یوم معرکہ حق: ہر سال 10مئی کو پاکستان کی اپنے ازلی دشمن بھارت کی یاد کے طور پر منائے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہی وہ دن ہے جب دشمن کی طرف سے کی جانے والی بزدلانہ حرکتوں کے جواب میں پاکستان نے جوابی کارروائی کی دو درجن سے زائد ٹارگٹس کو نشانہ بنایا۔ پاکستانی میزائلوں اور شاہینوں نے ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے جہاں سے بھارتی جہاز اڑ کر پاکستان پر حملہ آور ہوئے تھے وہ اڈے تباہ کئے گئے، جہاں سے میزائل داغے جاتے تھے وہ میزائل سائٹس تباہ کی گئیں اور براہموس میزائلوں کا ڈپو بھی اڑا دیا گیا دشمن مکمل طور پر حواس باختہ ہو کر عالمی چودھری امریکہ کے پاس جا پہنچا کہ جنگ بندی کرا دو۔ یہ ہندو کا پرانا حربہ ہے کہ جوتے پڑنے لگیں تو اگلے کے پیر پکڑ لو۔ ہندوستان نے جنگ کشمیر کے دوران بھی ایسا ہی کیا تھا جب پاک فوج اور مجاہدین سری نگر ایئرپورٹ تک پہنچنے والے تھے کشمیر پاکستان کا حصہ بننے والا تھا فتح مقدر ہو چکی تھی تو بھارت سرکار ایسے ہی بھاگ کر اقوام متحدہ کے در تک جا پہنچی تھی کہ سیز فائرکرا دیا جائے جیسے اب آپریشن بنیان مرصوص کا پہلا مرحلہ ہی کامیاب ہواتو مودی بھاگ کر ٹرمپ کے پاؤں پڑ گیا کہ جنگ بندی کراؤ۔
بہرحال پاک بھارت حالیہ جنگ نے ایک نہیں دو باتیں واضح کر دی ہیں پہلی بات پاکستان کی موثر جنگی تیاری اور بروقت کارروائی کرنے کی صلاحیت دنیا پر عیاں ہو گئی ہے۔ پاک چین دوستی اب ہمالہ سے اونچی ہی نہیں رہی ہے بلکہ یہ دوستی برسرزمین عملاً بھی نظر آنے لگی ہے۔ چین کے ساتھ دوستی کی باتیں، اب باتیں نہیں بلکہ عملاً میدانِ حرب و ضرب میں بھی دیکھی جا چکی ہے۔ چین ہمارا قابل اعتماد دوست ہی نہیں ہے بلکہ ہمارا دکھ سکھ کا ساتھی ثابت ہو گیا ہے۔ چینی سفارتی و عملی معاونت نے پاکستان کو کمینے دشمن کے سامنے فتح سے ہمکنار کیا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کی دھاک بیٹھ گئی ہے۔ ہماری مسلح افواج نے جس جرائت اور مہارت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے چین کی حربی و ضربی برتری بھی ثابت ہوئی ہے۔ پاک فوج زندہ باد۔ پاک چین دوستی پائندہ باد۔
دوسری اہم بات جو اس معرکہ حق نے اظہر من الشمس کر دی ہے وہ ہماری قومی حمیت ہے۔ ہمارے ظاہری دشمن ہی نہیں بلکہ اندرون ملک بسنے والے ہمارے کئی نادان شہری بھی پاکستانی قوم کو ایک ہجوم ثابت کرتے رہے ہیں جب سرخ اور سبز کی تقسیم میں سرخ کو شکست ہو گئی، اشتراکیت اور اس کی عظیم الشان سلطنت 15ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی تو روایتی سرخ، فکری انارکی پھیلانے میں مصروف ہو گئے۔ وہ پہلے ملا اور مولوی کی آڑ میں پاکستان کے نظریاتی و فکری تشخص اسلام پر حملہ آور ہوتے تھے۔ پھر انہوں نے پاکستانی قوم کو ایک ریوڑ ثابت کرنے پر زور لگانا شروع کر دیا ایسے ہی لوگ اور کچھ اسی طرح کی فکر رکھنے والے نام نہاد دانشور پاک بھارت کو ایک ہی طرح کے لوگ ثابت کرنے پر تل گئے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھارت کے ساتھ برادرانہ تعلقات کے قیام کی باتیں کرتے رہے اس حوالے سے انہوں نے کئی فکری مغالطے بھی پیدا کئے پھر ہم نے خود ہی ایک نیا فتنہ پیدا کیا۔ اس کی فکری و عملی تربیت کی اسے ایک دیوبنایا،حتیٰ کہ اس دیو نے ریاست کو ہی نگلنے کی کوشش کی۔ اپنے خالق کے خلاف بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ اس فتنے نے معاشرے میں گہری تقسیم پیدا کی۔ اس سے پہلے معاشرتی تقسیم داخلی طو رپر تھی فکری و نظری اعتبار سے تھی لیکن اس فتنے نے نہ صرف معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کیا۔ افقی اور عمودی تقسیم کے عمل نے ہمہ گیر منفی اثرات مرتب کئے حتیٰ کہ اس تقسیم کے زیر اثر لوگوں کو ریاست پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دی گئی۔ اس فتنہ عظیم نے معاشرتی پراگندگی کو فروغ دیا اور ہم کمزور ہوئے۔ اس فتنے کے باعث کئی لوگ کھل کھلا کر ریاست دشمنی پر اتر آئے۔ خیر الحمدللہ اس فتنے کا محاسبہ کیا جا رہا ہے لیکن اس کا سرا بھی کچلنا باقی ہے۔ دوسری بات جو اس معرکہ حق نے اظہر من الشمس کر دی ہے وہ اس فتنے کی مکمل شکست ہے۔ قوم نے حقیقتاً بنیانِ مرصوص بن کر اپنے ازلی دشمن کے مقابلے میں اپنی مسلح افواج کا ساتھ دے کر یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ”اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں“۔ قوم نے دشمن کے خلاف جس فکری و عملی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے وہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ قومی افتراق و انتشار کوہوا دینے والے کسی لائق نہیں ہیں۔ قوم نے انہیں مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے ان کا منافقانہ بیانیہ اپنی اصلیت دکھا کر اپنی قوت کھو چکاہے۔ قوم نے انہیں مکمل اور حتمی طور پر مسترد کر دیا ہے اب ریاست پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس فتنے کا سر بھی کچل کر اس کا مکمل خاتمہ کر ڈالے۔
اب ہم لوٹ کر واپس عملی اور عمومی زندگی کی طرف آتے ہیں۔ شہبازشریف کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے گزرے ڈیڑھ سال (تقریباً) کے دوران قومی معیشت کو برباد ہونے سے بچانے کے لئے بہت کچھ کیا ہے۔ معاشی گراوٹ کی رفتار پر کسی نہ کسی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ قومی معیشت اب خطرے سے باہر آ گئی ہے۔ عالمی ازلی اور مالیاتی ادارے ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمیں قرض بھی مل رہا ہے۔ امداد بھی مل رہی ہے اور خیرات بھی۔ مالی معاونت کی جو بھی مروج شکلیں ہیں ہمیں مل رہی ہیں یہ بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ دوسری طرف عوام کو ریلیف بھی دیا جا رہا ہے کسی نہ کسی حد تک عوام کو کبھی کبھی اچھی خبر سننے کو مل جاتی ہے جس سے انہیں تھوڑی دیر کے لئے راحت کا احساس ہوتا ہے لیکن جو ریلیف ملنا چاہیے جس کی ضرورت ہے وہ ابھی تک عوام کو نہیں مل پا رہا، عوام کی قوت خرید میں اضافے کے بغیر معاملات درست نہیں ہو سکتے، اس مقصد کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہونا ضروری ہیں جس کے لئے سرمایہ کاری کا فروغ انتہائی اہم عامل ہے وہ ابھی تک کہیں نظر نہیں آ رہا، ہمارے ساتھ بہت سے ممالک ایم او یوز تو کررہے ہیں لیکن عملاً سرمایہ کاری کہیں ہوتی نظر نہیں آ رہی، سرمایہ کاری کے بغیر معیشت میں کھلے پن کے اثرات مرتب نہیں ہوں گے اور جب تک معیشت میں کھلا پن پیدا نہیں ہوتا روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوسکتے۔ لوگوں کو روزگار ملے بغیر ان کی قابل تصرف شخصی آمدنیاں نہیں بڑھیں گی۔ ان کی قوت خرید میں اضافہ نہیں ہوگا، انہیں راحت و ریلیف کا احساس نہیں ہو پائے گا، اس لئے ضروری ہے کہ جس طرح ہم نے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ ہم نے جس طرح اپنی حربی و ضربی صلاحیت کو اعلیٰ معیار کے مطابق پیداکررکھا ہے اسی طرح، اسی طرز پر ہم اپنی معاشی صلاحیت کو بھی پروان چڑھائیں جس طرح ہم نے دشمنی کے مقابلے میں بنیان مرصوص بننے کا عملی مظاہرہ کیا ہے، اسی طرح عمومی حالات میں بھی اپنے لئے، اپنی قوم کے لئے اپنی ترقی کے لئے پاکستان کی ترقی کے لئے بنیانِ مرصوص بن جائیں۔