امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا سعودی عرب، امارات اور دیگر عرب ممالک میں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ سونے کے تھال، ریشمی قالین، نگاہوں میں خوشیوں کے جگنوؤں کی چمک دمک تھی۔ مسکراہٹوں کے تبادلے۔نرم جذبوں کی روانی۔ مگر ان خوشنمائیوں کے پیچھے ایک بھیانک سیاسی ایجنڈا چھپا ہوا تھا۔ سرمایہ کاری اور تجارت کے نام پر امریکی اسلحے کی فروخت، اسرائیل کو تسلیم کروانے کی گھناؤنی سازش، اور ایران و فلسطین دشمن اتحاد کی تشکیل اور ایران کی سوچ کو منفی اور سعودی عرب کے خلاف قرار دے دیا امریکی صدر کا عرب خواتین سے استقبال مسلمانوں کے وقار کو ٹھیس پہنچا گیاہے اور اسلامی تعلیمات کے منافی عمل ہے۔امریکی صدر نے سعودی عرب دیگر عرب ممالک سے اربوں ڈالر کے معاہدے کیے، جن میں دفاعی معاہدے، توانائی کی سرمایہ کاری، اور دیگر معاشی امور شامل تھے۔ بظاہر یہ معاہدے ترقی اور تعاون کی علامت تھے، مگر درپردہ یہ وہ زنجیریں ہیں جن سے عرب دنیا کو مغرب کے قدموں میں لا کر باندھ دیا گیا ہے۔سعودی عرب نے تجارت اور سرمایہ کاری کی آڑ میں امریکی کمپنیوں کو اپنی سرزمین میں گھسنے کی اجازت دی۔ ان معاہدوں سے بظاہر معیشت کو فائدہ ہو گا، مگر درحقیقت یہ خودمختاری کی قیمت پر حاصل ہونے والا ”فائدہ“ ہے۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری امریکی بینکوں، کمپنیوں اور فوجی انڈسٹری کو مضبوط کرے گی، نہ کہ امت مسلمہ کو۔سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ اس دورے کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے عرب ممالک پر دباؤ میں اضافہ ہوا کیا ستم ہے کہ ایک طرف ٹرمپ کا استقبال تو دوسری جانب غزہ کی گلیوں میں حزن و ملال تھا اسرائیلی بارود آگ برسا رہا تھا بے گناہ فلسطینیوں کی لاشیں گرائی جا رہی تھیں ایک طرف عالیشان محلات میں رنگ و نور میں نہائے ہوئے لمحات تو دوسری جانب آگ اور خون کا درد ناک ماحول تھا امریکہ نے واضح پیغام دیا کہ اب اسرائیل کو تسلیم کرنا صرف ایک ”تجویز“ نہیں، بلکہ ”حکم“ ہے اور ہزار حیف کچھ عرب حکمران اس حکم کو جیسے ماننے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔یہ لمحہ فکریہ ہے،کہ وہ حکمران جو خود کو امت کے بڑے رہنماء کہلواتے ہیں، وہ فلسطین، غزہ، بیت المقدس اور الاقصیٰ کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ان کے قاتلوں سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کے ساتھ کھڑے ہو کر مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والوں کے حلیف بن گئے ہیں سعودی عرب کے حکمران تو نیک اور نفیس لوگ ہیں ہمارے محسن ہیں سعودیہ میں ہمارا قبلہ و کعبہ ہے محسن ِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جلوہ آرائیاں ہیں، لیکن معصوم حکمران کافروں کی چالوں میں آتے جاتے ہیں مسئلہ صرف اسرائیل کو تسلیم کرنے تک محدود نہیں۔ اصل خطرہ یہ ہے کہ عرب دنیا مسلم امہ کے بنیادی نظریات، اخوت اسلامی اور باطل قوتوں کے سامنے مزاحمت کے اصولوں کو چھوڑ کر ایک نئی غلامی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور مغرب کے ساتھ کھڑے ہو کر وہ محفوظ ہو جائیں گے، مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ مغرب صرف اپنے مفادات کا دوست ہے۔ کل اگر ان کے مفادات تبدیل ہوئے، تو یہی مغرب انہیں بھی صدام، قذافی، یا مرسی کی طرح نشانِ عبرت بنا سکتا ہے امریکی صدر نے سعودی دارالحکومت ریاض میں شام کے عبوری رہنما احمد الشراع جو پہلے ابومحمد الجولانی کے نام سے جانے جاتے تھے، سے ایک اہم اور متنازع ملاقات کی۔الجولانی، جو کبھی القاعدہ کے اہم کمانڈر تھے، اب شام کی عبوری حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔ یہ ملاقات سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی میزبانی میں ہوئی اور مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑی سفارتی تبدیلی کا اشارہ سمجھی جا رہی ہے۔شام کی صورتحال بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ طویل خانہ جنگی، بیرونی مداخلت، اور لاکھوں بے گھر افراد کے بعد اب امریکہ کی جانب سے شام سے پابندیاں ختم کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اس عمل کو اگرچہ انسان دوست اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، لیکن اس کے پیچھے موجود اقتصادی و تزویراتی پہلو بھی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔سعودی عرب اور قطر کا شام کے عالمی بینک سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کا اعلان بہت بڑی پیش رفت ہے۔روس اور یوکرین کی جاری جنگ نے دنیا کو ایک نئی سرد جنگ کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ایسے میں ترکیے کا ان دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کرنا ایک سنجیدہ سفارتی کامیابی ہے اورٹرمپ ان مذاکرات کے پیچھے بھی اپنی حکمت عملی کا کریڈٹ لیتے ہیں۔
ترکی کے ساتھ امریکی معاہدہ بھی خاص نوعیت کا ہے، جس میں امریکہ نے جدید میزائل سسٹمز اور دیگر دفاعی آلات ترکیے کو فروخت کرنے کی منظوری دی ہے۔ یہ وہی ترکی ہے جو کچھ عرصہ قبل نیٹو سے الگ سوچ رکھتا تھا اور روس کے ساتھ S-400 میزائل سسٹم کے معاہدے کی وجہ سے امریکہ کی تنقید کا نشانہ بنا۔ اب اسی ترکیے کو امریکہ کا قرب دینا اور اسے خطے میں توازن کا ایک ستون بنانا دراصل واشنگٹن کی ایک نئی حکمت عملی ہے۔سب سے زیادہ دلچسپ بات ٹرمپ کا وہ بار بار کیا گیا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پاک بھارت سرحدی کشیدگی میں ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے جنگ بندی کو اپنی کامیابی قرار دیا اور دونوں ممالک کو تجارت کی دعوت دی۔ سوال یہ ہے کہ ٹرمپ جس ملک بھارت کے ساتھ عسکری، خلائی، اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں اشتراک کر رہے تھے، کیا وہ واقعی پاکستان کے ساتھ مخلص ہو سکتے ہیں۔ٹرمپ پاک بھارت وزرائے اعظم کو ڈنر پہ ایک ساتھ بٹھانے کی خواہش رکھتے ہیں، حالانکہ پاکستان کے لئے ٹرمپ کی پالیسی متضاد رہی ہے وہ ایک طرف افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد پاکستان کو امن کا ضامن کہتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ اب اگر وہ اس خطے میں تجارت، امن اور ہم آہنگی کی بات کر رہے ہیں تو انہیں ان دعووں کو عملی شکل بھی دینا ہو گی۔ بصورت دیگر، یہ سب الفاظ کی شعبدہ بازی سے زیادہ کچھ نہیں۔اسی دورے میں جب ٹرمپ نے ایران پر دباؤ بڑھایا تو ایرانی صدر نے اس دباؤ کو یکسر مسترد کر کے واضح کر دیا کہ تہران اب کسی بھی قیمت پر اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
امت مسلمہ کو جس حمیت کی ضرورت ہے، وہ اس وقت ناپید ہے۔ مسلمان عوام آج بھی بیت المقدس کے لئے تڑپتے ہیں، غزہ کے معصوم شہداء کے لئے دعائیں کرتے ہیں، اور امت واحدہ کے تصور کو دل میں بسائے ہوئے ہیں، مگر ان کے حکمران مغرب کے اشاروں پر ناچتے ہیں اور مغرب کی جنبش ابرو پر فیصلے کرتے ہیں عرب حکمران سچے جذبوں کی دولت سے مالا مال ہیں انہیں جھوٹے خیر خواہوں سے دامن بچانا چاہئے۔
٭٭٭٭٭