*ہماری فتح کے انداز دنیا سے نرالے ہیں *

  *ہماری فتح کے انداز دنیا سے نرالے ہیں *



 طاقت اپنی رعونت لیے ایک مست ہاتھی بن چکی تھی۔وہ بار بار  پر وقار امن و شانتی کو احساس دلاتی کہ وہ کم زور ہے اور طاقت اسے مسلنے کی حیثیت رکھتی ہے۔ایسی ہر گفتگو میں حیثیت و استطاعت سے زیادہ طاقت کی خواہش کا زور غالب نظر آتا۔ طاقت کا لہجہ غرور سے بھرتا جاتا رہا تھا۔ طاقت و رعونت کے ہمراہ وحشی جانوروں کے جھنڈ میں اضافہ ہو رہا تھا۔ دوسری طرف امن کی طرف سے جواب میں  ظرف سے پر مسکراہٹ اور خاموشی تھی۔ امن اس ہرزہ سرائی کے مقابل نہیں آنا چاہتا تھا۔ لیکن طاقت بپھرا ہوا سانڈ بن چکی تھی۔طاقت کی بدزبانی عروج پر تھی۔نہ کوئی روک ٹوک،نہ وقفہ اور نہ ہی لمحہ بھر کا ٹھہراؤ۔ بد زبانی بھری رعونت ہر موڑ، ہر چوک پر بندر یا ریچھ کا تماشا سجانے کی خواہش مند رہتی۔ یہ حتمی بات ہے کہ بندر یا ریچھ کا تماشا لگانے والا  تماشے کا چورن تو بیچ سکتا ہے۔لیکن حقیقی شعور سے کوسوں دور  ہوتا ہے۔طاقت کا غلط استعمال جس لیول پر بھی ہو، کسی  بھی معاشرے اور دنیا بھر میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ طاقت کا استعمال کام کی جگہ پر ہو تو نہ صرف جونیئرز کی دل آزاری کا سبب بنتا ہے بلکہ ان کی کارکردگی بھی اس سے شدید متاثر ہوتی ہے۔  ایسا شخص دوسروں کے کام میں بلا وجہ مداخلت کرتا ہے، ان کی بے عزتی کرتا، انہیں بے وجہ تنقید اور جبر و دھونس کا نشانہ بناتا ہے اور عام طور پر وہ یہ حربے اپنا کام نکلوانے کے لیے کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جھوٹ بولتے اور دوسرے پر غلبہ پانے   یا گفتگو میں خود کو غالب رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔بد دیانت طاقت پیشہ وارانہ تعلقات کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی جدوجہد میں لگی رہتی ہے۔ درحقیقت وہ ہر وقت  کارکردگی کے پھٹے ڈھول کو پیٹ کر اپنے گھٹیا رویے کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔لیکن جلد یا بدیر ان کی قلعی کھل جاتی ہے۔منہ پہ چڑھتے تو ہیں اور دل سے اتر جاتے ہیں۔دل سے اترے ہوئے لوگوں کا کہیں ٹھکانا نہیں ہوتا۔وہ خواہ جتنے بھی جلسے،جلوس یا احتجاج کا اہتمام کریں۔اور دوسروں پر الزام تراشی سمیت وقت کی دھول بن جاتے ہیں۔ 

یہ دل برا سہی سر بازار تو نہ کہہ

آخر تو اس مکان میں، کچھ دن رہا تو ہے

تمام تر معاشرتی مشکلات  و بد نظمی کے ہمراہ گزری چپقلش اور دباؤ کے سائے میں احساس آزادی کے ساتھ سرخوشی،فخر اور تحفظ  وہ تسکین بھرے  الفاظ ہیں جن کو بار بار ریوائنڈ کر کے سننے سے لطف کم نہیں ہوتا اور نہ ہی تشنگی دور ہوتی ہے۔ حالیہ فتح کے تناظر میں پاکستانی قوم کے لیے ان الفاظ کا مفہوم بدل چکا ہے اور نئی آب و تاب سے ہمیں تقویت دے رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پاک فوج کے نعرے میں ازسر نو روح پھونکی گئی ہے۔یہ بھی کہ ہم اپنی جغرافیائی شناخت کے لیے کس قدر حساس ہیں اور اتنے ہی پر امن اور شانت بھی۔یہ بھی کہ ہم آپسی اختلافات کے ہمراہ اپنے وطن اور اپنی فوج سے کس قدر محبت کرتے ہیں۔ بے لوث اور بلا ارادہ۔ 

یہ بات طے ہے کہ جس گھر کے دروازے کھلے ہوں۔چور،ڈاکو اور لٹیرے اسی طرف رخ کرتے ہیں۔ان کے سامنے کوئی اخلاقی ضابطہ نہیں ہوتا اور نہ ہی انھیں کوئی خوف ہوتا ہے۔ہماری دیواریں بھی سلامت ہیں اورسلامتی و امن کے دروازے بھی۔ جنگ اور امن میں بھی بغض ہوتا ہے جو بظاہر مخالفت کا تاثر دیتا ہے۔لیکن بات مخالفت یا دشمنی سے کہیں آگے نکل جاتی ہے۔ بندر کا تماشا دکھانے والا جب جنگی جنون کے خبط میں مبتلا ہوتا ہے تو ہر چوک،چوراہے پر منڈلی سجانا چاہتا ہے۔لیکن ہم گروہ در گروہ بھی گروہ عاشقاں ہیں جن کے لیے حقیقی آزادی کے کھوکھلے نعرہ سے کہیں زیادہ اہم حقیقی شعور ہے۔ہمیں سوچنا ہے کہ پاکستانی جھنڈے پر سفید رنگ ہماری طاقت کا ثبوت ہے جسے رواداری اور ہم آہنگی کی چادر کی اشد ضرورت ہے۔چاند ستارہ  ستاروں کا جھرمٹ پاک فوج ہے جس  کی روشنی یکساں ہے اور جو وطن کی سالمیت کی دیواریں تھامے ہوئے ہے۔جس کی بدولت ہمارا سر فخر سے بلند ہوا ہے۔دنیا نے ہماری پہچان تسلیم کی۔اپنے دوست ممالک کی دوستی ہمارا سرمایہ ہے۔پاک فوج کا آپریشن بنیان مرصوص معرکہ حق کی بشارت ہے۔ہم گلشن کے سکون و سلامتی کے داعی ہیں۔دشمن کی طاقت کا اظہار ہماری کم زوری یا بزدلی نہیں۔یہ بھی طے ہے کہ طاقت  بے لگام ہاتھی نہیں کہ فصلیں اجاڑ دے اور فہم و فراست کسی بھی مرحلے پر کم زوری  نہیں 

اے خزاں بھاگ جا چمن سے شتاب

ورنہ فوج   بہار   آوے  ہے 

(شیخ ظہور الدین حاتم)

اب ایک لڑائی ہمیں اپنے اندر بھی لڑنا ہے تاکہ ہم سب کے ہاتھوں میں صرف پاکستان کا جھنڈا لہرائے۔ یہ لڑائی بد زبانی اور فرقہ وارانہ جہالت کے خلاف ہے۔یہ لڑائی زبانی جمع خرچ کے خلاف تحقیقی، پر دلائل مکالمہ کا آغاز ہے۔

زرد چہرے امیدیں سنبھالے  ہوئے 

اپنے صدمات کو بھی اجالے  ہوئے 

حادثوں پہ رکیں اپنی جاں وار دیں 

اور مائیں بھی بیٹے رضاکار دیں 

اپنے خوابوں کو وردی میں ڈھالے ہوئے 

اپنے پرچم کی حرمت بڑھاتے ہوئے 

اس زمیں پر لہو جو بہایا گیا 

ان شہیدوں کا سر سے نہ سایا گیا 

ان کا زخمی بدن ان کی روشن جبیں 

سر زمین  وطن ہے یہ دل کی زمیں 

خوش نما خواب خود اپنی تعبیر  ہیں 

اک سفر پر سجی اپنی تعمیر ہے 

رقص ہوتا رہے گا روایات  کا 

چاک دامن نہ ہو گا کرامات کا 

دل سمجھ کر رہے گا یہ جادوگری 

یہ صدائیں ہیں یا پھر ہے نوحہ گری 

آؤ نکلیں سبھی اپنے جذبات سے 

عزم فولاد ہے درد شمشیر ہے 

ہم جو وارے گئے ہم ستارہ نشیں 

سر زمین وطن ہے یہ دل کی زمیں 





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں