پاک۔ بھارت چار روزہ جھڑپ

    پاک۔ بھارت چار روزہ جھڑپ



پاکستان اور بھارت دو ایٹمی ہمسائے ہیں۔ جب دونوں ملکوں نے ایٹمی دھماکے نہیں کئے تھے تو یہ ”جوڑی“ تب بھی ایک دوسرے کی جانی دشمن تھی۔ یہ دشمنی گزشتہ تقریباً آٹھ عشروں پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کی وجہ کشمیر کا سلگتا ہوا آتش فشاں ہے۔ یہ آتش فشاں وقفے وقفے سے آگ اگلنے لگتا ہے۔ اس کا واحد علاج یہی ہے کہ اس کی تہہ سے ابلنے والی آتش کو ٹھنڈا کر دیا جائے۔لیکن کون کرے؟…… یہ ایک بڑا سوال ہے۔ 

اس سوال پر بہت سی بحثیں ہو چکی ہیں۔ چار پاک۔ بھارت جنگیں بھی اسی مسئلے کی کوکھ سے ہوئیں لیکن مئی 2025ء کی یہ چار روزہ جھڑپ اتنی خوفناک تھی کہ امریکی صدر نے اپنے حالیہ چار روزہ عرب ممالک کے دورے میں سعودی عرب پہنچ کر یہ بیان دیا کہ اگر وہ یہ جھڑپ بند نہ کرواتے تو لاکھوں لوگ اس کے نتیجے میں برباد کرنے والی ایٹمی جنگ کی نذر ہو جاتے!

اگر دنیا کی ایک سپرپاور یہ دعویٰ کر رہی تھی تو اس کی صداقت اظہر من الشمس ہے۔ اس کو معلوم تھا کہ یہ جھڑپ جب جنگ میں تبدیل ہوئی تو چار دنوں کے حصار سے اچھل کر شاید پہلے چالیس (40) دنوں تک پھیل جائے اور پھر جب دونوں فریق اپنی روائتی اسلحی ٹکسال کے سارے سکے ختم کر لیں گے تو پھر اس روایتی ٹکسال کا وجود ایک سوالیہ نشان بن جائے گا اور اس کے بعد:

چیست یارانِ طریقت بعد ازیں تدبیرِ ما

اس چار  روزہ جھڑپ کی تفصیل تو اب پاکستان کے بچے بچے کو معلوم ہو چکی ہے۔ اس کو دہرانا سعیء لاحاصل ہوگا! وہ دن اب ختم ہو گئے جب دونوں ممالک کی افواج اپنے اپنے روائتی اسلحہ جات کے ساتھ اُن میدان ہائے کارزار میں نکل پڑتی تھیں جن کو کشمیر، لاہور،سلیمانکی اور بہاولپور کی بیٹل فیلڈز کانام دیا جاتا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ اس بار وہ نہیں ہوا جو گزشتہ جنگوں میں ہواکرتا تھا۔ پہلے بھی فضائی جنگیں ہوتی تھیں۔ ٹینک اور انفنٹری بین الاقوامی سرحدیں کراس کرتے تھے اور پھر ایک طرف امرتسر/ فیروزپور کے شہر اور دوسری طرف لاہور/ سیالکوٹ کے شہر روائتی اسلحہ جات کی زد میں آکر سلگنے لگتے تھے۔

اس جھڑپ میں ایسا نہیں ہوا۔ کسی بھی فریق کا ایک بھی فوجی بین الاقوامی سرحد کے پار نہیں اترا اور کسی بھی طرف کا طیارہ اپنی فضائی حدود سے باہر نکل کر بین الاقوامی سرحد کے ساتھ ساتھ تعمیرشدہ فضائی چھاؤنیوں کی طرف نہیں بڑھا۔ یہ بظاہر عجیب سی بات لگتی ہے کہ دونوں ممالک کی زمینی اور فضائی سرحدیں تو ”محفوظ“ رہیں لیکن ان سرحدوں سے فریقِ مخالف پر ایسے وار کئے جائیں جن کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ یہ گویا ایک ”وکھری“ قسم کی جنگ تھی جسے شاید ”الیکٹرانک وار فیئر“کے مرحلہء اول کا نام دیا جائے گا۔

ہمیں معلوم ہے کہ جنگ کی ابتداء پہلے فضائی جنگ سے ہواکرتی تھی۔ اب بھی یہ جنگ (یا جھڑپ) فضائی معرکے سے ہی شروع ہوئی۔ لیکن یہ ایک ایسا معرکہ تھا جس میں فریقین کی روائتی افواج، بین الاقوامی سرحدوں سے دور رہیں۔ اسے شاید ”ڈرون وار فیئر“ کا نام دیا جائے گا۔ اس ڈرون میں کوئی انسانی پائلٹ نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس میں سچ مچ کے انسان کی جگہ مشینی انسان رکھ دیا گیا ہے اور اسے ”انسان کے بغیر جہاز“ UAV (Unmanned Aerial Vehicle)کا نام دے دیا گیا ہے۔

مزیدبرآں ”الیکٹرانک وارفیئر“ ایک ایسی جنگ بھی ہے جس میں استعمال ہونے والے اسلحہ جات کا کوئی اردو مترادف موجود نہیں۔ تمام جدید اسلحہ جات چونکہ دساور کے ملکوں کی ایجاد ہیں اس لئے ان کی زبان بھی دساوری یعنی ”غیر اردو“ ہے۔ ان مشینوں کے حصوں پرزوں اور آلات و اسلحہ جات کے لئے کوئی انگلش۔ اردو ڈکشنری موجود نہیں، اس لئے جب یہ کہنا مقصود ہو کہ پاکستان نے اس جھڑپ کے آغاز میں ہی دشمن کے سٹیٹ۔ آف۔ دی آرٹ اسلحہ جات کی کارکردگی غیر موثر کر دی تھی تو اس کی اصل جھلک کی تشریح بتانے کے لئے اردو زبان کی ڈکشنری ”عاجز“ ہوگی۔

22 اپریل کو پہل گام (مقبوضہ کشمیر) میں حریت پسند کشمیریوں نے 26انڈین سیاحوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہی حادثہ اس ”چار روزہ جھڑپ“ کا سبب بنا۔ دو ہفتوں کے بعد 7مئی کو انڈیا نے پاکستان کے 6ٹھکانوں پر حملے کئے جو پنجاب اور کشمیر میں تھے جس میں 31شہری شہید اور 50سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ اس کے جواب میں آخر پاکستان نے ”کچھ نہ کچھ“ تو کرنا ہی تھا۔ پاکستان نے انسانی جانوں کو نشانہ نہ بنایا بلکہ دشمن کے پانچ ایسے طیاروں کو تباہ کر دیا جن کے بارے میں انڈیا کو زعم  تھا کہ ان کو کسی بھی فضائی جنگ یا زمینی کارروائی سے گرایا نہیں جا سکتا۔ انڈیا کے فضائی بارود خانے میں سب سے زیادہ کارگر اور جدید ترین طیارے کا نام رافیل ہے۔ یہ فرانس سے خریدا ہوا ایسا طیارہ ہے جسے فرانس کے علاوہ ناٹو کا جدید ترین جنگی طیارہ بھی سمجھا جاتا ہے اور جب پاکستان نے پہلے ہی روز تین رافیلوں سمیت پانچ طیاروں کو مار گرایا تو نہ صرف انڈیا بلکہ دنیاکے سینئر ترین ریٹائرڈ ائر فورس آفیسرز بھی ہکّا بکّا رہ گئے۔ پاکستان نے J-10C طیارے اور اس میں نصب PL-15میزائلوں کو استعمال کرکے 5عدد بھارتی طیاروں کو برباد کر دیا۔ یہ J-10C طیارے اور یہ میزائل چین سے حاصل کئے گئے تھے اور انہیں (شاید)پاکستان میں کامرہ کے طیارہ ساز کارخانوں میں جدید ترین الیکٹرانک آلات سے مزین اور مسلح کیا گیاتھا۔

انڈیا نے اس جھڑپ کے پہلے روز ہی اسرائیل سے خریدے گئے ڈرونوں کو استعمال کیا۔ ان اسرائیلی ڈرونوں کا نام ہاروپ (Harop) ہے اور انڈیا کے پاس اس طرح کے 70سے زیادہ ڈرون موجود تھے۔ ان ڈرونوں کو انڈیا نے استعمال کیا لیکن یہ تمام کے تمام ڈرون پاکستان نے مار گرائے۔ انڈیا نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا نام استعمال کرکے بہاولپور، مریدکے اور راولپنڈی وغیرہ کے ایسے ٹھکانوں پر حملے کئے جن میں کوئی دہشت گرد موجود نہ تھا۔

چین کو معلوم تھا کہ اس نے جو جنگی ساز و سامان اور تکنیکی علم و فن (Knowhow)پاکستان کو دیا ہے، اس کا امتحان ہونے والا ہے۔ 22اپریل کو انڈیا نے بغیر کسی ثبوت کے جب پاکستان کو پہل گام حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دے دیا اور پاکستان پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں تو چین خاموش بیٹھ کر اپنے اتحادی کو انڈیا کے ہاتھوں مار کھاتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس لئے اس نے وہ تمام حربی اور تکنیکی آلات پاکستان کو فراہم کر دیئے جو انڈیا میں موجود مغربی ممالک  سے حاصل کئے گئے ہتھیاروں کا توڑ تھے۔ اس چار روزہ جھڑپ نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان نے جو سلاحِ جنگ چین سے حاصل کئے ہیں وہ ان سلاحِ جنگ سے زیادہ کارگر ہیں جو انڈیا نے امریکہ، اسرائیل اور فرانس سے حاصل کررکھے تھے۔

انڈیاویسے بھی امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا (QUAD) سے حاصل کئے ہوئے جنگی ساز و سامان (Equipment) پر نازاں تھا۔رشین اسلحہ جات کی خرید تو اس نے کئی برسوں سے ختم کر دی تھی۔ رو س کے فراہم کردہ S-400قسم کے طیارہ شکن میزائل سسٹم پر بھی اسے بہت ناز تھا۔ لیکن اس پر چینی میزائلوں سے جو حملے کئے وہ بہت کارگر ثابت ہوئے۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاک۔ بھارت چار روزہ جھڑپ آنے والے دنوں بلکہ برسوں تک یاد رکھی جائے گی۔ اس معرکے نے مغربی (امریکی، برطانوی، فرانسیسی) اسلحہ جات پر چینی اسلحہ جات کو تفوق اور برتری دے دی ہے اور پاکستان ائر فورس کو یہ کریڈٹ دیا جانا چاہیے کہ اس کے ہوا بازوں نے ماضی کے روائتی مغربی سلاحِ جنگ کا طلسم توڑ کر رکھ دیا ہے۔





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں