سوچ و فکر کی بنا پر  غلط اور گمراہ کن آراء اور پیغام پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ حق اور سچ مقبولیت حاصل کرنے میں جلد کامیاب نہیں ہوتے۔ تحقیق یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ بہت سے لوگ، خاص طور پر ووٹرز، بڑے پیمانے پر اپنے علم کے کامل ہونے کی غلط فہمی سے دوچار ہوتے ہیں۔ وہ ہر قسم کے مضامین کے بارے میں اپنے علم کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ وہ ٹیکس، قانون سازی، جغرافیائی سیاست یا موسمیاتی تبدیلی جیسے  پیچیدہ موضوعات پر بھی اپنا علم کو کامل سمجھتے ہیں۔ جب کہ حقیقت میں انکا علم محدود ہوتا ہے۔ ایسے میں ہی وہ پروپیگنڈا کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آج کے سوشل میڈیا دور میں تو غلط اور غلیظ خبر ہی سب سے تیزی سے پھیلتی ہے۔ ریسرچ بتاتی ہے کہ جھوٹی خبر صحیح خبر کے مقابلے میں سات گنا زیادہ رفتار سے پھیلتی۔ اس بنا پر ہی انتشار اور عدم برداشت جنم لیتا ہے۔ اسی وجہ سے مخالف افراد یا گروہوں کے خلاف تشدد کے واقعات سامنے آتے ہیں۔عموماً کہا جاتا ہے کہ یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، بلکہ یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔ اس دورِ آشوب میں نہ صرف ہر خبر کی صداقت کو جانچیں بلکہ کہنے والے کی بھی چھان پھٹک کر کے ہی یقین کرنا چاہیے۔ بظاہر بہت معتبر نظر آنے والی شخصیات کے بیانات بھی سچائی سے عاری اور جھوٹ سے آلودہ ہو سکتے ہیں۔ وہ اپنے سیاسی اور ذاتی اہداف کے لئے کسی حد تک جھوٹ اور مکر کا سہارا لے سکتے ہیں۔ ریاستیں بھی مخالف ریاستوں کے خلاف اس ہتھیار کا خوب استعمال کرتی ہیں۔اب حق اور سچ پہ کڑا وقت ہے۔ انکا مقابلہ مقبولیت سے ہے۔ انکو ماننے اور جاننے والے کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں۔ مسئلہ وہی پرانا ہے۔ جبلت اور جہالت چھلانگیں لگا کر چھا جاتے ہیں۔ علم و شعور پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں۔ جو نظر آتا ہے اور دل کو بھاتا ہے وہ مقبول ہے۔ ایک فٹبال میچ پہ ہزاروں تماشائی جمع ہو جاتے ہیں اور جوش و جذبے سے فلک شگاف نعرے لگاتے ہیں۔ مقبول گلوکار کے کنسرٹ پہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ جو معاملہ اور مسئلہ سوچ اور سنجیدگی کا متقاضی ہے اسکے پیروکار محدود ہیں۔ ایک سنجیدہ مگر اہم سیمینار میں نشستیں پوری کرنی مشکل ہو جاتی ہیں۔ ہاں اگر ساتھ طعام کا بہتر انتظام ہو تو نشستیں پر ہو جاتی ہیں۔ قصہ مختصر، احمق حق اور سچ کے مقابلے میں مقبولیت کو کامیابی سمجھتا ہے۔ اس انتخاب کا انحصار اس کی اقدار اور ترجیحات پر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں جیسا کہ آسکر وائلڈ نے کہا تھا سچائی کبھی سیدھی اور سادہ نہیں ہوتی- احمق کے لئے گہری سوچ و فکر مشکل کام ہے۔ اسی بنا ء پر اس معروف شخصیت نے یہ جاہلانہ موازنہ کیا تھا۔ احمقوں کا ہجوم ِ بیکراں اس طرز اور طریقے میں مبتلا ہو کر معاشرے کی تنزلی اور بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔

 col ghulam jilan





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں