علمی و تدریسی صلاحیت کا قائل ہونے کے باوجود سچ تو یہ ہے کہ طاہر یوسف بخاری کی انتظامی خوبیوں کا ادراک اُن کے پرنسپل بننے پر ہوا۔ کچھ نہ کچھ انتظامی مہارت تو ہر کسی میں ہوتی ہے۔ پر شعوری کوشش کے بغیر انسان دوستی میں گندھی ہوئی فیصلہ سازی ایک اور بات ہے۔ مَیں نے اِس سلسلہ وار تحریر کی ابتدا میں طاہر بخاری کو محکمہء تعلیم کا چودھری شجاعت حسین کہا تھا۔ اب محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کو امکانی حد تک ناراض نہ کرنے کا وصف چودھری شجاعت کو ورثے میں مِلا۔ اُن کے والد ِمحترم سے نظریاتی اختلاف رکھتے ہوئے بھی بزرگوار سے زندگی کی واحد ملاقات مجھ پر جو شخصی تاثر چھوڑ گئی اُس کی جھلک نہ دکھاؤں تو بخاری کی تصویر ادھوری رہ جائے گی۔
ہمارا ٹاکرہ انارکلی کے سرے پر واقع ’نعمت کدہ‘ کے ڈائننگ ہال میں ہوا جہاں کالج مَیس سے نکل کر ایم اے انگلش کے تین طالب علم لنچ کے آرڈر کا انتظار کر رہے تھے۔ اپنے وقت کا یہ مقبول ریستوان میرے خوش خور ہم عصروں کو اب بھی یاد ہو گا۔ ایک تو دیسی گھی میں ترتراتے کھانے، پھر سفید ٹیبل کلاتھ کے اوپر چمکدار فولادی ڈونگے جن کے پیندوں کی گرم بھاپ سالن کو ٹھنڈا نہ ہونے دیتی۔ اچانک ایک لڑکے نے کہا ”اوئے، چودھری ظہور الہی“۔ ساتھ ہی موصوف نے، جو چھ سات آدمیوں کے ہمراہ سیڑھیاں چڑھ رہے تھے، اپنی طرف تیزی سے آتے ہوئے ایک ویٹر کو زور سے پکارا ”نہیں، مَیں خود بات کروں گا۔“ پھر قریب آ کر کہنے لگے ”بیٹا، ہے بڑی زیادتی کہ آپ کھانا کھانے لگے ہیں اور مَیں کہوں کہ یہاں سے اُٹھ جائیں۔۔۔ مگر مجبوری یہ ہے کہ ہم آدمی زیادہ ہیں، چھوٹی میز پہ پورے نہیں آ سکتے۔“
ہم تینوں یکدم کھڑے ہو گئے اور احترام سے پیشکش کی کہ سر، آپ تشریف رکھیں، ہم دوسری جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔ اب جو سامنے والی میز کی طرف بڑھے تو پیچھے سے آواز آئی ”بیٹا، میرا خیال تھا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ ہی کھا لیں۔“ ”نہیں نہیں سر، بہت شکریہ۔“ یہ سیاسی سوال اٹھانے کا موقع نہیں، لیکن سوچیے کہ ”مَیں خود بات کروں گا“ کی بجائے اگر ویٹر ہم تینوں کو آٹھ والی میز سے اٹھا کر چار والے ٹیبل کی طرف دھکیلتا تو ہمارا ردِ عمل کیا ہوتا؟ ایک جہاندیدہ شخصیت نے یہ اندازہ پیشگی لگا لیا اور سب کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچے رہے۔
اب اِسی واقعے کے تناظر میں قریبی ساتھی پروفیسر احمد علیم کی یادیں سُنیے جن سے کبھی کبھی طاہر بخاری کا بطور ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ اور پھر بحیثیت پرنسپل اِس نوع کا مکالمہ ہو جایا کرتا ”یار علیم، ایہہ ویکھو ساڈے انگلش دے دوستاں دیاں شکائیتاں۔ کلاس نئیں پڑھاندے، جے پڑھاندے نیں تے تیاری کرکے نئیں آوندے۔“ ”سر، کِدھرے مینوں تے نئیں سنا رئے او؟“ ”نئیں تہاڈی ہور قسم دی شکایت ہووے گی۔“ ”اوہ کِیہہ، سر؟“ ”تسیں کدی چھٹی نئیں کردے۔۔۔ چنگا، چاء پیو۔۔۔ اُنج کسے ساتھی نوں ڈانٹنا ناں، بس پیار نال ای سمجھا دیناں۔“ یہ ہیں احمد علیم جن کی تخلیقی صفات گنوانا چاہوں تو ایک دفتر کھُل جائے۔ اِسی دورانیہ کو محیط ایک گواہ اور بھی ہے جس کی ’حق گوئی و بیباکی‘ کی تائید آپ کو ’آئینِ جواں مرداں‘ کے آرٹیکل باسٹھ، تریسٹھ میں ملے گی۔ جی ہاں، عاطف خالد بٹ۔
عاطف بٹ، جو لاہور کے تین ابلاغی اداروں میں میرے ہمکار رہے، تب نواحی شہر شرق پور کے گورنمنٹ کالج میں تدریس سے وابستہ تھے۔ اُن کی علمی و تحقیقی اُٹھان کے پیشِ نظر خیال آیا کہ عاطف ایم اے او کالج میں ہوں تو یہ شعبہء اردو کے لیے بہت مفید ہوگا۔ پھر ہفتے کے چھ دن موٹر سائیکل پر شرق پور جانے آنے کے پچھتر کلومیٹر فی یوم کی بجائے یہ وقت اور توانائی ڈاکٹریٹ پر صرف ہونی چاہیے جو ریسرچ آخری مراحل میں تھی۔ بخاری کو اشارہ دیا تو وہ متفق تھے کہ عاطف بٹ کو عنقریب براہِ راست اسسٹنٹ پروفیسر سیلیکٹ ہونے پر تقرر کے فطری بہاؤ میں ایم اے او کالج لے آنا زیادہ آسان ہوگا۔ ہوا بھی یہی، لیکن یہ خبر عاطف نے بریک کی کہ سیلیکشن ہوتے ہی بخاری صاحب نے خود فون کر کے ’درخواست‘ کی ہے کہ آپ ہمارا کالج بخوشی جوائن کر لیں۔
پرنسپل طاہر یوسف بخاری شاید میرے دوست کی امکانی ’بٹ صاحبیوں‘ سے پیشگی آگاہ تھے۔ اِس لیے شروع شروع میں عاطف نے جب بھی شکوہ کیا کہ طاہر بخاری لوگوں کی اشتعال انگیزی کے باوجود دو ٹوک قدم نہیں اٹھاتے تو یہی جواب مِلا کہ ”بٹ صاحب، ابھی سردیاں ہیں، آپ بھی دھوپ کا مزہ لیں اور کوئی ہتھ چھُٹ حرکت نہ کریں“ پھر بہار آئی تو رُت بدلتے ہی صلح جوئی کے سبق کا پیرایہ بھی بدل گیا۔ اب ارشاد ہوتا ”میری ریٹائرمنٹ قریب ہے، سو جھگڑے سے اجتناب برتیں تاکہ مَیں صلح صفائی سے میعاد پوری کر لوں۔“ آج وہی عاطف بٹ ہیں جو بخاری کو ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، ڈاکٹر دلاور حسین اور اور پروفیسر کرامت حسین جعفری جیسے سربراہان ِ ادارہ کی صف میں شمار کرنے پر مُصر ہیں۔ یہ انکشاف بھی عاطف کی زبانی ہوا کہ طاہر بخاری صبح صبح جہاں کھڑے ہو کر ہر آتے جاتے پر نظر رکھتے تھے، لوگ اب اُسے بخاری چوک کہتے ہیں۔
پروفیسر احمد علیم یاد دلاتے ہیں کہ والد کے سائے سے محروم طلبہ کے لیے سپیشل سکالر شپ کی اُن کی تجویز نئے پرنسپل نے پانچ منٹ میں مان لی اور اِس پر عمل درآمد بھی کیا۔ احمد علیم کے الفاظ میں ”ایسا نہ بخاری صاحب سے پہلے ہوا تھا، نہ اُن کے بعد ہوا۔“کئی نادار طلبہ کی ٹیوشن فیِس کی چُپ چاپ ادائیگی اور قریبی ہمکاروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب اِس کے علاوہ ہے۔ افسوس کہ بعض اساتذہ کی انفرادی خواہش کے باوجود اِس امداد کو باضابطہ شکل نہ مِل سکی۔ یہ کام گورنمنٹ کالج (جی سی یو) میں ہوا جہاں بخاری صاحب اور اُن کی بیگم نے اپنی، نیز دونوں کے والدین کی طرف سے چار سلور سکالر شپس کی ذمہ داری قبول کی اور ابتدا میں بیس لاکھ روپے اینڈومنٹ فنڈ میں جمع کرائے۔ ادارے کی ایک سو پچاسویں سالگرہ پہ سر فضل ِ حسین تھئیٹر کی تزئین و آرائش میں بھی بخاری فیملی نے مالی عطیہ دیا تھا جس پر ’اولڈ راوین اور پروفیسر، طاہر یوسف بخاری (1956ء تا2021ء(‘ کی خدمات کے اعتراف میں اعزازی کتبہ نصب کیا گیا۔
اپنے پیچھے خلا چھوڑ جانے والے کیا اپنا راستہ خود متعین کرتے ہیں یا عوامی زبان میں کوئی ’گیدڑ سنگھی‘ اُن کے ہاتھ لگ جاتی ہے؟ بخاری کے ساتھ دونوں باتیں ہوئیں۔ پُر عزم طاہر یوسف کی ابتدائی مسافتوں کا مَیں عینی شاہد ہوں۔ گیدڑ سنگھی بیگم شمیم خیال کی بدولت ملی جو جید استاد ہیں اور ہمارے مرشد ڈاکٹر عبدالحمید خیال کی اہلیہ۔ نظروں سے اوجھل بخاری کی جھلک اب مَیں کہاں تلاش کروں؟ گلشن بخاری کا کہنا ہے کہ بطور استاد اُن کی سخت گیری کو بخاری نے سمجھا بجھا کر کم کیا تھا اور آج وہ اُنہی کی طرح ہر بڑے مشاہدے اور تجربے کو ری وزٹ کر کے دیکھتی ہیں۔ بیٹی سارہ کمپیوٹر سائنس کی امتیازی ڈگری لے کر انگلش لٹریچر کے سفر پرنکلیں تو اُن کی بخاری نما باریک فہمی حیران کُن لگی۔ میرا بیشتر انحصار البتہ اکنامکس کے برسرِ روزگار گریجوایٹ علی طاہر کی حسِ مزاح پر ہے۔ صاحبزادے ایک دن ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے، ماں کی طرف دیکھا اور بخاری صاحب کے رنگ میں چہکے: ”تو گلشن آرا، پھر چلیں؟“ ظاہر ہے جواب اثبات میں تھا۔
(ختم شُد)