نریندر مودی کی بڑھکیں شکست کا زخم گہرا ہے

  نریندر مودی کی بڑھکیں شکست کا زخم گہرا ہے



یا تو بھارتی عوام بہت بیوقوف ہیں یا پھر نریندر مودی بہت چالاک ہیں،کیونکہ جتنا جھوٹ انہوں نے قوم سے اتنی بڑی ہزیمت کے بعد خطاب میں بولا،جس طرح کے بے بنیاد دعوے کئے اور جس انداز سے پاکستان کو دھمکیاں دے کر پاکستانی حملوں سے دُکھ اور مایوسی کا شکار عوام کو جھوٹی تسلیاں دیں اُن سے لگتا یہی ہے کہ نریندر مودی اپنے عوام کو بھارتی فلموں میں پائے جانے والے عوام سمجھتے ہیں جو ہر جھوٹی فتح پر کسی بدمعاشی کے لئے تالیاں بجاتے اور بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ اِس سے بڑا جھوٹ شاید اب تک کسی نے نہ بولا ہو کہ بھارت نے پاکستان کو تباہ کر دیا ہے۔ مریدکے اور بہاولپور میں معصوم جانوں کو نشانہ بنا کے نریندر مودی یہ دعویٰ کر رہے ہیں،حالانکہ دنیا بھر کے میڈیا نے ان مقامات پر جا کر جو رپورٹنگ کی اُس میں واضح طور پر  بھارت نے سول آبادی اور مساجد کو نشانہ بنایا ہے۔ان حملوں میں معصوم بچوں اور خواتین کی شہادت کو ہر سطح پر تسلیم کیا گیا۔یہ پاکستان کی تباہی کا راگ نریندر مودی کس خوشی میں الاپ رہے ہیں یہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پاکستان کے ایئر بیسز اور حساس تنصیبات کو تباہ کر دیا،اِسے کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا۔ تباہی بھارت میں ہوئی خود اُن کے میڈیا نے پاکستانی ہوا بازوں کے حملوں کی شدت پر چیخ چنگھاڑ شروع کر دی تھی، پورا سسٹم جام ہو گیا تھا۔ یہ کتنی بڑی ڈھٹائی ہے کہ نریندر مودی فرماتے ہیں ہمارے حملے اتنے شدید تھے کہ پاکستان نے دوپہر کے وقت گھٹنے ٹیک دیئے اور پاکستان کے ڈی جی ایم او نے ہمارے ڈی جی ایم او سے رابطہ کیا،تب تک ہم دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کو بڑے پیمانے پر تباہ کر چکے تھے۔ کیا بات ہے جی! مودی سرکار کے ڈراموں کی۔ حقیقت یہ ہے 10مئی کو بھارت  نے کوئی حملہ کیا  ہی نہیں،وہ دن تو پاکستان کا تھا،پاکستانی طیاروں کی گھن گرج اور بھارت کے اندر گھس کر اُسے سبق سکھانے کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا،اُس دن تو ہم حملہ آور تھے، ہم کیسے بھارتی ڈی جی ایم او سے رابطہ کر کے جنگ بندی کا کہہ سکتے تھے یہ تو بھارت کو اپنی پڑ گئی تھی اُس کی ساری اکڑ فوں نکل چکی تھی اور اُسے خطرہ تھا پاکستان کے سائبر حملوں کی وجہ سے جو سسٹم ناکارہ ہو چکا ہے، اُس کے بعد پاکستانی حملوں میں شدت آ جائے گی ممکن ہے دہلی تک معاملہ پہنچ جائے اور دہلی کا ہوائی اڈہ ملبے کا ڈھیر بن  جائے،نریندر مودی نے عوام کو یہ بھی نہیں بتایا کس طرح بھارت نے امریکہ کو مداخلت کے لئے درخواست کی اور ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ٹویٹ میں جو یہ بتاتے ہیں کہ رات بھر کی سفارت کاری اور ثالثی کے بعد دونوں ممالک کو جنگ بندی پر راضی کیا گیا تو اُس کے لئے پہلی درخواست کس نے کی تھی۔پاکستان تو یہ درخواست اِس لئے نہیں کر سکتا تھا کہ پاکستانی حملوں سے پہلے امریکہ کا جھکاؤ بھارت کی طرف تھا۔یہ تو بھارت کی چیخیں تھیں، جنہوں نے امریکہ کو مجبور کیا کہ وہ اِس جنگ کو بڑھنے سے رکوائے۔

سیاست کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور حکمرانوں کے اپنے دُکھ ہوتے ہیں،10مئی کے بعد نریندر مودی کو گویا سانپ سونگھ گیا تھا۔اُن کا کوئی بیان،کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔12مئی کی شام انہوں نے حوصلہ پکڑ کے بھارتی عوام سے مخاطب ہونا مناسب سمجھا، کیونکہ میڈیا اور عوام کی طرف سے بڑی لے دے ہو رہی تھی۔ بھارت کا چونکہ ہر بیانیہ جھوٹ اور مبالغہ آرائی پر استوار ہوتا ہے اس لئے نریندر مودی کی یہ تقریر بھی اُس کا عکس تھی، پھر اُن کا یہ کہنا کہ پاکستان سے مذاکرات صرف دو نکات پر ہوں گے، دہشت گردی اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کی آزادی۔ اسے کہتے ہیں اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔دہشت گردی کا سب سے بڑا مرکز تو بھارت ہے،پاکستان میں کہاں کہاں نہیں ”را“ نے اپنے دہشت گردی کے مذموم منصوبے نہیں بنائے، بلوچستان، پنجاب،سندھ حتیٰ کہ خیبرپختونخوا میں اُس نے گھناؤنے عمل کو جاری رکھا۔اُس کے جاسوس بھی پکڑے گئے اور دہشت گردوں نے گرفتاری کے بعد ”را“ کی سرپرستی کا انکشاف بھی کیا۔پاکستان کو الزام دینے سے پہلے نریندر مودی یہ بیان کیوں نہیں دیتے کہ بھارت عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ہم پاکستان میں کسی دہشت گردی، کسی علیحدگی پسند تحریک اور کسی ظلم میں شامل نہیں ہوں گے۔پاکستان پر الزام دینا بہت آسان ہے مگر آج تک بھارت کسی غیر جانبدار عالمی فورم پر کوئی ایک ثبوت بھی پیش نہیں کر سکا اِسی لئے وہ تحقیقات سے فرار اختیار کرتا ہے اور پہلگام کے واقعہ پر بھی آج تک اُس نے پاکستان کی یہ پیشکش قبول نہیں کی، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنا کر اس کے حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں،جہاں تک نریندر مودی کا یہ کہنا ہے کہ پاکستانی سائیڈ پر آزاد جموں و کشمیر پر مذاکرات کریں گے، تو دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک بہت گھٹیا اور بھونڈی کوشش ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں نہ کوئی ظلم ہو رہا ہے اور نہ ہی کشمیریوں کی طرف سے کسی تحریک یا اضطراب کا سامنا ہے، جبکہ دوسری طرف مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی نو لاکھ فوج تعینات ہے۔ظلم و جبر عروج پر ہے۔ صرف یہی نہیں دنیا اِس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے،جس کا فیصلہ کشمیریوں کی آزاد رائے سے ہونا چاہئے۔ مذاکرات تو اس پر ہونے چاہئیں کہ بھارت کشمیر کا غاصبانہ قبضہ کیسے اور کب چھوڑے گا اور کشمیریوں پر مظالم ختم کر کے انہیں پُرامن ماحول میں زندگی گزارنے کا موقع کب دے گا۔

نریندر مودی نے یہ بڑھک بھی ماری ہے کہ ہم اپنے طریقے سے اپنی حکمت عملی کے مطابق پاکستان کو جواب دے کر رہیں گے۔سیانے ایسی صورتحال کو کھسیانی بلی کھمبا نوچے سے تعبیر کرتے ہیں۔بھارت نے اپنے طریقے اور اپنی حکمت عملی کے مطابق پاکستان پر حملہ کر کے دیکھ لیا۔ بزدلی اتنی تھی کہ حملہ رات کی تاریکی میں کیا گیا۔مودی نے تقریر میں الزام لگایا کہ پاکستان نے بھارت کی سول آبادی کو نشانہ بنایا۔ حالت یہ ہے کہ بھارت کا متعصب میڈیا بھی ایسی کوئی وڈیو نہیں دکھا سکا،جس میں بھارت کے شہری علاقوں پر حملہ کیا گیا ہو اور اُس میں عام شہری بھی نشانہ بنے ہوں،جبکہ پاکستان میں اُس نے جو میزائل اور ڈرونز حملے کئے،وہ شہری آبادی پر تھے اور اُن میں شہید ہونے والے بچوں، خواتین اور عام شہریوں کی وڈیوز بی بی سی، سی این این، الجزیرہ اور دیگر چینلوں نے دکھائیں۔ حقیقت یہ نریندر مودی ایک شکست خوردہ وزیراعظم بن چکے ہیں۔وہ اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں،جبکہ دوسری طرف شواہد اتنے مضبوط ہیں کہ فتح کو شکست کہنے والے کے ذہنی توازن پر شک ہونے لگتا ہے۔بھارت کے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھنا چھوڑ دے،اپنی برتری کے خبط سے نکل آئے اور بڑا دِل کر کے اپنی شکست کو تسلیم کرے، نریندر مودی کی گیدڑ بھبھکیاں اپنے عوام کو بے وقوف بنانے کی ایک کوشش تو ہو سکتی ہیں،پاکستان کو خوفزدہ نہیں کر سکتیں، بلکہ اُن پر پاکستانیوں کو اب ہنسی آتی ہے کہ شکست نے مودی کا کیا حال کر دیاہے۔

٭٭٭٭٭





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں