شہباز شریف کی قیادت میں ن لیگی اتحادی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی قابل ِ ستائش ہے خاص طور پر معاشی میدان میں اِس حکومت نے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی زری اور مالیاتی اداروں کی رہنمائی اور سرپرستی میں پستی کی طرف لڑکتی معیشت کو سنبھالا دیا ہے ہم ابھی معاشی استحکام اور بحالی کی منزل سے دور ہیں،لیکن معاشی گراوٹ پر کسی نہ کسی حد تک قابو پا لیا ہے۔عالمی اداروں کا اعتماد بھی حاصل کر لیا گیا ہے،تباہی کے گڑھے کی طرف بے لگام بڑھتی ہوئی معیشت کو گڑھے میں گرنے سے روک لیا ہے اور یہ بڑا واضع ہے اور ہر کسی کو نظر بھی آ رہا ہے۔
دوسری طرف عمومی کارکردگی کا شعبہ ہے تو اس میں روایتی انداز میں معاملات چل رہے ہیں ایک طرف سرکاری ملازمتوں کی تعداد کم کر کے حکومتی اخراجات کم کرنے کی پالیسی پر عمل ہوتا نظر آ رہا ہے۔سینکڑوں نہیں ہزاروں،بلکہ لاکھوں ملازمتیں (پوسٹیں) کی جا رہی ہیں محکموں کے ادغام کے ذریعے،محکموں کی تعداد کم کی جا رہی ہے یہ سب کام سرکاری ڈنڈے کے زور پر کیا جا رہا ہے۔ غیر ضروری پوسٹوں کا خاتمہ اچھی بات ہے۔محکموں کا ادغام بھی اچھا ہے لیکن پھر اخراجات میں بھی اسی شرح تناسب اور زور سے کمی بھی نظر آنی چاہئے لیکن ایسا نہیں ہو رہا حکمران ایک طرف اخراجات میں کمی کے نام پر ملازمتوں پر کلہاڑا چلاتے ہیں تو دوسری طرف اپنی یعنی وزیروں، مشیروں،عوامی نمائندوں کی تنخواہوں اور مراعات میں ہوشربا اضافہ کر لیتے ہیں یہ سب کچھ دیکھا دیکھی بیورو کریسی اپنی مراعات میں خودبخود اضافہ کر لیتی ہے۔ایسا سب کچھ صرف مرکز میں ہی نہیں ہو رہا ہے بلکہ سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں بھی ہو رہا ہے۔قومی خزانے سے ملنے والے بجٹ کو جس طرح حکیمانہ انداز میں خرچ کیا جا چکا ہے وہ حیران کن ہے۔عامتہ الناس تکلیف میں ہیں انہیں ریلیف نہیں مل رہا،سرکاری خزانے کو من مانے اور من چاہے معاملات پر بے دریغ خرچ کیا جا رہا ہے اس غیر حکیمانہ طرزِ فکر و عمل کے بارے میں دو آراء ہو سکتی ہیں،لیکن عمومی تاثر یہی ہے کہ عوامی فلاح و بہبود کے لئے ترقیاتی منصوبوں پر جو کچھ خرچ کیا جا رہا ہے، معاشی استحکام کے دور میں تو درست ہو سکتا ہے،لیکن ایسے ماحول میں جب عام شہری بجلی، گیس، پٹرول اور دیگر اشیاء ضروریہ کی خریداری میں مکمل طور پر قلاش ہوچکا ہے، ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرتے چلے جانا غیر حکیمانہ طرزِ فکرو عمل ہی کہلا سکتا ہے۔ بہرحال کیونکہ یہ ہمارا موضوع نہیں ہے اِس لئے اس پر بحث پھر کبھی سہی۔
اصل بات سرکاری اداروں کی کارکردگی ہے، ہمارے عوامی سہولیات و خدمات بہم پہنچانے والے اداروں کی کارکردگی بارے اگر عوامی رائے پوچھی جائے تو عمومی طور پر منفی ہی ہوتی ہے۔ موجودہ دورِ حکمرانی میں بھی ایسا ہی نظر آتا ہے، پولیس کا محکمہ دیکھ لیں۔نمبر599/25 تھانہ قلعہ گجر سنگھ ای ٹیگ نمبر QGS.12/02/2025-909 کے تحت 12 فروری 2025 ء کو ایک ایف آئی آر درج کرائی گی جس میں موبائل فون، بٹوہ وغیرہ کی برآمدگی کی درخواست کی گئی۔ سب انسپکٹر سید محمد نبیل محسن نے ایف آئی آر درج کی اور ذوالقرنین اے ایس آئی کو برآمدی کی ذمہ د اری سونپی گئی۔درخواست دھندہ نے موبائل فون (آئی فون) کے ٹریکر کی مدد سے ذوالقرنین کو متعدد بار آگاہ بھی کیا کہ یہ کہاں پر ہے،لیکن موصوف کہتے رہے ہم اپنے طریق سے ہی کام کرتے ہیں۔ذرا پولیس سے پوچھیں کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ایف آئی آر پر کیا کام ہوا ہے،برآمدگی میں پیشرفت کیوں نہیں ہو سکی ہے۔ آئی جی پولیس اپنی شاندار کارکردگی پر وزیراعلیٰ سے کئی بار شاباش بھی لے چکے ہیں،لیکن یہ سائل ابھی تک داد رسی سے محروم ہے۔ ایسی کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ پولیس کی کارکردگی ویسی ہی ہے جیسی تین چار دہائیاں پہلے تھی۔ہاں دفاتر،تھانے اچھے ہو گئے ہیں،آئی ٹی کا نظام لاگو ہو چکا ہے،لیکن سسٹم چلانے والے اور نظام سے وابستہ پولیس والے ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ہسپتالوں میں نظام گل سڑ چکا ہے، کارکردگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے،لوگ آج بھی کہتے ہیں کہ اللہ کسی کو تھانے اور ہسپتال نہ لیجائے، کیونکہ وہاں ذلت ہی ذلت ہے۔کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ صفائی کے نظام میں بہتری آئی ہے، پھل سبزی کے ترسیلی اور بیوپار کے نظام میں بہتری آئی ہے۔تجاوزات کے خاتمے کی مہمیں ہمارے حکمران تین چار دہائیوں سے چلا رہے ہیں، کیا تجاوزات کا خاتمہ ہو گیا؟ ہمارے صوبہ پنجاب میں میٹرک ٹیکنیکل کی باتیں دس سالوں سے کی جا رہی ہیں،لیکن کیا یہ نظام نافذ العمل ہو سکا ہے؟ ہم فنی تعلیم اور ووکیشنل تربیت کی اہمیت کے بارے میں دہائیوں سے باتیں سنتے چلے آ رہے ہیں کیا اس میں کوئی بہتری آئی ہے،باتیں تو بہت کی جاتی ہیں لیکن عملاً صورتحال پریشان کن ہے۔ عوام ٹیکسوں کی بھرمار اور محکموں کی لوٹ کھسوٹ کے ہاتھوں زچ ہو چکے ہیں۔
بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی خرید و فروخت کا نظام مکمل طور پر گل سڑ چکا ہے اس میں بہتری کی آوازیں تو سننے میں آتی رہی ہیں،لیکن ان سے وابستہ محکمے و اہلکار عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں انہیں کوئی روکنے یا پوچھنے والا نہیں ہے،صرف شدہ بجلی کی قیمت کے برابر ہی نہیں بلکہ اس سے کچھ زائد رقم ٹیکسوں کی مد میں وصول کی جاتی ہے میرے سامنے ایک بل پڑا ہے اپریل کے مہینے میں صارف نے16077.76 روپے کی بجلی استعمال کی۔ کل بل 20831 روپے ہے اگر لیٹ ہوا تو22622 روپے کی ادائیگی کرنا پڑے گی۔ بجلی کی قیمت میں علاوہ بل میں 19قسم کے ٹیکسوں کا اندراج شامل ہے جس میں کرایہ میٹر بھی شامل ہے، حالانکہ جب کنکشن لیا جاتا ہے تو صارف میٹر کی قیمت ادا کرتا ہے، پھر ساری زندگی اپنے ہی میٹر کا کرایہ ادا کرتا رہتا ہے۔بجلی مہیا کرنے والی کمپنی،یعنی لیسکو بجلی کی قیمت کے علاوہ چھ قسم کی اضافی وصولیاں کرتی ہے جبکہ سرکار 13محصولات وصول کرتی ہے۔صارف سے مجموعی طور پر19قسم کے واجبات وصول کئے جاتے ہیں کوئی عوام کی داد رسی نہیں کر سکتا ہے، لوٹ کھسوٹ کی کھلی چھوٹ ہے،حکومت خود بھی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے اس لئے بجلی سپلائی کرنے والوں کو کون روکے گا۔سوئی گیس مہیا کرنے والی ایس این جی پی ایل نے تو اِس ماہ کمال ہی کر دیا ہے۔ ایک بل کے مطابق صرف شدہ گیس کی قیمت151.41پیسے درج ہے، جبکہ مجموعی بل 1220روپے ہے، جس میں 500روپے سکیورٹی ڈپازٹ کے بھی ہیں۔ 413.34 روپے فکسڈ چارجز ہیں۔ 109 روپے جنرل سیلز ٹیکس ہے۔ 151روپے کی گیس پر 109 روپے جنرل سیلز ٹیکس کس شرح سے لاگو کیا گیا ہے اور سکیورٹی کی رقم تو کنکشن دیتے وقت بھی وصول کر لی جاتی ہے اب یہ سکیورٹی ڈپازٹ کس وجہ سے وصول کئے جا رہے ہیں۔ یہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے، جس کی تپش نظام کو تباہ کر چکی ہے عوام اپنے حال سے مکمل طور پر مایوس ہیں مستقبل کی کوئی خبر نہیں۔انقلاب آتا نظر نہیں آ رہا ہے پھر کیا ہو گا، کسی کو معلوم نہیں ہے۔
٭٭٭٭٭