وزیر اعلیٰ پنجاب سے گوجرانوالہ میں بڑھتی وارداتوں کا نوٹس لینے کی اپیل

  وزیر اعلیٰ پنجاب سے گوجرانوالہ میں بڑھتی وارداتوں کا نوٹس لینے کی اپیل



ضلع گوجرانوالہ کا شمار پاکستان کے پانچویں بڑے صنعتی کاروباری ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ز اضلاع میں ہوتا ہے اور کرائم کے حوالے سے ضلع گوجرانوالہ اس وقت پنجاب میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں چوری ڈکیتی راہزنی، قتل و غارت گردی منشیات فروشی سمیت دیگر سنگین جرائم کا بازار سرگرام ہے۔شہریوں کو سر عام لوٹنے اورقتل کرنے کی وارداتیں معمول بن گئی ہیں۔کراچی کی طرز پر گوجرانوالہ میں بھی ڈاکوؤں کے گروہ سرگرم ہیں،جدید سہولتوں سے لیس گوجرانوالہ پولیس عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنے میں بری طرح ناکام دیکھائی دیتی ہے۔ گوجرانوالہ میں انڈسٹریل ایریاز کے ساتھ کسانوں کے ڈیرے بھی محفوظ نہیں ہیں وہاں ڈکیتی کی وارداتوں کے دوران فائر مارنے اور تشدد کی کارروائیاں معمول بن گئی ہیں۔ دیہاتوں کے وہ علاقے جوانڈسڑیل ایر یا ہونے کی وجہ سے پر امن تصور کیے جاتے تھے۔اب دیہاتی تھانہ جات کے ان پر امن علاقوں میں دن دیہاڑے،سرشام اور رات گئے ڈاکوؤں نے بسیرا کر لیا ہے،ڈاکو گروہ کی صورت میں پک اپ اور لوڈر ڈالے ساتھ لے جاتے ہیں محنت کش کسانوں کو باندھ کر کمروں میں بند کر کے جمع پونجی لوٹنے کے ساتھ مال مویشی بھیڑ بکریاں،قیمتی سامان بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔اسی طرح کے کئی واقعات گذشتہ ماہ یکے بعد دیگرے گوجرانوالہ میں  پیش آئے ہیں ایک واقعہ راقم کے بڑے بھائی کے ساتھ بھی پیش آیا ہے جس کی تفصیل کچھ اسطرح سے ہے کہ 24 اور 25 مارچ کی درمیانی شب لیاقت علی بوقت دس گیارہ بجے اپنے حویلی نماں مال مویشی ڈیرے پر سویا ہوا تھا یہ ڈیرہ گاؤں سے چھ سات ایکڑ کے فاصلے اور قریب واقع دوتین شادی ہال اور فیکٹریوں کی حدود میں تھانہ فیروز والہ گوجرانوالہ میں موجود ہے کہ اچانک رات 11بجے کے قریب ڈاکوؤں کا ایک مسلح گروہ لوڈر گاڑی اور موٹر سائیکلوں پر سوار ڈیرے پر آتا ہے تین ڈاکو حویلی کی چار پانچ فٹ کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوتے ہیں اسلحے کی نوک پر لیاقت کو اٹھاتے ہیں حویلی کو اندر سے لاک اپ ہونے کی وجہ سے تالے کی چابی چھیننے کی کوشش میں اسے ماتھے پر پسٹل کے بٹ مار مار کر شدید زخمی کرنے کے ساتھ اسے ایک کمرے میں ہاتھ پاؤں باندھ کر بند کردیتے ہیں موبائل فون جیب میں موجود 7 ہزار نقدی لوٹ لیتے ہیں۔ ڈاکوؤں کا یہ گروہ حویلی میں موجود سب سے خوبصورت دودھ دینے والی بھینس اور اس بچھڑا(کٹا) بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ لیاقت بڑی کوشش کے بعد کپڑے سے باندھے ہوئے ہاتھوں کو آزاد کروانے اور دروازے کو توڑ کر بھاگم بھاگ تقریباً ساڑھے 12 بجے کے قریب گاؤں پہنچتا ہے پھر اس نے وہاں گھر سے ایمرجنسی پولیس کو اور ہمیں اطلاع دی جس پر میں نے فوراً مقامی سی پی او پھر آرپی او،اور پھر مقامی ایس پی کو فون کرنے کی بار بار کو شش کی کسی سے بات نہ ہوسکی اسی دوران میں نے آئی جی پولیس ڈاکٹر عثمان انور کو کال کی جنہوں نے فوراً ریسپانس دیا پھر سی پی او اور آرپی کے بھی فون آگئے اور مقامی ایس ایچ او بھی موقع پر پہنچ گئے۔اطلاع پاکر گاؤں کے کافی افراد بھی وہاں پہنچ چکے تھے مقامی ایس ایچ او نے لیاقت کو شدید زخمی حالت میں دیکھ کر اسے فوری ہسپتال بھجوایا اور یقین دھانی کروائی کہ ڈاکوؤں کا یہ گروہ اس سے بچ نہیں پائے گا وہ اسے ضرور گرفتار کر لیں گے۔ ایس ایچ او نے لیاقت سے تحریر حاصل کیے بغیر اسی رات خود ہی 8 لاکھ کی بھینس کو ا ڑھائی لاکھ مالیت کے تحت 394 کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کردیا۔آرپی او اور مقامی سی پی او نے یقین دھانی کروائی کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر ڈاکوؤں کے اس گروہ کو گرفتار کرلیں گے آج اس وقوعہ کو تقریباً دو ماہ ہونے کے قریب ہیں اور اس مقدمے میں ایک انچ بھی تفتیش آگے نہیں بڑھ سکی۔ یہ اس علاقے میں ہونے والی پہلی واردات نہیں ہے قریب واقع اسی علاقے میں ایک ہفتہ کے اندر پانچ چھ وارداتیں ہو چکی تھیں جن میں ڈیرے سے مویشی اور دیگر لوٹ مار کرنے کی کئی وارداتیں 395دفعات کی بھی ہیں۔ اگر ایک ہفتہ میں ان کی تعداد پانچ چھ تھی تو اب دو ماہ کے بعد تو یقینا ان کی تعداد دودرجن سے زائد ہوچکی ہو گی۔ان بڑھتی ہوئی وارداتوں کے بعد پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے کئی مقدمات کم مالیت کے اور کئی ڈکیتی کی بجائے چوری کی دفعات کے تحت درج کررہی ہے۔ محنت کش کسانوں نے خوف کے مارے ڈیروں پر مال مویشی رکھنا تو درکنار وہاں جانا بھی چھوڑ دیا ہے۔ قریب واقع فیکٹریوں میں لگے کیمروں سے فوٹیج حاصل کرکے ڈاکوؤں کو گرفتار کیا جاسکتا ہے لیکن ہماری پولیس کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی والی بات ہے،اربوں روپے مالیت کے سیف سٹی کے کیمرے بھی کسی کام نہیں آسکے۔

Ok





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں