پاکستان کا اوورسیز پاکستانیوں پر احسان3

   پاکستان کا اوورسیز پاکستانیوں پر احسان3

سمندر پار پاکستانیوں کی جب بات ہو، تو لامحالہ‘ ذہن ملک سے باہر بسنے والے اُن لاکھوں پاکستانیوں کی طرف جاتا ہے کہ جو مشرقِ وُسطیٰ اور حجاز مقدس وغیرہ میں عارضی طور پر مقیم سخت محنت کر کے پاکستان میں بسنے والی اپنی اولادوں کو پال پوس رہے ہیں،لیکن میرے آج کے مخاطب وہ اوورسیز پاکستانی ہیں جو پاکستان چھوڑ کر مستقل یورپ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ میں منتقل ہو چکے۔ ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف نے گلف میں محنت کرنے والے پاکستانیوں کو ہی پاکستان کا اصل محسن گردانا تھا۔ اسمبلی کے فلور پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ مغرب و امریکہ میں مقیم پاکستانی تو اُن ممالک کے پاسپورٹ لے کر وہاں کے شہری بن جاتے ہیں۔میں بھی آج انہی پاکستانیوں کو زیر بحث لانا چاہتا ہوں کہ جن کا پاکستان میں کچھ خاص سٹیک نہیں رہ گیا،  جن کی اولادیں، جائیدادیں، ملازمتیں اور ذہنی و قلبی وابستگیاں تک پاکستان سے دوسرے ملکوں کی طرف منتقل چکی ہیں۔میں پچھلے بیس سال سے برطانیہ میں مقیم اور یورپ میں بسنے والی پاکستانی کمیونٹی میں کسی حد تک متحرک اور ان کے سماجی و مالی حالات سے قدرے واقف ہوں۔ انگلستان کے جزائر میں اِس وقت کہنے اور گننے کی حد تک تو سولہ لاکھ پاکستانی آباد ہیں،لیکن گہرائی میں اُتریں،تو معلوم ہوتا ہے کہ دراصل یہ تعداد ایک لاکھ کے قریب بنتی ہے، کیونکہ ڈیڑھ ملین وہ کشمیری ہیں کہ جن کی ایک بڑی تعداد خود کو پاکستانی نہیں، کشمیری کہلوانا پسند کرتی ہے اور باقی جو پاکستانی کہلواتے بھی ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ جو برطانیہ کے جزائر میں ساٹھ سال پہلے آ کر آباد ہوئے اور اب جن کی تیسری نسل یہاں پیدا ہو چکی ہے،جو اپنے اسلاف کی زبان، کلچر، ملک اور نہ مذہب سے واقف۔ اس نسل کی اگر ہم سے کوئی مماثلت ہے تو صرف رنگت اور نین نقش کی،ذہنی ہم آہنگی، اقدار اور روایات یکسر دم توڑ چکی ہیں۔ پاکستان کا ان سمندر پار بسنے والے پاکستانیوں پر سب سے پہلا اور بڑا احسان یہ ہے کہ اُس نے انہیں شناخت (Identity)کی نعمت عطا کی۔ پون صدی مغرب میں رہنے اوران ممالک کے پاسپورٹ حاصل کر لینے کے باوجود جب تیسرے درجے کے شہری بن کر رہنا اور کسی بھی آفیشل فارم میں اپنی Ethnicity بتانی پڑے، تو وہاں پاکستان والے خانے کو ٹِک کرنا ہی پڑتا ہے، بخوشی یا با دلِ نخواستہ۔ اس شناخت کی اہمیت کوئی سٹیٹ لیس شخص ہی بتا سکتا ہے۔

پچھلے پندرہ بیس سال کو اگر نکال کر بات کی جائے، تو اس سے پہلے جو بھی لوگ پاکستان چھوڑ کر باہر بسے، ان کی اکثریت اَن پڑھ، اوسط ذہن کی مالک اور،مزدور پیشہ تھی، لہٰذا ان لوگوں نے یہاں آ کر ٹیکسیاں چلائیں، چپس اور پیزے کی دکانیں کھولیں، حلال گوشت کے نام کو بیچا، ڈلیوریاں کیں اور بس۔وزیراعظم ٹونی بلیئر کے دور میں پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں پڑھے لکھے انٹر نیشنل سٹوڈنٹس یہاں آئے، خدا خیر رکھے، انہوں نے بھی یہاں مکھی پر مکھی ہی ماری، جو کام کم پڑھے لکھے کر رہے تھے، انہوں نے وہی کام مزید سستے میں کر دکھایا۔ ہم روتے ہیں کہ اقوامِ عالم میں پاکستان کا نام کیوں بدنام ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان سے باہر بسنے والا ہر پاکستانی اپنے ملک کا نمائندہ اور سفیر ہے اور جب ملکی نمائندوں کے کرتوت گھناؤنے، گھٹیا اور غلیظ ہوں گے، تو مقامی لوگ ان کی شکلیں دیکھ کر اپنے کانوں کو ہاتھ کیوں نہ لگائیں گے۔ پاکستانیوں نے جلدی پاسپورٹ لینے کی غرض سے گوریوں سے جعلی محبتیں رچائیں، پاسپورٹ تو مل گیا، لیکن ساتھ بچے بھی ملے۔ کسی پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے کسی گوری مسافر کا ریپ کیا۔ تفتیش ہوئی، گرفتاری کے ڈر سے پاکستان جا پہنچا۔ کسی نے کسی کو قتل کر دیا اور واپس پاکستان پہنچ گیا۔ آپ نے چند مہینے پہلے رپورٹ ہونے والا دلخراش واقعہ ضرور سنا ہو گا کہ لندن کی مضافاتی بستی Woking میں بیالیس سالہ عرفان نے پولش عورت سے شادی کی، جس سے ان کی ایک بیٹی ساری پیدا ہوئی،دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔ عرفان نے بینش بتول سے دوسری شادی کر لی۔ سارہ سوتیلی ماں اور باپ کے ساتھ رہنے لگی۔ سارہ کا چچا فیصل ملک، بینش اور باپ اس بچی پر تشدد کرتے رہے،یہاں تک کہ سارہ شریف مر گئی۔ لندن کی سنٹرل کریمنل کورٹ نے باپ کو چالیس سال، سوتیلی ماں کو33 سال اور چچا کو سولہ سال قید کی سزا سنائی۔عرفان اور فیصل تو چلیں پاکستان سے برطانیہ پہنچنے تھے، لیکن بینش تو برطانیہ کی پیداوار تھی، دلچسپ بات یہ ہے کہ بیٹی کو قتل کرنے کے بعد یہ دونوں میاں بیوی  پاکستان بھاگے۔دوستو، وطن ِ عزیز کا پاکستان چھوڑ جانے والوں پر دوسرا احسان یہ ہے کہ یہ ہر بھاگنے والے کو واپس اپنے سینے سے لگا لیتا ہے، قبول کر لیتا ہے، جسے کہیں اماں نہیں، پاکستان اُسے اماں دیتا ہے۔

 پچاس باون برادر اِسلامی ملک صرف کلمہ گو مسلمان ہیں، حلق سے اوپر والے، لیکن اسلامی قوانین اپنی اصل روح کے ساتھ اگر رائج ہیں، تو مغرب میں۔ کسی کو دیکھ کر مسکرانا اگر صدقہ ہے، تو یہ آپ کو صبح و شام ہر گلی و کوچے میں بٹتا ملے گا۔اسلامی فلاحی ریاست کا بنیادی فرض یہ ہے کہ فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا نہ سوئے، ہر شہری کو روٹی اور چھت میسر رہے اور آج مغرب اپنے ہر شہری کو اس بات کی ضمانت دیتا ہے۔نظامِ زکوٰۃ کو اہل ِ مغرب نے سوشل بینیفٹ کے نام سے رائج کیا، جس طرح زکوٰۃ لینے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے پاس مالی وسائل نہ ہوں، اسی طرح یورپ میں اگر آپ کے پاس ملازمت نہیں، یا ملازمت ہے، لیکن ادھوری ہے، فُل ٹائم نہیں، تو سرکار آپ کو ہر ہفتے پیسے دے گی۔خیر سے برطانیہ میں Benefit لینے والوں میں سب سے بڑی تعداد پاکستانیوں کی ہے۔ یہ ساری زندگی ہمہ وقتی نوکری صرف اس لیے نہیں کرتے کہ سرکاری زکوٰۃ بند ہو جائے گی۔ حکومت ِ برطانیہ کی طرف اِس وقت کم از کم اجرت 12پاونڈ اور 21پنس فی گھنٹہ مقرر ہے، اس میں چند پنس کے حساب سے ہر سال اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایک پاؤنڈ اس وقت360 روپے کے قریب ہے۔ آپ صرف یہ تصور کیجیے کہ جو پاکستانی پورا پورا دن ایون فیلڈ کے سامنے کھڑے ہو کر چور چور کے نعرے لگاتے رہتے ہیں، کیا آپ صدقِ دل سے سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی کام کرتے ہوں گے؟ اگر تاجِ برطانیہ آج بینیفٹ دینا بند کر دے، تو یہاں کی گلیاں سُونی پڑ جائیں اور برطانیہ میں ہُو کا عالم ہو۔

تحریر کے آخر میں، میں حکومت سے ایک گزارش یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں آپ نے اوورسیز پاکستانیوں پر اتنے احسانات کیے ہیں، وہاں ایک آخری احسان مزید کر دیجئے کہ شاید اس میں ہی پاکستان اور سمندر پار پاکستانیوں کی بھلائی ہے،وہ احسان یہ ہے کہ انہیں کسی قسم کا خصوصی سلوک دینے سے انکار کیا  جائے۔ ہیتھرو پر شلوار اُتروا کر تلاشی دینے والا زکوٰۃ خور لاہور کے ہوئی اڈے پر اُترتے ہی پاکستان کا داماد کیوں بن جاتا ہے؟ یہ پاکستانی اپنے ملک کی محبت میں پاکستان پیسے نہیں بھیجتے، یہ ملک و قوم پر احسان نہیں کرتے۔ انہیں پاؤنڈ کا ریٹ ایک روپیہ سستا ملے، تویہ ہنڈی یا حوالے کے ذریعے پیسے بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں،اِس لئے پیسے بھیجنا ان کی ضرورت ہے۔ صرف زرِمبادلہ کی وجہ سے انہیں کسی قسم کی رعایت نہیں ملنی چاہئے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے حق والی ہر تحریک کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔

٭٭٭٭٭





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں