پاک فوج کا جذبہ ایمانی

  پاک فوج کا جذبہ ایمانی



 زمانہ قدیم میں جنگیں تیر و شمشیر کے سائے میں لڑی جاتی تھیں،گزشتہ صدیوں میں توپ و ٹینک پر انحصار کیا گیا، مگر فائٹر طیاروں کی ہر دور میں ضرورت محسوس کی گئی،حالیہ پاک بھارت یدھ میں پاکستانی پائلٹوں نے ثابت کیا کہ اب جنگ زمین کے بجائے فضاؤں میں لڑی جائے گی، ٹیکنا لوجی کے استعمال  کے ساتھ بھارت کو یہ سبق بھی دیا کہ جذبہ شہادت دِل میں موجزن ہو تو رافیل بھی پر کاہ ثابت ہوتے ہیں، ستمبر1965ء میں بھی بھارت نے قیاس و گمان اور اُمید و یاس پر پاک فورسز کو للکارا،لاہور جمخانہ میں دوپہر کی چائے پینے کا خواب دیکھنے والوں کو پھر کبھی چائے پینا ہی نصیب نہ ہوا، مئی 2025ء میں بھی بھارتیوں نے طاقت کے نشے میں پاکستان کی مسلح افواج کو گیدڑ بھبھکی دی تو پاکستان ساختہ ہمارے جے ایف تھنڈر طیاروں نے دنیا کے مہنگے ترین اور جدید طیارے رافیل کو بھی دھول چٹا دی،ویسے تو جنگ فریق ممالک کے لئے کبھی سود مند نہیں ہوتی،مگر اِس جنگ میں پاکستان کا پلہ ہر پہلو اور زاویے  سے بھاری رہا،بھارتی حملے نے سیاسی طور پر تقسیم پاکستانی قوم کو متحد اور یکجا کر کے ایک لڑی میں پرو دیا،سوشل میڈیا کے وہ راہرو جن پر ملک دشمنی کا گمان تھاوہ بھی تمام اختلافات کو تج کر بھارت کے لتے لینے لگے،مسلح افواج پر قوم کے اعتماد میں گراں قدر اضافہ ہوا،جنگ نے یہ بھی ثابت کیا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے مسلمانوں کی ریاست نہیں جیسے بھارت ہندوؤں کا اور اسرئیل یہودیوں کا ہے۔

462 عیسیٰ نگری گاؤں سمندری (فیصل آباد) سے تعلق رکھنے والے سکواڈرن لیڈر کامران بشیر مسیح نے ثابت کیا کہ پاک سرزمین پر بسنے والا ہر شخص اس مٹی پر جان نچھاور کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے،اقلیتی برادری کی ملک کے لئے خدمات کسی بھی طرح کلمہ گو مسلمانوں سے کم نہیں، مسیحی بھی اس زمین کے بیٹے ہیں، اس کا ثبوت ماضی میں پاک فضائیہ کے گروپ کیپٹن سیسل چودھری نے دیا تھا حال میں کامران نے ثابت کیا پاک دھرتی کو جب بھی ضرورت پڑے ہر شہری جان کی بازی لگانے کو تیار ہے،

اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا

تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں 

جنگ مئی کے پاکستانی ہیرو پائلٹ کامران بچپن سے ہی ایئرفورس میں جانے کا شوق رکھتے تھے وہ ریموٹ والے جہاز خرید کے لاتے،ان کو کھولتے اور پھر اڑاتے اور گاؤں والوں کو دکھاتے تھے،اس کے ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی، 2007ء میں ایئرفورس کے ٹیسٹ پاس کئے،اکتوبر 2007ء میں ہی ایئرفورس کو جوائن کر لیا، رسالپور میں تین سال ٹریننگ کی،بہادر سپوت سکواڈرن لیڈ کامران پڑھائی میں بھی بہت اچھے تھے،ایف ایس سی میں مثالی نمبر تھے، لاسال ہائی سکول فیصل آباد سے کامران نے میٹرک کیا، عبدالسلام کالج سے ایف ایس سی کی،کامران بچپن میں اپنے والد سے بہت ڈرتے تھے، جب باپ گھر آتا وہ باہر چلا جاتا اور جب باپ باہر جاتا تو وہ گھر آجاتا۔

کامران پاک فضائیہ کے اس دستے کا حصہ تھے جس نے بھارت کی ریاست پنجاب کے علاقے آدم پور میں قائم بھارتی ایئربیس پر نصب دنیا کے جدید ترین میزائل سسٹمز میں سے ایک ایس-400 تباہ کر دیا تھا اور اس کی لاگت کا تخمینہ 1.5 ارب ڈالر بتایا گیا ہے، پوری قوم بھارتی S-400 ائیر ڈیفنس سسٹم کے پرخچے اڑانے والے کامران بشیر مسیح اور پاک فصائیہ کے شیر دِل سپوتوں کا شکریہ ادا کر رہی ہے۔ اس تاریخ ساز فتح کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا،پاک فضائیہ کی حالیہ جنگ میں کامیابی کو دنیا بھر میں تحسین کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے،اگر چہ دو ایٹمی طاقتوں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں دنیا فکر مند تھی،امریکہ جس نے پہلے اِس جنگ سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا ایٹمی ٹکراؤ کے خدشے کے تحت ثالثی کے لئے میدان میں اُترا، پاک فورسز کے افسروں اور جوانوں نے ثابت کیا کہ حالات جیسے بھی ہوں وہ مختصر وقت میں جنگ کا نقشہ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،بھارت ایک مرتبہ پھر اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہو گیا ہے،جبکہ پاک فورسز نے خود کو بہترین پیشہ ور مسلح افواج منوایا ہے،اِس عظیم کامیابی پر مشکلات سے دوچار قوم کے ہر فرد کا قد آسمان سے جا لگا ہے۔

خدا کا شکر ہے کہ بھارت کو پہلی ہزیمت کے بعد ہی عقل آ گئی ورنہ اگر جنگ طویل ہوتی تو اس کے  بھیانک اثرات فریقین کو جھیلنا پڑتے، چوٹی کے ماہرین اقتصادیات کے نزدیک آج کے دور میں جنگ لڑنا بہت مہنگا پڑے گا اور اگر بھارت اور پاکستان میں  لمبی جنگ ہو گئی تو اس کے معاشی اثرات بہت بھیانک ہو سکتے ہیں،پاک بھارت طویل  جنگ کی صورت میں پاکستان پر روزانہ کے جنگی اخراجات کا تخمینہ 250ملین ڈالر کے قریب ہو سکتا تھا، دو ایٹمی طاقتوں میں جنگ کی صورتحال بے قابو ہوجاتی تو نقصانات کا اندازہ اعداد و شمار میں لگانا بہت مشکل ہوتا،باقاعدہ جنگ کی صورت میں دونوں ملکوں میں مہنگائی کا سیلاب روکنا ناممکن ہو جاتا، سپلائی چین ڈسٹرب ہوتی اور سرمایہ کاری کا عمل بھی بری طرح متاثر ہوتا، ممبئی اور کراچی پورٹس بھی بند یا محدود ہو سکتی تھیں،وار پریمئیم ناگزیر ہو جاتا، ٹرانسپورٹ کی لاگت بڑھ جاتی،مارکیٹ سکڑ،پیداواری اخراجات بڑھ جاتے درآمدات،برآمدات بھی متاثر ہو سکتی تھیں۔

جنگ کی صورت میں بھارت کے روزانہ 650ملین ڈالر خرچ ہوتے اور پاکستان کا روزانہ کا جنگی خرچہ 250 ملین ڈالر کے قریب ہو سکتا تھا، براہِ راست فوجی اخراجات میں فوجیوں کی تعیناتی، فضائیہ کی پروازیں، بحری کارروائیاں، گولہ بارود اور توپ خانہ، خوراک اور ایندھن سمیت بہت سے دیگر اخراجات ہوتے، جنگ سے ہونے والے مالی نقصانات میں براہِ راست فوجی اخراجات کے علاوہ وسیع پیمانے پر ہونے والا معاشی نقصان، اور طویل مدتی بحالی کا بوجھ بھی لازمی نتیجہ ہوتا،ایک جنگی جہاز کی ایک پرواز کی لاگت 50ہزار ڈالر،ایک میزائل کی قیمت تقریباً دو سے تین ملین ڈالر اور صرف ایک بارودی گولے کی قیمت ایک ہزار ڈالر ہے۔

روائتی جنگ بھی ناقابل تصور تباہی اپنے دامن میں سمیٹ کر لاتی، جنگ سے ہونے والے نقصان کے یہ اندازے محض مالیاتی امور سے متعلق ہیں، جنگیں جو انسانی زندگیاں لے جاتی ہیں اور جو معاشرتی دکھ چھوڑ جاتی ہیں اس کا تو تصور ہی محال ہے،مگر اس ذہنیت کا کیا کِیا جائے کہ بھارت میں ہر سیاسی جماعت پاکستان دشمنی پر ووٹ لیتی ہے اب بھی بہار میں الیکشن سر پر ہیں،مودی کا ہندو توا کا بیانیہ دن بدن کمزور سیاسی معاملات پران کی گرفت نرم پڑتی جا رہی ہے،ان کے پاس اپنی گرتی ساکھ کو سنبھالا دینے کے لئے ترپ کا ایک ہی پتا ہے اور وہ ہے پاکستان دشمنی،اسی سکرپٹ کے تحت پہلگام میں خون ریزی کرائی گئی الزام پاکستان پر لگا کر جنگ کا جواز تراشا گیا مگر ”الٹی پڑ گئی سب تدبیریں“مودی نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے اور کسی بڑی جنگ کا خواب دیکھا تو ایک مرتبہ پھر رسوائی اس کا مقدر بنے گی کہ پاک فوک کا ہر جوان چوکس اور مستعد ہے اور ہر پاکستانی شہری پاک فوج کا پشتی بان ہے۔

٭٭٭٭٭





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں