جنگ بندی ہو گئی، زبان بندی نہیں ہوئی اور جب تک یہ نہیں ہوگا، تنازعات کا حل شاید ممکن نہ ہوکہ مسائل کا حل تو مذاکرات سے نکلتا ہے اور اگر خود پر قابو نہ ہو تو پھر بات چیت کی کامیابی مشکل ہو جاتی ہے اور یہاں تو دیرینہ مسائل اور دیرینہ ”دشمنی“ ہے جسے سرحد کے دونوں طرف کے سنجیدہ فکر حضرات تمام تر کوشش کے باوجود دوستی تو دور کی بات مفاہمت میں بھی تبدیل نہیں کر اسکے۔ یہ امر آج تو سامنے نہیں آیا کہ ایٹمی صلاحیت کسی بڑی جنگ کو روکے ہوئے ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ انتہا پسندی کی وجہ سے تعلقات میں نرمی آ جانے کے بعد بھی خوشگواریت کا فقدان رہا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ورلڈ پنجابی کانگرس کے چیئرمین فخر زمان اور کانگرس کے بھارتی چیپٹر کی طرف سے بھی بہت کوشش کی گئی، سرحد کے دونوں طرف کانفرنسیں بھی ہوتی رہیں، مہاراجہ پٹیالہ مشرقی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے یا اور کسی جماعت کے، پاکستانی وفد کا استقبال ہوتا اور عزت ہوتی تھی۔ جہاں تک عوام کا سوال ہے تو مرحومین افضال اور شوکت علی کی سنگت نے بھارتی پنجاب میں میلہ لوٹ لیا تھا، ہزاروں افراد نے تقریب میں شرکت کی اور ”بوئے باریاں“ والے گیت پر بھنگڑے ڈالے اور پھر لاہور پریس کلب اور چندی گڑھ پریس کلب کے درمیان وفود کا تبادلہ ہوا تو چندی گڑھ پریس کلب میں ہونے والے سہ روزہ اجتماع میں فیک نیوز اور آزاد صحافت پر جبر اور پابندیوں کے خلاف باقاعدہ قراردادیں منظور کی گئیں اور طے ہوا کہ حقیقی صحافی دباؤ برداشت کرتے ہوئے جھوٹ سے گریز کریں گے اور ممکن حد تک درست خبر شائع اور نشر کرنے کی اپنی سی کوشش کریں گے اور یقین مانیے جن حضرات نے ایسے تبادلوں اور وعدوں کے لئے تگ و دو کی بھارت میں ان کی اکثریت اب سکرینوں پر نہیں، بعض کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہے اور ایسے اخبارات انتہا پسند نہیں، اگرچہ پالیسی کے اعتبار سے ملکی مفاد وہ بھی پیش نظر رکھتے ہیں، ہمارے بعض ساتھیوں کی طرح نہیں کہ وہ اپنی دانشوری میں ہندوتوا کے ارادوں کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں، اس سے میری مراد یہی ہے کہ بھارت ہو یا پاکستان دونوں ممالک بلکہ دنیا بھر کے عوام کی بھاری اکثریت امن پسند ہے اور جن ممالک میں حکمران انتہا پسند ہوتے ہیں، وہاں امن پسند لوگوں کی نہیں چلتی۔
گو بھارت اور پاکستان کے درمیان اگست 1947ء کی تقسیم اور اس کے بعد کے واقعات کے باعث تفاوت موجود ہے اور زیادہ تر بھارتی حکمرانوں کا حصہ ہے اس کے باوجود بی جے پی کے مودی کے برسراقتدار آنے سے قبل جنگ کے امکانات کم ہی تھے اورجھوٹ کے ساتھ کچھ ٹھیک بھی تھا اگرچہ کشمیر جیسے مسائل اب تک متنازعہ چلے آ رہے ہیں اور دونوں ممالک کے کسی بھی حکمران کا موقف تبدیل نہیں ہوا، لیکن مودی کی انتہا پسند اور ہندوتوا ذہنیت نے یہاں بھی اپنے ڈھب کی ڈنڈی ماری اور 35A+370ختم کر دینے کے بعد اپنی طرف سے کشمیر کو ضم کر لیا، اب حالیہ جنگ سے جو بھارت کی شرپسندانہ حرکت ہے اور جواب اللہ کی مدد ہے اور یہ مسئلہ ایک مرتبہ پھر عالمی سطح پر اجاگر ہو گیا اور بھارت میں مودی شکست کے ساتھ ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کے کشمیر والے بیان کی وجہ سے بھی تنقیدکی زد میں ہے اور خود بی جے پی کے اندر اور اتحادی آر ایس ایس کی طرف سے کھلی تنقید کی گئی ہے۔
جہاں تک بھارت کے انتہا پسندانہ پریس اور بی جے پی کے بھونپو حضرات کی ہرزہ سرائی اور جھوٹ کا تعلق ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں اور اب تو ایسے جھوٹ پر خود بھارت میں مذمت ہو رہی ہے جس کے مطابق اس ہندوتوا میڈیا نے نہ صرف لاہور بلکہ کراچی کو بھی سرنڈر کرا دیا تھا، حالانکہ اس بار جو مار پڑی سو پڑی، اس کی سیالکوٹ بارڈر کی طرف سے چھیڑ چھاڑ کی جرائت نہیں ہوئی، حالانکہ 1965ء میں ہمارے جانبازوں کو بھارت کے ٹینکوں کو چونڈہ میں روکنا پڑا تھا، اس بار تو ہمارے ٹینک پہلے سے سرحد پر موجود تھے۔
بھارتی انتہا پسند میڈیا،خوش فہم بھی بہت ہے، جھوٹ تو اس کی گھٹی میں پڑا ہے۔6ستمبر 1965ء کے چور حملے کے وقت بھی بھارتی میڈیا نے لاہور فتح کروا دیا اورلاہور او منی بس کی دو تین بسوں کو امرتسرکے بازاروں میں پھرا کر فتح کا اعلان کیا، حالانکہ رات کی تاریکی میں چوری سے حملہ کرنے والے بھارت کو جلو (بی آر بی نہر) سے دور ہی روک لیا گیا تھا۔ لاہور فتح کرنے کے جھوٹ کا باعث لاہور اومنی بس کی وہ بسیں تھیں جو واہگہ پر رات رکھی جاتیں کہ صبح صبح روٹ پر چل سکیں، ان دنوں لاہور ریلوے سٹیشن سے واہگہ سرحد تک روٹ نمبر12پر اومنی بسیں چلتی تھیں اورچند بسیں روٹ کے دونوں ٹرمینلوں پر روکی جاتی تھی۔5،6ستمبر 65ء کی رات کو سرحد عبور کرنے والے بھارتی فوجیوں نے واہگہ سے یہ تین بسیں امرتسر بھیج دی تھیں اور انہی کو گھما پھرا کر دعویٰ کیا گیا کہ لاہور پر قبضہ ہو گیا اور اب تو مار کھا کے لاہور، کراچی فتح کیا گیا اور جھوٹ بری طرح بے نقاب ہواکہ خود بھارت کے اندر پکڑ لیا گیا۔
اب ایک بات بعض دوستوں کے وسوسوں کی ہو جائے یہ دوست بہادر اور محب وطن بھی ہیں اور حالات پر دیانتداری سے تبصرہ کرتے ہیں، ان کے خیال میں ہماری طرف سے شہداء کی تفصیل دیر سے بتائی گئی ہے،حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہماری طرف سے تو آئی ایس پی آر اور ہمارے میڈیا نے کمال کیا خبر وقت سے پہلے اور ساتھ دینے کے علاوہ فیک نیوز اور جھوٹ سے گریز کیا، یہ امکان ہو سکتا ہے کہ حکمت عملی کے تحت کسی واقع کی خبر میں کچھ تاخیر کی گئی ہو لیکن جب بھی خبر بتائی گئی وہ مکمل اور تصدیق شدہ تھی۔ ہمارے ادارے نے تو دہشت گردی کے شہدا کی تفصیل بتانے سے بھی گریز نہیں کیا البتہ تصدیق ہو جانے کی حد تک دیرضرور ہوتی رہی ہے اسی طرح بھارت کے حملوں سے ہونے والے نقصان کا ذکر بھی کیا جاتا رہا حتیٰ کہ مساجد اور شہری نقصان کی فوٹیج اور شہریوں کے زخمی اور شہید ہونے تک کی خبریں چلائی گئیں، البتہ تھوڑی تاخیر ایئر فورس اور فوج کے جوانوں کی شہادت والی خبر میں کی گئی تاہم پوری خبر و تصاویر اب سے کئی روز قبل جاری کر دی گئیں اور اپنا نقصان بھی بتا دیا گیا، اس کے برعکس بھارت والوں کو تو اتنی بھی توفیق نہ ہوئی کہ وہ اپنے شہریوں ہی کا ذکر کرتے اگرچہ پاکستان ایئر فورس کے جوانوں نے کسی ایسے ہدف کو نشانہ نہیں بنایا، جس سے عام شہری بھی متاثر ہوں پاکستان کی طرف سے تو تمام اہداف کی تفصیل بتا دی گئی اور لائن آف کنٹرول پر جواب سے بھی آگاہ کیا اور شہداء کی بھی تفصیل بتا دی، محب وطن حضرات کو تھوڑا صبر کر لینا چاہیے کہ ایسے ہنگامی حالات میں تھوڑی تاخیر کوئی معنی نہیں رکھتی۔
اللہ نے کرم کیا کہ ہمارے جوانوں کے جذبے اور مہارت نے سرخرو کیا اور دنیا کو حیران کر دیا، اب تک تو یہی حقیقت سامنے آئی کہ مشین کی حیثیت اپنی جگہ اصل قوت اور ہنرمندی تو اس مشین کو استعمال کرنے والوں کی ہے جو ثابت ہو گئی۔