بھارت کے ساتھ حالیہ مڈبھیڑ میں ہماری جنگی مہارت کو دنیا بھر میں سراہا گیا اور ملک بھر میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں نے بھرپور انداز سے اس پر جشن منایا۔ایک عرصے بعد قومی یکجہتی کا بھرپور مظاہرہ دیکھنے میں آیا کہ ساری قوم نے دشمن کو واضح پیغام دیا کہ اندرونی طور پر اختلافات ہونے کے باوجود ہم دشمن کے مقابلے میں ایک ہیں، اس انتہائی مختصر نوعیت کی کاروائی میں یہ بات بھی دنیا کے سامنے روشن ہو گئی کہ پاکستان کو ہر گز تر نوالہ سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے اور ہم ہر محاذ پر کسی بھی حملہ آور کو بھرپور جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ کچھ سوالات ضرور اس سارے منظر نامے نے اٹھا دئیے ہیں کہ بھارت کی طرف سے ایک غیر ضروری جنگی کاروائی کو بروقت عالمی طاقتوں کی طرف سے روکنے کیلئے کیوں قدم نہیں اٹھایا گیا جو سارے خطے کو کسی بڑے نقصان سے دوچار کر سکتا تھا؟ پھربھارت کی ٹارگٹڈ کاروائی جس کیلئے اس نے پہلے سے مطلع بھی کر دیا تھا اور پھر ہمارے ہاں بھی اس کے نشان زدہ ٹارگٹس کو خالی کروا لیا گیا اور یوں بڑے جانی نقصان سے دوچار نہیں ہونا پڑا۔ دشمن کے میزائلز کا پاکستانی حدود کو کراس کرنا اور اپنے نشان زدہ مقامات تک پہنچنا آخر کیا معنی رکھتا ہے۔ پاکستان کی جوابی کاروائی کے فوراً بعد امریکہ کا اسے روک دینا اور ثالثی کیلئے میدان میں اتر آنا بھی معنی خیز ہے جس کیلئے بھارت کی اشتعال انگیزی کے وقت ہی پاکستان کی طرف سے عالمی طاقتوں کو صورت حال سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ امریکی صدر کا دونوں کو کھانے کی میز پر جمع کرنے کا اعلان بھی خوش آئند ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لڑائی کی بجائے تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہیے۔ امریکی صدر کے عرب ممالک کے دورے پر دنیا بھر میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے اور سوشل میڈیا پر اس کی خاصی دھوم رہی۔ امریکی صدر نے بھی اسے بزنس ٹرپ ہی قرار دیا اور اپنی واپسی پر ایک پریس کانفرنس میں انتظامات کا سرسری ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے بہتر بزنس ڈیل کوئی نہیں کر سکتا کہ مجھے اس کا پچاس سالہ تجربہ ہے۔ امریکی صدر نے اپنی الیکشن مہم کے دوران بھی جنگوں کے خاتمے اور تجارت کو بڑھانے کی بات کی تھی۔ ہمارے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے لیے امریکی صدر نے کیا بزنس ڈیل پلان کی ہو گی۔ جب دونوں کے درمیان تعلق کی دیوار میں دشمنی اور تنازعات کی اتنی بڑی دراڑ موجود ہے تو اس کے ہوتے ہوئے کس طرح اور کن بنیادوں پر تجارت کا فروغ ممکن ہے جبکہ جنگ سے قبل ہمارا بند کیا ہوا پانی تا حال بند ہے جسے جنگی حملے سے زیادہ مہلک کہا جانا چاہیے، پھر اس کے ساتھ کشمیر کے معاملے پر دونوں ممالک ایک مستقل لڑائی کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنا چکا اور اب آزاد کشمیر کو بھی حوالے کرنے کی بات کر رہا ہے جہاں اس کی طرف سے نہ صرف میزائل بھی داغے گئے بلکہ آئے دن کنڑول لائن پر سرحدی علاقوں میں فائرنگ کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ امریکی قیادت کی طرف سے دونوں کو کھانے کی میز پر بٹھاکر تجارت کرنے کی بات کی گئی ہے تو ان نازک تنازعات کے ہوتے ہوئے یہ کس طرح آگے بڑھ سکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک کیلئے واقعی یہ سوچنے کی بات ہے کہ سات سمندر پار سے مذہب، تہذیب، ثقافت، عقائد و نظریات میں کہیں بھی مطابقت نہ ہوتے ہوئے بزنس کیلئے عرب ممالک سے ڈیل کی جا سکتی ہے اور وہ بھی اسے بخوشی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں تو ساتھ ساتھ رہنے والے ممالک اپنی قوموں کا قیمتی سرمایہ کیوں جنگی جنون کی آگ میں جھونک کر اپنی نسلوں کے مستقبل کو تاریک کرتے جار ہے ہیں۔ دونوں ملکوں کی باہمی تجارت کا معاملہ اس لیے بھی شاید قابل عمل ہو سکتا ہے کہ اس میں امریکہ شامل ہے جو جمہوریت کا عالمی علمبردار بھی ہے لیکن عرب کی بادشاہت کے ساتھ بزنس ڈیل کرتے ہوئے اس نے کہیں بھی وہاں عوامی حقوق اور ان کی آواز کو دبائے جانے کی بات نہیں کی۔ ساؤتھ افریقہ کے صدر راما فوسا کے حالیہ امریکی دورے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے وقت بولا جانیوالا جملہ آج کل ہر طرف موضوع بحث ہے جس میں امریکی صدر نے افریقہ میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی پر کچھ ویڈیو کلپس اور تصویری ثبوت دکھائے تو افریقی صدر کا کہنا تھا کہ یہ ہماری ملکی پالیسی نہیں اور میرے وفد میں بھی وائٹ لوگ موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومتی سطح پر کہیں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا، جس پر مزید بات آگے بڑھی تو انھوں نے کہا کہ جناب صد ر میں معذرت چاہتا ہوں کہ میں آپ کو جہاز تحفے میں نہیں دے سکتا جس پر ایک قہقہہ بھی بلند ہوا لیکن تیر نکل چکا تھا اور اس کا صاف مطلب تھا کہ امریکی صدر نے عرب بادشاہوں کے ہاں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی اور جمہوریت کشی پر کوئی بات نہیں کی۔ امریکی قیادت واقعی اس خطے میں ثالثی کیلئے آمادہ ہے تو اسے تجارت سے بھی پہلے ان متنازعہ امور کو ترجیحی بنیادوں پر حل کروانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے جو اس خطے کی خوشحالی اور دونوں اقوام کے عوام کی معاشی ترقی کے راستے کی حقیقی رکاوٹ ہے۔ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کی قرارد ادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کی راہ ہموار کرتا ہے اور بھارت کی طرف سے روکا جانیو الا پانی کسی بھی طرح سے اس کا استحقاق ہر گز نہیں ہے۔ ان مسائل میں کھانے کی میز پر تجارت کی بات۔۔۔اشارہ کافی ہے۔