جنگیں تو مسائل کو جنم دیتی ہیں 

  جنگیں تو مسائل کو جنم دیتی ہیں 



کیا جنگیں  مسائل کا حل ہوتی ہیں؟ اگر یہ سوال دنیا کے کسی بھی باشعور انسان سے پوچھا جائے تو اس کا جواب یقینا نہیں میں ہو گا لیکن نجانے ہمسایہ ملک بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اورمیڈیا کی عقل کیوں سٹھیا گئی ہے کہ وہ بھارت میں وقوع پذیر ہونے والے کسی بھی واقعہ کو جواز بنا کر پاکستان سے جنگ کرنے کا راگ الاپ دیتے ہیں۔گزشتہ دنوں رونما ہونے والے پہلگام واقعہ کا الزام پاکستان پر لگا کر مودی سرکار نے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات اور سندھ طاس جیسے معاہدہ کے خاتمے کا اعلان کر دیا حالانکہ ورلڈ بینک کی ضمانت پر کیے گئے سندھ طاس معاہدہ کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔پہلگام فالس فلیگ آپریشن کا جواز بنا کر مودی سرکار کی طرف سے کئے گئے اقدامات کے بعد پاکستان نے بھی انڈیا سے ہر طرح کے سفارتی و تجارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مودی اور اس کے حواریوں نے جب جنگ کی دھمکیاں دینا بھی شروع کر دیں تو خطے میں کشیدگی کی فضا بڑھنے لگی۔مودی سرکار کی دھمکیوں کے ردعمل میں پاکستان نے بھی سخت موقف اختیار کرتے ہوئے پوری دنیا پر وضح کیا کہ وہ اپنے دفاع کا بھر پور حق رکھتا ہے اور کسی بھی قسم کی مہم جوئی انڈیا کے لئے ڈراونا خواب ثابت ہو گی۔اس موقع پر افواج پاکستان نے بھی اپنے  اس عزم کا اعادہ کیا کہ جنگ مسلط کرنے کی کسی بھی کوشش کا یقینی اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ قارئین آپ کو یاد ہو گا کہ چندسال قبل  انڈیا میں ہونے والے پلوامہ حملے کا الزام بھی پاکستان پر لگانے کا ڈرامہ تو مودی سرکار نے خوب رچایا لیکن اس حملہ کے الزامات ثابت نہ کر سکا  اور نہ ہی کسی قسم کے ثبوت فراہم کر سکابلکہ اس حملہ کے تانے بانے بھی اسی وقت مودی سرکار سے ملنا شروع ہو گئے تھے اور خود بھارت کے اندر سے اپوزیشن اور دوسری جماعتوں کی طرف سے آوازیں اٹھنا شروع ہو گیئں کہ اس حملہ کی سازش میں بی جے پی اور نریندرر مودی  ملوث ہیں۔ پلوامہ حملہ پاکستان سے منسوب کرنے کے لئے انڈیا نے عالمی فورم پر بھی  بہت تگ و دو کی لیکن شرمندگی اٹھانا پڑی کیونکہ اس کے پاس پاکستان کے خلاف کسی قسم کے ٹھوس شواہد موجود نہیں تھے اور یہاں تک کہ قوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اس حملے کی مذمتی قرارداد میں پاکستان کا نام شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اس وقت بھی پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے تانے بانے بھی مودی سرکار سے ملنا شروع ہو گئے ہیں۔سردست پاکستان ہمیشہ کی طرح مذاکرات کی بات کررہا ہے کیونکہ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں بلکہ یہ تو مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ مودی سرکار نے شاید جنگوں کے قصے سنے ہیں، جنگ کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں کے بارے میں سنا ہو گا  دیکھی نہیں ہیں۔جنگوں کے نتیجے میں تباہی و بربادیوں کی ایسی داستانیں رقم ہوتی ہیں کہ آنے والی نسلوں کو بھی مدتوں یاد رکھنا پڑتا ہے اور مصائب جھیلنا پڑتے ہیں۔صرف اقتدار کے حصول کے لئے سوا ارب انسانوں کو ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک کے ساتھ جنگ میں جھونک دینا کہاں کی انسانیت ہے؟ اس موقع پر انڈین عوام، میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی ہوش کے ناخن لینا ہوں گے کہ انہیں کس آگ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ معاملات کے حل کے لئے مذاکرات کی  میز پر آئیں اور ہاں  اگر مودی سرکار کو جنگ کا زیادہ ہی شوق ہے یا خدانخواستہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو یاد رکھنا کہ پاک فوج دنیا کی صف اول کی وہ فوج ہے جو انڈین فوج کو ناکوں چنے چبوا کے رکھ دے گی۔(اور جواب دیا بھی ہے)

لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی پاکستان امن چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ  ہمیشہ مذاکرات پر زور دیتا آیاہے۔اب ایک طرف انڈیا تمام تر اخلاقی حدوں کو پار کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے  اور دوسری جانب پاکستان اپنے پرامن نقطہ نظر پر قائم ہے اور خطے میں امن کی فضاء چاہتا ہے۔المختصر جناب مودی سرکار کیا جنگی جنون اور دفاعی بجٹ میں بے ہنگم اضافے قوموں کی ترقی کا باعث بنتے ہیں؟ہم صرف اتنا کہیں گے کہ خطے میں چودھراہٹ جمانے کے خواب دیکھنے اور نام نہاد طاقتوں کے اشاروں پر ناچنے کی بجائے معاملات کے حل کے لئے مذاکرات کی حکمت عملی اپنائی جائے۔ ترقی کے راستے پر گامزن ہونے کے لئے دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کاہونا نہایت ضروری ہے۔





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں