کل میں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں فوج کے ایک کمانڈنگ افسر ایک وردی پوش بچے کے سامنے بیٹھے تھے اُس پوسٹ کا کیپشن تھا۔ تھیلیسمیا میں مبتلا ایک بچے کی خواہش پوری کرتے ہوئے اُسے ایک دن کے لئے کیپٹن بنا دیا گیا،آپ ذرا غور کریں اِس میں ہی کتنا کرب ہے۔صرف ایک دن خوشی کا اور باقی سب دن دُکھ اور موت کے،والدین کے لئے بھی اور بچے کے لئے بھی، ایسی پوسٹیں اکثر نظر آ جاتی ہیں،کہیں کسی کو ایک دن کے لئے ڈی پی او بنا دیا جاتا ہے اور کہیں ڈپٹی کمشنر۔کہنے کو یہ خوشی فراہمی کرنے کا ایک طریقہ ہے،لیکن اس کے بعد کی جو اذیت ہے اُس کا اندازہ تو صرف اُس بچے یا اُس کے والدین کو ہی ہو سکتا ہے۔میں جب بھی چلڈرن کمپلیکس ہسپتال ملتان کے تھیلیسمیا وارڈ میں جاتا ہوں تو کئی دن تک اذیت میں لپٹی کہانیاں میرا پیچھا کرتی ہیں۔ تھیلیسمیا میں مبتلا اُن بچوں کو کھلونے،ٹافیاں،رنگ برنگی عینکیں،جوسز اور بہت سی چیزیں دے کر بہلانے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر اُن کے ساتھ بیٹھے ہوئے والدین کو کیسے بہلایا جائے، کیسے دلاسہ دیا جائے،جنہیں یہ بتا دیا گیا ہے اس موذی مرض میں چند سال کی زندگی ہوتی ہے،کوئی بہت بڑا معجزہ اور کم نوعیت کی بیماری ہو تو عمر طویل بھی مل جاتی ہے۔ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا اس وارڈ کے سربراہ ہیں اور اُن کے پاس ایسے بچوں کی سو کامیاب کہانیاں ہیں،جن میں تھیلیسمیا سے نجات بھی ملی اور وہ بچے اب نوجوان ہیں، عملی زندگی گزار رہے ہیں ] لیکن اس بیماری کے جو اعداد و شمار ہیں وہ ہوش اُڑا دینے والے ہیں۔اِس وقت ملک بھر میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ بچے اِس موذی مرض میں مبتلا ہیں جبکہ ایک کروڑ افراد ایسے ہیں جو تھیلیسمیا کی بیماری کے کیرئر ہیں،یعنی اگر تھیلیسمیا کے کیرئر آپس میں شادی کر لیں تو اِس بات کا امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ اُن کے بچے تھیلیسمیا کے شکار ہوں۔ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا نے بتایا تھیلیسمیا میں مبتلا ایک بچے کو سال میں 25خون کی بوتلیں لگتی ہیں اس طرح ایک لاکھ بچوں کے لئے سالانہ 25لاکھ بوتلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔صرف ایک بیماری کے لئے اتنی بڑی تعداد شاید اپنی مثال آپ ہے،دیگر بیماریوں،حادثات میں زخمی ہونے والوں کے آپریشن اور دیگر حالات میں خون کی بوتلوں کا حساب لگایا جائے تو ہوشربا اعداد و شمار سامنے آتے ہیں۔دنیا کے بیشتر ممالک نے اس بیماری پر احتیاطی تدابیر اختیار کر کے قابو پا لیا ہے چونکہ اِس کا علاج ایک بہت مہنگا اور پیچیدہ آپریشن ہے اس لئے کوشش یہی کی جاتی ہے خون کی فراہمی سے بچوں کو جب تک ممکن ہے زندہ رکھا جائے۔
اب سوال یہ ہے وہ احتیاطی تدابیر کیا ہیں، جو سنجیدگی سے اختیار کی جائیں تو سو فیصد اِس بیماری کو روکا یا اِس سے اپنے آنے والے بچوں کو بچایا جا سکتا ہے۔اس سے پہلے کہ اس پر گفتگو کی جائے، یہ بتانا ضروری ہے کہ تھیلیسمیا خون کی بیماری ہے۔ تھیلیسمیا یونانی لفظ ”تھلا سا“ سے نکلا ہے، جس کا مطلب ”سمندر“ ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے پہل اس بیماری کا انکشاف سمندر کے قریب رہنے والی آبادی میں ہوا تھا، بعد میں پتہ چلا یہ بیماری افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیاء میں بھی موجود ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کزن میرج کے ذریعے اِس کے بڑھنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے تاہم ماہرین کہتے ہیں کزن میریج میں کوئی حرج نہیں تاہم یہ ضروری ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کا سکریننگ ٹیسٹ کرا لیا جائے کہ دونوں میں میجر تھیلیسمیا کے جراثیم تو نہیں اگر دونوں میں مائز تھیلیسمیا پازیٹو ہے تو بچوں میں تھیلیسمیا کی بیماری کے امکانات بہت کم ہوں گے۔اگر ایک کی پازیٹو اور دوسرے میں نگیٹو رپورٹ آئے گی تو امکانات بڑھ جائیں گے اور اگر دونوں میجر تھیلیسمیا کیرئر ہیں تو بات خطرے کی حد تک چلی جائے گی۔اس کا حل یہ ہے کہ دورانِ حمل ابتدائی ایک دو ماہ میں ٹیسٹ کرایا جا سکتا ہے، اگربچے میں تھیلیسمیا کے اثرات موجود ہوں تو دونوں میاں بیوی شرعی فتویٰ لے کر حمل ضائع کرا سکتے ہیں کیونکہ یہ اُس سے کم اذیت ناک ہے کہ جب بچہ دنیا میں آ جائے اور اس بیماری میں سسک سسک کر زندگی گزارے، والدین کے لئے ایک بڑا امتحان بن جائے۔یہ وہ موذی مرض ہے جس کا خطرہ ہم خود مول لیتے ہیں۔پنجاب کے مختلف ہسپتالوں میں حکومت کی طرف سے لیبارٹریز قائم کی گئی ہیں جہاں تھیلیسمیا کیرئر سکریننگ ٹیسٹ کرایا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر ایک بار پوری فیملی اپنا سکریننگ ٹیسٹ کرا لے تو خاندان اور آنے والی نسل تھیلیسمیا سے محفوظ ہو سکتی ہے۔ دورانِ حمل بھی ایک بار یہ ٹیسٹ ضرور کرا لینا چاہئے تاکہ کوئی امکان باقی نہ رہے۔عام طور پر چھ ماہ کے بچے میں تھیلیسمیا کی علامات شروع ہو جاتی ہیں،بچے کا رنگ سفید، کمزور ہو جاتا ہے، آنکھیں باہر نکلی محسوس ہوتی ہیں، بھوک نہیں لگتی،بخار مستقل جڑ پکڑ لیتا ہے۔اس بیماری کے مختلف مراحل ہیں،ہر مرحلے کا علاج مختلف ہے،زیادہ تر کا علاج خون کی فراہمی سے کیا جاتا ہے اور بچے کو وہ خون دیا جاتا ہے،جو اُس کا جسم پیدا نہیں کر رہا،اس کا اندازہ میڈیکل ٹیسٹوں سے ہوتا ہے۔
تھیلیسمیا کے ماہرین نے اس حوالے سے بھی تحقیق کی ہے کہ پاکستان میں تھیلیسمیا کے بڑھنے کی شرح مختلف زبانیں بولنے والوں میں کیا ہے اس تحقیق کے مطابق سب سے زیادہ شرح آٹھ فیصد بلوچی زبان بولنے والوں میں ہے۔پنجابی زبان بولنے والوں میں 4.6فیصد، پشتو زبان بولنے والوں میں 5.2فیصد، سندھی زبان بولنے والوں میں 4.3 فیصد اور اردو زبان بولنے والوں میں 5.3فیصد ہے۔اس بیماری کا تعلق برادری ازم، رشتہ داری، قوم پرستی اور فیملی سے باہر رشتہ نہ کرنے سے بھی ہے۔اس سے بھی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اس حوالے سے ٹیسٹ نہیں کراتے، کئی خاندانوں میں تو اِس لئے بھی تھیلیسمیا کیرئر ٹیسٹ نہیں کرایا جاتا کہ اگر پازیٹو آ گیا تو رشتہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔یہ ایسی سوچ ہے جس نے اس موذی مرض کو بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔یہ سوچ کر ہی بہت تکلیف ہوتی ہے کہ اِس وقت پاکستان میں ایک لاکھ گھرانے ایسے بچوں کو پال رہے ہیں جن کے بارے میں انہیں یقین نہیں کہ وہ دس بارہ سال سے آگے جا سکیں گے،میں اپنے دوست ملک منظور کو جانتا ہوں،جس نے اپنی بیٹی کو اِسی طرح جیتے مرتے دیکھا اور بالآخر وہ اُس کا ساتھ چھوڑ گئی، تھیلیسمیا سے جنگ کا وقت آ گیا ہے اور اسے ہم نے اپنے شعور، ذمہ داری اور احتیاط سے جیتنا ہے۔
٭٭٭٭٭