الحمرا ہال نمبر 2میں حلقہ ارباب ذوق لاہور کے سالانہ اجلاس کی تقریب منعقد ہوئی اور کامیاب امیدوار کو خوبصورت انداز میں اقتدار منتقل کیا گیا۔ سیکرٹری شازیہ مفتی اور جوائنٹ سیکرٹری سلمان رسول اشرف بلا مقابلہ منتخب ہو گئے۔
سابقہ سیکرٹری محمد نواز کھرل صاحب نے زیادہ ترکرسیوں پر بیٹھے ہوئے حاضرین کا نام لے کر شکریہ ادا کیا اور حلقہ کو چلانے کے لئے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا ذکر کیا۔ کہنے لگے چار لاکھ روپیہ خرچ ہوا ہے۔ باقی کچھ حضرات نے مالی تعاون کیا جس کی رقم چالیس ہزار موصول ہوئی۔پورے سال بھرپور اجلاس منعقد ہوئے۔البتہ جوائنٹ سیکرٹری محمد احمد صاحب نے حلقہ کی کارروائی لکھنے میں غفلت برتی جس کا ممبران نے اکثر ذکر کیا۔حلقہ ارباب ذوق کے آخری اجلاس کی صدارت مجروح صاحب نے کی۔ جب گذشتہ اجلاس کی کارروائی پڑھی گئی۔کافی اہل ادب نے اعتراضات اٹھائے۔خاص طور پر راقم نے کہا۔ میں نے بانو قدسیہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا میری دوسری کتاب ”تمہارے پاؤں تمہارا سر“ کا فلیپ لکھنے دیا تھا۔ مقررہ وقت پر لینے ماڈل ٹاؤن داستان سرمائے گیا۔ مگر انہوں نے جو جواب دیا۔ مجھے سخت صدمہ پہنچا۔کہنے لگیں کون سی کتاب پر فلیپ لکھنا تھا۔ میں نے فرش پر پاؤں مارے۔ پھر اُن کے بیڈ روم میں گھس گیا۔ جہاں پر دیگر کتابیں پڑی ہوئی تھیں۔ خاکی کاغذمیں لپٹی میری کتاب بھی بول اُٹھی۔ میں ہوں تمہاری محبوبہ، چنانچہ اُسے دونوں ہاتھوں میں اُٹھا لیا۔ برآمدے میں بیٹھی بانو قدسیہ کے سپرد کیا۔ یہ ہے میری کتاب جس پر آپ نے کچھ تحریر فرمانا تھا۔
پھر ایک ہفتے بعد اُن کی خدمت میں حاضر ہوا۔چائے پی۔ انہوں نے دو کاغذ میرے حوالے کئے۔ شکریہ ادا کیا۔ اور کتاب پر ان کا لکھا ہوا فلیپ شائع کر دیا۔
اشفاق احمد صاحب کے بارے میں کہا۔ جب طالبان نے پہاڑوں میں بنے ہوئے مجسمے توڑ دیئے۔ تو میں پریشان ہوا۔ اشفاق احمدسے کہنے لگے تم کیوں پریشان ہوتے ہو۔ افغانستان کی چیز تھی انہوں نے توڑ دی۔میں نے کہا مجھے لگتا ہے کوئی طوفان آنا والا ہے پھر وہی ہوا۔ امریکہ نے خوبصورت ملک کو برباد کر دیا۔
حبیب جالب کی بیٹی کی شادی تھی۔ ایک موٹا شخص گالیاں دے رہا تھا۔میں پاس کھڑے جالب کو بے بسی سے دیکھ رہا تھا۔ مگر وہ اس دکھ کو برداشت کر گئے۔ گویا ان کے جسم میں جان باقی نہیں تھی۔
اس پر صاحب صدر نے کہا حلقہ ارباب ذوق کی لکھی گئی کارروائیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ ان پر مضامین لکھے جاتے ہیں۔ پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔ لہٰذا نا مکمل کارروائی پر میں دستخط نہیں کرتا یہ بھی حلقے کی تاریخ میں پہلی بار ہواکہ صاحب صدر نے دستخط نہیں کئے۔
الحمرا ہال کی تقریب میں پہلے تلاوت کلام ہوئی اور پھر قومی ترانہ پڑھا گیا۔ مرزا اطہر بیگ صاحب نے سالانہ خطبہ پڑھا۔ جسے ختم کرنے میں ایک گھنٹہ صرف ہوا۔حاضرین نے مشکل سے برداشت کیا۔ کچھ نیند کے مزے لے رہے تھے۔خطبہ جو تیرہ صفحات پرمشتمل تھا اس کی کاپیاں بھی سیٹوں پر بیٹھے حضرات تک پہنچائی گئیں۔
اب نئی انتظامیہ پر ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ پہلی غلطیوں کو دور کریں اور اچھے انداز میں بھر پور اجلاس ہر اتوار کو کرائیں اور علم و ادب کی شمع کو روشن رکھیں۔ نئی آنے والی نسل کی صحیح تعلیم و تربیت کریں تا کہ وہ معاشرے اور ملک کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہترین خطہ عطا کیا ہے۔تمام موسم آتے ہیں۔ یہ سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں۔ تم شروع تو کرو تمہارے خیال کے اور بھی لوگ مل جائیں گے۔ اس وطن کو ماں کا درجہ دو پھر دیکھو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں نازل ہوتی ہیں۔
خواتین کا احترام کرو۔ سفر کرتے ہوئے انہیں بیٹھنے کی جگہ دو۔ بزرگوں کا خیال کرو۔ انہوں نے تمام زندگی قوم و ملک کی خدمت کی ہے۔ اب نوجوانوں کو آگے آنا ہے۔ ملک سے باہر نہیں جانا ہے۔ یہ ملک بہت خوبصورت ہے۔ میڈیا روشن کرے۔
آخر میں موسیقی کا پروگرام بھی شروع ہوا۔میں باہر نکل آیا۔ کھرل صاحب کی آواز آئی کنور صاحب چائے پی لیں۔چائے کا کپ ہونٹوں سے لگایا۔ بہت اچھی چائے تھی۔ ایک خاتون باہر تشریف لائیں کہنے لگیں دو ڈبے بریانی کے دیں۔ ایک میرے ڈرائیور کیلئے چنانچہ کھرل صاحب نے ان کے حکم پر عمل کیا۔ میں سوچنے لگا خواتین کتنی دور اندیش ہوتی ہیں۔ ادب کے ساتھ بھوک کا بھی خیال رکھتی ہیں۔ خالی ادب سے پیٹ نہیں بھرتا۔