امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت کے لئے منتخب ہونے کے بعد ان ترجیحات میں یکسوئی پائی جا رہی ہے۔مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے اسے یوٹرن بھی کہا جا رہا ہے۔تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے امریکی صدر نے پہلی بار منتخب ہونے کے بعد اپنا پہلا دورہ کیا تھا اس کا انتخاب اسرائیل تھا امریکن سفارتخانے کا یروشلم میں افتتاح کیا تھا۔ گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کے بعد ٹرمپ سعودی عرب پہنچے تھے۔دوسری دفعہ منتخب ہونے کے بعد امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں جس مہمان کا استقبال کیا وہ اسرائیل کا وزیراعظم نیتن یاہو تھا تاریخ بتاتی ہے امریکہ کے اب تک بننے والے صدور میں ٹرمپ اسرائیل کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔یہی وجہ ہے انہوں نے اپنے سعودی عرب کے تاریخ ساز دورے کے موقع پر جہاں اربوں ڈالر کے معاہدے کیے وہاں انہوں نے سعودی حکام کو بالعموم اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو بالخصوص باور کرایاکہ اسرائیل کو آپ تسلیم کر کے مجھے بڑی خوشی دے سکتے ہیں سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے پانچ روزہ دورے کو امریکن اور سوشل میڈیا جس طرح اچھال رہا ہے اس کی بھی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔پانچ روزہ مختصر ترین دورے میں ساڑھے 30 ٹریلین ڈالرسے زائد کے معاہدے سامنے آئے ہیں۔ٹرمپ کے دورے سے اندازہ ہوتا ہے امریکی خارجہ پالیسی میں سب سے پہلے اسرائیل ہے اس کو تسلیم کرانا اس کو مضبوط کرنا امریکن صدر کی ترجیحات اول میں ہے۔ ٹرمپ کے پہلے دورِ اقتدار اور موجودہ حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے واضع فرق سوشل میڈیا کا ہے جسے بے لگام کہا جاتا ہے،کہا جا رہا ہے، مگر ایسے حقائق جو سامنے آ رہے ہیں یقینا امریکن پالیسی بھی اس کی متقاضی نہیں ہو سکتی اور سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں بھی متحمل نہیں ہو سکتیں ٹرمپ کا دِل جیتنے کے لئے ریاض نے جو تاریخ ساز استقبال کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے ایک ارب ڈالر استقبال اور دیگر سکیورٹی امور پر خرچ کیے گئے ہیں۔ 142 ارب ڈالر کے معاہدوں کے علاوہ جہازوں کی خریداری اور استقبال میں خواتین کا شہزادوں کے شانہ بشانہ ہاتھ ملاتے نظر آنا اور امریکن صدر کا سعودی ولی عہد کو رخصتی کے وقت کہنا آپ میرے دِل میں بستے ہیں۔اس کو ایسے کہا جا سکتا ہے ”کچھ بھی نہ کہا اور سب کہہ بھی گئے؟ سعودی عرب کو اربوں روپے کا اسلحہ فروخت کرنے کے بعد قطر میں استقبال اور اربوں ڈالر کے تحائف اور پھر امارات میں خواتین کے دونوں اطراف کھلے بالوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے امریکی صدر کی طرف سے حیرت کا اظہار۔ عربوں کی غلامی کا شاخسانہ ہے عربوں کے حوالے سے کم از کم مجھے تو کوئی خوش فہمی نہیں ہے، مندر کی تعمیر سے لے کر مادر پدر آزاد ماحول اور امریکن صدر کے دورے سے اُٹھنے والے طوفان نے آزاد خیال معاشرے کو ننگا نہیں کیا، بلکہ اُمت مسلمہ کے لئے بہت سے سوال اُٹھا دیئے ہیں اِس سے زیادہ کچھ لکھ نہیں سکتا، قربِ قیامت ہے ہماری بدقسمتی ہم سب کچھ دیکھنے کے لئے موجود ہیں۔
پانچ روزہ دورے کے اثرات تو شاید آہستہ آہستہ سامنے آئیں، البتہ امریکن صدر کے دورے کے بعد ان کے اپنے ریکارڈ کیے گئے تاثرات میرے سمیت ہر مسلمان کے لئے سبق اور اُمت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اختلاف جتنا مرضی کر لیں۔قرآن عظیم الشان کا فیصلہ ہے یہود و نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ یقینا نہیں ہو سکتے اس کے لئے ہمارا مسلمان ہونا بھی شرط ہے امریکن صدر خلیجی ریاستوں کے دورے کے بعد ویڈیو پیغام کے ذریعے سامنے آنے والے تاثرات لفظ لفظ پیش ہیں۔
ٹرمپ عربوں کی عزت افزائی کرتے ہوئے۔ میں ابھی مشرق وسطیٰ سے واپس آیا ہوں اور یقین کریں، یہ زندگی کا سب سے بُرا انتظام تھا جو میں نے دیکھا۔ وہ جنہیں ”لگژری مقامات“ کہا جا رہا تھا، وہ حقیقت میں کچھ بھی نہیں تھے۔
ارے بھائی، نیویارک کے کسی بھی ٹرمپ ٹاور کی شان و شوکت ان سب پر بھاری ہے۔انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا ایک 24 قیراط سونے کے فوارے سے۔یہ مضحکہ خیز ہے! میں تو مار- اے- لاگو، فلوریڈا میں پچھلے10سال سے ٹھوس سونے کے نلکوں کے ساتھ رہ رہا ہوں!ان کی مذاکراتی صلاحیتیں تو اس سے بھی زیادہ مایوس کن تھیں۔ انہیں لگا کہ وہ مجھے صرف سونے کی پلیٹوں پر کھانا کھلا کر قابو پا لیں گے؟
میں پچاس سال سے کاروباری دنیا میں ہوں۔۔۔اور کوئی بھی صدر ٹرمپ کو بے وقوف نہیں بنا سکتا۔میں نے انہیں صاف الفاظ میں کہا: یا تو میری شرائط مانو، یا وقت ضائع مت کرو۔ اور ہوا کیا؟ فوراً معاہدے پر دستخط کر دیئے!کیونکہ مجھ سے بہتر مذاکرات کوئی نہیں جانتا۔اور سب سے عجیب بات یہ ہے کہ میڈیا نے سینکڑوں تصویریں لیں، لیکن ایک بھی تصویر میری ”صدارتی وجاہت“ کو ظاہر نہیں کر سکی۔اب اگلی بار میں وہاں تب ہی جاؤں گا اگر پورے ملک کو ”ٹرمپ اسٹائل“ میں سجا دیا جائے۔ ورنہ بھول جائیں۔
٭٭٭٭٭