بھارت کے ساتھ چند گھنٹے کی جنگ اِس وقت تھمی ہوئی ہے پاکستان نے صرف پونے تین گھنٹے میں بھارت کا وہ حال کیا کہ وہ بڑا عرصہ اپنے زخم چاٹتا رہے گا۔اِس جنگ میں بھارت کا اربوں ڈالر اور اس کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان ہوا،جنگ میں اس ناکامی کی ساری لعنتیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حصے میں آ رہی ہیں۔ ملک کے اندر اور باہر سے مودی پر الفاظ کے بے تحاشہ بم برسائے جا رہے ہیں،جس کی وجہ سے مودی بوکھلا گئے ہیں۔ان کا تو دنیا نے نام بھی بدل دیا ہے اور اسے نریندر مودی کی بجائے سرنڈر مودی کہنا شروع کر دیا۔فوجی اڈے تباہ ہونے سے زیادہ مودی کو رافیل طیارے گرنے پر تنقید کا سامنا ہے، کیونکہ جب رافیل طیارے خریدے گئے تھے اُس وقت اِس سودے میں کرپشن کی آواز اُٹھی تھی،کیونکہ مودی نے اِن طیاروں کی خریداری کا ٹھیکہ کسی پروفیشنل کمپنی کو دینے کی بجائے اپنے دوست انیل امبانی کی کمپنی اپلائنس کو دے دیا تھا اب یہ طیارے مودی کے گلے میں پھنسی چھپکلی کی طرح ہو گئے جسے نہ نکلا جا سکتا ہے اور نہ اُگلا جا سکتا ہے،مگر دھیان رکھنا پڑے گا کہ مودی کی جو ذہنی حالت اِس وقت ہے وہ اس ہیجان کی کیفیت میں دوبارہ بھی کوئی ایڈوانچر کر سکتا ہے، لیکن افواجِ پاکستان ہمہ وقت تیار ہیں۔
میں قارئین کے سامنے جنگ کے بعد کا نقشہ پیش کرنا چاہتی ہوں۔انڈیا کا یہ بیوفوقانہ معرکہ اسے بہت سال پیچھے لے گیا ہے اس کا جنون ایشیاء پر بالادستی کا خواب محض چند گھنٹے میں چکنار چور ہو گیا۔پاکستان اور بھارت میں روایتی جنگ کا جو عدم توازن نظر آتا تھا وہ ختم ہو گیا،بلکہ اب پاکستان برتر نظر آتا ہے۔دوسری طرف کشمیر کا مردہ نظر آنے والا مسئلہ مودی کی احمقانہ حرکت کی وجہ سے پھر عالمی مسئلہ بن گیا ہے۔دنیا بھر میں چین کی ٹیکنالوجی کی برتری ثابت ہو گئی۔اِس چھوٹی سی جنگ نے دنیا بھر کے تاثرات بدل کر رکھ دیئے۔ اسرائیل کی ٹیکنالوجی کا بھی پول کھل گیا اور چین باقاعدہ طور پر امریکہ کی ہم پلہ طاقت بن کر سامنے آ گیا ہے۔ امریکہ جو انڈیا کو چین کے مقابلے میں پرموٹ کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا دوبارہ غور پر مجبور ہو گیا ہے اور پاکستان کی حیثیت بدل گئی ہے۔
بنگلہ دیشی فضائیہ کے ایک افسر اقبال لطیف نے پاک بھارت جنگ کے حوالے سے ”جنگ کے بادل چھٹ گئے“ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے۔ میں یہاں اس مضمون کے کچھ اکتسابات قارئین کی نذر کرنا چاہتی ہوں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک مضبوط رہنماء کو بھی چھڑی نہیں گھمانی چاہئے جب تک یقین نہ ہو کہ چھڑی نشانے پر لگے گی۔ مودی کے پاس بڑی چھڑی تھی، اسے ابہام کا فائدہ بھی حاصل تھا۔ زبردست طاقت کا زعم اور بھارت کی دنیا میں اُبھرتی ہوئی شبیہہ،لیکن انہوں نے چھڑی کا استعمال ضرب لگانے کی بجائے محض بہادری کا مظاہرہ کرنے کے لئے کیا اور اسی میں انہوں نے اس طاقت کا کھوکھلا پن ظاہر کر دیا۔ یہ محض ایک جھڑپ نہ تھی یہ طاقت اور تاثر کا نقشہ دوبارہ کھینچنے کی کوشش تھی، یہ طاقت کو آزمانے کا عمل تھا جس میں بھارت کی برتری کا طلسم ٹوٹ گیا۔اب افسانہ چکنا چور ہو چکا ہے،نفسیاتی برتری ختم ہو چکی ہے۔مودی کو اس حرکت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مودی جب شمال کی طرف دیکھتے ہیں تو اسے پاکستان اور چین پہلے کے مقابلے میں کہیں قریب نظر آتے ہیں۔
جنگیں کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتیں،بلکہ یہ فاتح اور مفتوح دونوں کے لئے بے تحاشہ مسائل پیدا کرتی ہیں۔ اِس حوالے سے میں ایک بہت اچھی نظم قارئین کی نذر کرنا چاہتی ہوں:
بہت سے کام رہتے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
کروڑوں لوگ بھوکے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
کھلونوں والی عمروں میں انہیں موت کیوں بانٹیں
بڑے معصوم بچے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
اگر نفرت ضروری ہے تو سرحد پر اکٹھے کیوں؟
پرندے دانہ چگتے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
چلو مل کر لڑیں ہم تم جہالت اور غربت سے
بہت سپنے ادھورے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
٭٭٭٭٭