فربہی مائل شخص نے خوشگوار حیرت سے کہا ۔”شیخ صاحب! آج تو آپ بہت سمارٹ لگ رہے ہیں۔ڈی سی لگتے ہی صرف ایک ماہ میں اتنا وزن کیسے کم کر لیا؟”ڈی سی صاحب شرما گئے، ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی چہکتی ہوئی آواز آئی۔”سر!ہمارے ایک عزیز بہت ہی دبلے پتلے تھے، مجسٹریٹ تھے۔ اُن کے بیٹے کے چند دوست ملنے آئے۔مجسٹریٹ صاحب کا بہت رعب دبدبہ تھا، بچے حیران و پریشان ہوگئے۔ ایک سے رہا نہ گیا، کہہ اٹھا، چاچا جی کی شو شا اپنی جگہ لیکن اگر ان سے مجسٹریسی نکال دے شاید خود تو اپنے پاؤں پر کھڑ ے نہ ہو سکیں ”ڈی سی صاحب نے اپنا وزن تو اب کم کیا ہے اور شایدطبی یا رومانی وجوہات کی بنا پر کیا ہے۔عاشق اور پنتیس سالہ آدمی کو موٹاپا زیب نہیں دیتا۔ آپ کے علم میں اضافہ کی خاطر بتائے دیتا ہوں کہ ان کا اپنا وزن اب معمولی سا کم ہوا ہے۔ باقی دنیا کا وزن تو ان کی نظر میں اُسی دن کم ہو گیا تھا جس دن اکیڈمی گئے تھے تب سے اب تک باقی دنیا کا وزن بتدریج کم ہو رہا ہے اور رہتی دنیا تک کم ہی ہوتا رہے گا۔اصل وزن تو ان کے خیالات عالیہ کا ہے جس میں مسلسل اضافے کا رجحان ہے۔ دُنیا مان چکی ہے کہ ان کا ہر خیال اعلیٰ و ار فع ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب انہیں اگلا گریڈملے گا اور اہل علم اردو زبان کا دامن وسیع وعریض کر کے ان کے خیالات کے وزن کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اُمید واثق یہی ہے کہ علماء حضرات کی کاوشیں ابھی جاری ہوں گی اور ہمارے بھائی اگلے گریڈ میں ترقی پا چکے ہوں گے اور برصغیر پاک و ہند کے ہر اہل علم کو یہ ماننا پڑ ے گا کہ ڈی سی صاحب کے خیالات کے وزن کا احاطہ کسی بھی زبان کے موجودہ ذخیرہ الفاظ کے و زن سے نہیں ہو سکتا۔نئے الفاظ ایجاد کرنے پڑیں گے۔ ایک ڈی سی صاحب کو ماتحت نے یقین دلا دیا کہ زمین تو ہوتی ہی ڈسٹرکٹ کلکٹر کی ہے،بھلے وہ کسی بھی زمین میں شعر کہے، کو ن ہے جو اس کے اختیارات میں دخل دے سکے۔ڈپٹی کمشنر صاحب نثر لکھتے تھے۔ شعر کہتے تھے۔ ہر بحر میں ہر لہر میں۔ایک دن مقامی کالج کے نئے پرنسپل ڈپٹی کمشنر ہاؤس پر سلام کرنے آئے تو صاحب نے نثر دکھائی،داد پائی۔ اک غزل بھی سنا ڈالی، دوسری غزل کا دوسرا شعر سنایا، پرنسپل صاحب کے چہرے پر تکدر آیا،سناٹا چھایا۔ پرنسپل صاحب ساری زندگی اُردو ادب کے استاد رہے تھے، سرکاری دفاتر کے مروجہ قواعدوضوابط والے استاد نہ بن سکے تھے، منہ سے نکل گیا ”مصرعِ ثانی وزن سے گرا معلوم ہوتا ہے“ مصرع کا وزن ان کو معلوم تھا اپنا وزن بھی معلوم ہو گیا،اگلے دن تبادلے کے احکامات آگئے۔ تبادلہ خیالات اور اپنے جذبات سے اعتبار اٹھ گیا، اک شعر مگر یاد آیا، آج تک یادداشت سے محو نہ ہو پایا۔ نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے کمشنر صاحب مسکرا رہے تھے۔اسسٹنٹ کمشنر سے ان کی دوستی کی وجہ نوجوان کی حسِ مزاح تھی۔ ڈپٹی کمشنر صاحب بھی باتو ں کاپورا لطف لے رہے تھے۔ آخر کار کہہ اٹھے ”ڈاکٹر صاحب!آپ نہ جانے کس دور میں زندہ ہیں، پُلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے۔ اب وہ بات کہا ں مولوی مدن جیسی“۔ پہلے ہمارے ہا ں موٹاپا امارت کی علامت تھا آج کل بیماری کی علامت ہے۔ پنجابی فلموں کی پرانی ہیرو ئن واقع ڈھولہ ہوتی تھی آج کی ہیروئین د بلی پتلی ہے۔افسری کا وزن بھی وہ نہیں رہا، نہ پہلے سے افسر رہے ہیں نہ پہلے سے لوگ، ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں، پتہ ہی نہ چلا شان وشوکت کے آنے اور جانے میں۔ افسرانہ شان وشوکت تو کب کی گئی، اب تو عزت سادات محفوظ رہے، یہی بہت ہے۔کمشنر صاحب نے ڈپٹی کمشنر صاحب کی بات پوری توجہ سے سنی، فرمایا شیخ صاحب آپ کی ہر بات سے مکمل اتفاق ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ یہ نوبت آئی کیسے؟ سوال ایسا تھا کہ سب کو چپ لگ گئی۔
؎افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے نا گفتہ رہ گئے
جواب تینوں حضرات جانتے بھی تھے اور نہیں بھی، بعض باتیں خود سے بھی کہی جائیں تو تکلیف دیتی ہیں۔ پاکستان کے مختلف صوبوں میں تعینات رہ چکے سینئر آفیسر، کمشنر، اپنے کیرئیر کے درمیانی مراحل سے گزرنے والے ڈپٹی کمشنر اور سول سروس میں اپنے سفر کی شروعات کرنے والے تینوں افسر مطالعہ کے شوقین تھے۔پاکستان کی تاریخ پر نظر رکھتے تھے۔ حساس تھے اور خود شنا س بھی۔ خاموشی نے ماحول کوانتہائی بوجھل کر دیا تو اسسٹنٹ کمشنر نے سکوت توڑتے ہوئے کہا”ماضی قریب میں ایک مزاح نگار نے لکھا، حالات پر گالی دئیے بغیر بات کرنے والا شخص یا تو ولی ہے یا پھر حالات کا ذمہ دار، سر ہم ولی نہیں ہیں اور گالی دینا ہمیں سکھایا نہیں گیا، آپ کے سوال نے ذہنی بھوک بھڑکا دی ہے،آئیے! پیٹ کی بھوک بجھاتے ہیں کھانا کھاتے ہیں“ کمشنر صاحب کا ظرف بھی وسیع تھا اور دسترخوان بھی۔ وہ دیہاتی آدمی تھے۔ اپنے وزن کی کمی بیشی سے پریشان نہیں ہوتے تھے لیکن اپنے عہدے اور اپنی سیٹ کے وزن کو لے کر شدید جذباتی تھے۔اکثریت کی وجہ شہرت و عزت ان کا عہدہ ہوتا ہے تو بعض عہدے چند شخصیات کی بدولت عزت پاتے ہیں۔ پہلی وجہ عارضی ہے تو دوسری مستقل۔ کتنے عہدے آج تک قدرت اللہ شہاب، مختار مسعود،کھدرپوش جیسے افسران کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ایک مشہور شاعر سے فیض احمدفیض صاحب کی وفات کے موقع پر ایک صحافی نے پوچھا ”اردو ادب میں فیض صاحب کی وفات سے جو خلاء پیدا ہو ا ہے،وہ آپ کے خیال میں کون پورا کرے گا؟“جواب ملا ”مجھ سے کیا پوچھتے ہیں میں نے تو اُن کی زندگی میں ہی خٰلاء پورا کیا ہوا تھا“۔ ہمارے ہاں کوئی خلاء ہے بھی یانہیں۔ خلاء ہے تو کس کا دیا ہے؟ ذمے دار کی کیا سزا ہے؟ ان سوالات کے جواب ہر پاکستانی پہ قرض ہیں۔ اصلاح احوال ہم سب کا فرض ہے۔ہم اپنا اپنا فرض ادا کریں گے تو ارضِ وطن پہ نکھار آئے گا۔وطن کے باسیوں کو قرار آئے گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہم نے ہر طرح کے بحران دیکھے ہیں۔ دیکھے ہی نہیں بلکہ جھیلے بھی ہیں مگر ہمیشہ سرخرو ہو کر نکلے ہیں۔
؎تندیٰ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
بلھے شاہ کی پرستار،ادبی ذوق سے سرشارطیبہ کہتی ہے وطن میں آتے ہیں بحران، اونچی کردیتے ہیں اڑان، دل ہے سچا مسلمان شاد،آباد رہے گا پاکستان۔ انشاء اللہ سوچنے کے شوقین،ذہین،فطین خاتون کا ارشاد ہے فردکے دل پر ندامت کا داغ نہ ہو اور مملکت خدا داد میں نیت کا بحران نہ ہو تو مستقبل محفوظ ہوتا ہے انشا ء اللہ ہمارا مستقبل محفوظ بھی ہے اور روشن بھی۔
٭٭٭