یوم تشکر درست اقدام مگر عوام پر بھی توجہ دیں!

   یوم تشکر درست اقدام مگر عوام پر بھی توجہ دیں!



بھارتی دراندازی کی کوشش بری طرح ناکام کرنے اور آپریشن ”بنیان مرصوص“ کی کامیابی کے بعد قوم نے جشن منایا تو آج (جمعہ) سرکاری طور پر بھی یوم تشکر ہوا، اس میں قرآن خوانی، دعاء خیر، شکرانے کے علاوہ بانیان ملک اور شہداء وطن کے لئے دعاء مغفرت بھی کی گئی۔ اس دوران نعرہ تکبیر اور پاکستان زندہ باد سے فضا گونجتی رہی، اللہ کے پاک کلام اور نام سے شروع کئے جانے والے جوابی جہاد سے پوری دنیا جان گئی کہ پاکستان والے اللہ کی دی گئی نعمت کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں، بلاشبہ پوری قوم بھی متحد ہوئی، ماسوا ابلاغ کے چند نابکار اور بدنصیب لوگوں کے مجموعی طور پر سوشل میڈیا پر بھی عقل مندی ہی کا ثبوت دیا گیا، اگرچہ چند نام نہاد ترقی پسند دانشور یہاں بھی دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کی سعی کرتے رہے۔ میں اپنے ان دوستوں کی تعریف کروں گا جنہوں نے اپنے تمام تر عوامی فلسفے کے باوجود معروضی حالات اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھا اور دفاع وطن کی کوششوں کی بھرپور حمائت کی کہ یہی ترقی پسندی کا فلسفہ ہے بلکہ مارکسزم کا تو اصول ہی معروضی حالات اور زمینی حقائق کی روشنی میں ترقی پسند عوامی انقلاب کی راہ ہموار کرنا ہوتا ہے، میں آج بہت ہی دکھ اور معذرت کے ساتھ عر ض کروں گا کہ پاکستان میں اس فلسفے کو رد کیا گیا۔ معروضی حالات اور حقائق کو نظر انداز کیا گیا، اس ملک میں نوے فیصد سے بھی زیادہ اکثریت مسلمانوں کی ہے وہ نیک و گنہگار ہو سکتے ہیں تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھتے اور احکام شرعی کو مانتے بھی ہیں لیکن ہمارے ترقی پسند بھائیوں کو قدرت نے موقع دیااور ذوالفقار علی بھٹو جیسے جدید دور کے سوشل ڈیموکریٹ نے ان دوستوں کی تجویز پر سوشلزم ہماری معیشت اور اسلام ہمارا دین ہے کو تسلیم کرلیا اس وقت ترقی پسندی کی پوری تھیوری کو پیش نظر رکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت تھی، لیکن ہمارے ان دوستوں اور سینئر حضرات نے صرف سوشلزم پر تکیہ کیا اور اسلام ہمارا دین ہے کی حقیقت کو فراموش کر دیا، اسی وجہ سے محترم مولانا کوثر نیازی اور محمد حنیف رامے نے اسلامی سوشلزم اور اسلامی مساوات کی اصطلاح بھی ایجاد کی جسے نظریہ سوشلزم والوں نے نہ مانا اور پھر بھٹو کے ساتھ ہی یہ انتہا پسند سوشلزم بھی دفن ہو گیا اور ہمارے حقیقی ترقی پسند دوست جلاوطنی اور جدوجہد ترک کرنے پر مجبور ہوئے۔ اب بھی وہ دوست جو عوامی مساوات والے انقلاب کے داعی ہیں اپنی سی کوشش تو کررہے ہیں، لیکن جو ہونا تھا وہ ہو چکا، مجھے ماضی یاد کرکے دکھ ہوتا اور احساس ہوتا ہے کہ ہمارے بھی جذبات کا استحصال کیا گیا کہ کبھی کبھی روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے پر طنز کیا جاتا تھا، بہرحال یہ تو دل کا بخار تھا جو اس طرح نکالنے کی کوشش کی ورنہ داستان تو المناک ہے کہ ”ہم ہی ان راہوں میں مارے گئے ہیں“ اور ہمارے سینئرز اللہ کو پیارے ہوئے تو ان کی اولاد لاکھوں میں کھیلتے ہوئے ترقی کا نعرہ لگاتی اور اشرافیہ میں شامل ہے۔ معذرت چاہوں گا اگر کسی دوست کو بُرا لگا ہو، تاہم حقیقت تو برحق ہوتی ہے۔

بات یوم تشکر اور اس کے طریقے کی شروع کی تھی، بے شک تکنیک،حکمت عملی اور جذبہ اپنی جگہ مسلم، لیکن بھاری اور تعداد میں بھی بڑے دشمن کو یوں دھول چٹانے میں اس اللہ کی مدد یقینا شامل ہے جس کا ہم نعرہ لگاتے ہیں، قارئین! آپ سب کو بھی شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے مدد کی اور جلد فیصلہ ہو گیا، بات آگے نہیں بڑھی، ورنہ دو بیلوں کی لڑائی میں گھاس ہی اجڑا کرتی ہے،اسی لئے گزشتہ روز کے کالم میں عرض کیا کہ خوش رہو اور خوش رہنے دو۔

ان حالات ہی میں ذرا ان عوام کی پریشانی اور حالت کا ذکر بے جا نہ ہوگا، جو مختلف مافیاز کے ہاتھوں لٹتے چلے جا رہے ہیں اور ان کا پرسان حال کوئی نہیں، جن حکمرانوں کو عوام کے روٹی، روزگار اور مہنگائی جیسے مسائل حل کرنا ہیں، وہ اس مسرت کے وقت ان کو یاد ہی نہیں کر پا رہے، مرغی مافیا، چینی مافیا اور روٹی مافیا عوام کو لوٹنے اور اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ عوام تو ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے لیکن ہمارے حکمرانوں کو بھی اب فرصت نہیں کہ ان کو خوشی والی مصروفیت مل گئی ہے اور اسے کیش کرانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے، ہمارے نائب وزیراعظم،وزیرخارجہ اور سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا شکریہ کہ انہوں نے کچھ یاد رکھا اورفرمایا ہے کہ چینی سستی کی جائے۔ ان کی مہربانی کہ سرکاری نرخ 164روپے فی کلو مقرر کئے گئے اور بازار میں چینی کے نرخ 174روپے فی کلو تک جا پہنچے ہیں اور یہ جو مرغی مافیا ہے اس نے تو حدود ہی پھلانگ دی ہیں۔ اب پھر مرغی (صافی) اور بون لیس کے نرخ آٹھ سو اور گیارہ سو روپے فی کلو کر دیئے ہیں، مہنگائی کے دور میں آدھا کلو مرغی کا گوشت پکوا لینے والے محنت کش کو اب اس سے بھی محروم کر دیا گیا ہے کہ ڈھائی سو روپے کا گوشت چار سو روپے میں لے جانے کی سکت نہیں رہی، صرف یہی نہیں، محترم اسحاق ڈار صاحب کی بطور وزیرخزانہ والی حکمت عملی نے عوام کو پٹرولیم مصنوعات سستی ہونے کے فوائد سے بھی محروم رکھا ہے۔ انہی محترم نے اپنے دور میں عالمی مارکیٹ میں کمی کو حکومتی نقصان پورا کرنے کے لئے استعمال کیا اور اسی روائت کے مطابق  اب چوتھی بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والی زیادہ کمی کا فائدہ صارفین تک نہیں پہنچنے دیاگیا، دیوالیہ، دیوالیہ کی گردان نے سکھ چین چھین رکھا ہے۔عالمی مارکیٹ کی کساد بازاری کا فائدہ صارف تک نہیں آیا، کہا اور بتایا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پٹرولیم مصنوعات پر لیوی بڑھائی گئی ہے، حالانکہ لیوی کی حد سے بھی 15فیصد زیادہ شرح ہو چکی اور اب تو صارف کی بجائے فائدہ ڈیلر حضرات کو دیا گیا ہے کہ ان کے مطالبات بھی صارفین سے ہی وصول کئے گئے ہیں۔

اب ذرا ہماری تابعداری کا ایک اور نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔ آئی ایم ایف سبسڈی کے خلاف ہے اور غذائی اجناس کی امدادی قیمت مقرر کرنے پر بھی پابندی کا کہا ہے، چنانچہ ملک کے کسی بھی صوبے میں گندم کی امدادی قیمت مقرر نہیں کی گئی، چنانچہ کسان رُل گیا، بازار میں ان سے 2000اور 2200روپے فی چالیس کلو گرام گندم خریدی جارہی ہے، یوں آٹے کے نرخ یکایک آدھے سے بھی کم ہو گئے ہیں اس کے باوجود تنور والوں، ریسٹورنٹ والوں نے روٹی اور نان کے نرخ کم نہیں کئے اور بیکری والوں نے اپنی اشیاء کے نرخوں میں دس پیسے کی کمی نہیں کی۔ اب بازار میں ڈبل روٹی، بسکٹ اور دیگر اشیاء بیکری مہنگے داموں بک رہی ہیں، ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں، سرکاری طور پر اعلان ہی پڑھنے سننے کو ملتے ہیں لیکن اثرات نظر نہیں آتے، کیا امت کو یہ حق نہیں کہ وہ بھی تشکر کا اظہار کرے جب بیانات میں نہیں حقیقت میں اشیاء ضرورت سستی ہوں، ذرا غور فرمائیں اگر منڈی میں لیموں کے نرخ ایک ہزار روپے فی کلو ہوں تو صارف کا کیا حال ہوگا، اسی طرح سبزیوں اور پھلوں کے نرخ ملاحظہ کرلیں اور انڈوں کی قیمت پوچھ لیں تو آپ کے ہوش اڑ جائیں، اگر آپ نے اعلانات کے باوجود عوام کو منافع خوروں کے حوالے کر ہی دیا ہے تو پھر یہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں اور انتظامیہ کو بھی واپس لے لیں اور مارکیٹ کو کھلا چھوڑ دیں، عوام کے نصیب میں جو ہوگا وہ بھگت لیں گے۔

میں اپنے دوستوں اور حکومت سے بھی گزارش کروں گا کہ وہ مرغی خانوں سے فلور ملوں، بیکری والی فیکٹریوں اور شوگر ملوں کے مالکان اور ڈائریکٹر حضرات کی فہرستیں تو شائع کر دیں تاکہ عوام کو معلوم  ہو کہ ان کو لوٹنے والے کون ہیں۔ معذرت خواہ ہوں کہ آج اللہ کے کرم کے باعث ہی دل کا بخار نکالنے کا موقع حاصل کرلیا۔





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں