غلطی تمہاری ہے!

 غلطی تمہاری ہے!



میرا معمول ہے مارننگ واک سے واپسی پر ناشتے کے لئے چنے خریدتا ہوں۔ اس پر زیادہ وقت نہیں لگتا بس دو چار منٹ میں وہ مجھے چنے دے دیتا ہے اور میں گھر کی طرف روانہ ہو جاتا ہوں۔ کل صبح معمول کے مطابق میں نے قاسم بیلہ بازار میں سڑک کنارے گاڑی روکی تو ایک مرغی فروش بھاگتا ہوا اپنی دکان سے آیا، کار کا شیشہ بچایا  اور اشارے سے کہا گاڑی آگے لے جائیں۔ میں نے کہا ایک منٹ میں چنے لے کر آتا ہوں۔ وہ بضد ہوا تو میں نے کہا تمہاری دکان تو چھ فٹ پیچھے ہے، چار فٹ آگے تم نے پھٹہ لگایا ہوا ہے۔ گاڑی کی کیا پریشانی ہے۔ اس نے کہا آپ گاڑی آگے کر لیں ورنہ نقصان ہو جائے گا۔ خیر میں نے اس کی بات سنی اَن سنی کر دی اور چنے لینے چلا گیا۔ صرف تین منٹ بعد میں واپس آیا تو وہ دو اور لوگوں کے لے کر کھڑا تھا۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا آپ نے بہت غلط کیا ہے، میں نے صبر سے کام لیا وگرنہ بہت کچھ کر سکتا تھا۔ میں مسکرایا اور گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔ سارے راستے میرے ذہن میں یہ جملہ گونجتا رہا کہ تم نے بہت غلط کیا ہے۔ یہ دوسرے کو غلط قرار دینے کا ٹھیکہ ہر شخص نے لے رکھا ہے۔ آپ لاکھ صحیح ہوں، دوسروں کی نظر میں غلط ہی قرار پائیں گے۔ عام طور پر جو غلط کام کررہا ہوتا ہے، وہی سب سے زیادہ دوسروں کو غلط کہتا ہے۔ ابھی چند روز پہلے میں گھر واپس جا رہا تھا۔ اچانک ایک کار پیچھے سے آئی اور ایسی جگہ سے اوورٹیک کرنے لگی جہاں سے گاڑی گزر ہی نہیں سکتی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پھنس گئی اور دوسری طرف کے فٹ پاتھ سے رگڑ کھا گئی۔ فوراً ایک خاتون باہر نکلی اور اس نے مجھے بُرابھلا کہنا شروع کر دیا۔ میں چونکہ خواتین کو دیکھ کر کچھ زیادہ ہی صبر و تحمل سے کام لیتا ہوں اس لئے ان کی باتیں سن کر بڑے دھیمے لہجے میں کہا، محترمہ میرے پاس تو اتنی جگہ ہی نہیں تھی کہ میں کار کو بائیں طرف کر سکتا، آپ کو کیسے راستہ دیتا۔کہنے لگیں مردوں کا ہمیشہ یہی رویہ ہوتا ہے، وہ عورتوں کو ڈرائیونگ کرتا دیکھ کے نجانے کیوں جل بھن جاتے ہیں۔ میں نے پھر بھی چہرے پر مسکراہٹ رکھی اور کہا آپ یقین مانیں ایسی کوئی بات نہیں، یہ تو پیچھے آنے والے ڈرائیور کو دیکھنا ہوتا ہے، آگے نکلنے کی گنجائش ہے یا نہیں، مگر وہ کہاں ماننے والی تھیں۔ یہی کہتی پاؤں پٹختی چلی گئیں کہ یہاں غلطی کرکے بھی کوئی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ ڈھٹائی کی حد ہی ہو گئی ہے۔

میں نے ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر ثمر ہند سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں پڑھاتی ہیں اور انہوں نے نفسیاتی امراض کے علاج کا ایک مرکز بھی قائم کر رکھا ہے جب یہ پوچھا کہ ہمارے قومی مزاج میں یہ چیزکیوں شامل ہو گئی ہے کہ ہم نے ہمیشہ دوسرے ہی کو غلط قرار دینا ہے تو انہوں نے کہا اپنی غلطی تسلیم کرلینا ایک بڑے ظرف کا متقاضی ہوتا ہے جو معاشرے منفی بنیادوں پر استوار ہوجاتے ہیں ان میں اعلیٰ ظرفی بھی کم ہو جاتی ہے۔ ہماری نفسیات میں یہ بات شامل ہو چکی ہے کہ اگر ہم نے اپنی غلطی تسلیم کرلی تو ہماری عزت پر حرف آئے گا۔ ہماری کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ اس سے پیشتر کوئی دوسرا ہمیں غلط قرار دے ہم پہلے ہی اسے غلطی کا ذمہ دار قرار دے دیتے ہیں انہوں نے کہا آپ نے اکثر دیکھا ہوگا سڑکوں پر کسی معمولی حادثے کی صورت میں دونوں فریق ایک دوسرے پر الزام دھر رہے ہوتے ہیں کہ حادثہ اس کی غلطی کے باعث ہوا جبکہ حادثہ عموماً ایک کی غلطی سے ہوتا ہے، یہ رویہ ہمارے بیشتر مسائل کا باعث بن جاتا ہے۔ میں نے پوچھا اس کا کوئی علاج بھی ہے۔ ڈاکٹر ثمرہند نے کہابظاہر یہ بہت مشکل نظر آتا ہے، کیونکہ جو چیز پورے معاشرے میں سرایت کر جائے تو اسے ختم کرنا بہت دشوار ہوتا ہے تاہم نئی نسل کو والدین اور اساتذہ یہ سمجھائیں کہ ہر وقت دوسرا ہی غلط نہیں ہوتا کبھی ہم بھی ہوتے ہیں، اس لئے اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے تو کچھ بہتری کے آثار پیدا ہو سکتے ہیں۔ سب سے بڑی مثال تو ہماری سیاست ہے۔ اس کی بنیاد ہی اس بات پر رکھی گئی ہے کہ دوسرا غلط ہے میں صحیح ہوں۔ الزام تراشی کا کلچربھی اسی رویے کی وجہ سے ہے۔ صحت مند مباحثے بہت ضروری ہوتے ہیں، ان سے عوام کی تربیت ہوتی ہے اور شعور پروان چڑھتا ہے، مگرہماری اسمبلیوں کے اندر بھی صرف الزام تراشی ہوتی ہے اور خود کو پارسا دوسرے کو غلط قرار دینے کا عمل سکہ رائج الوقت نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس معاشرے میں سب غلطی کو غلطی نہیں مانیں گے۔ ہر بُری بات کو اچھی ثابت کریں گے تو وہاں اصلاح کا عمل کہاں سے شروع ہوگا۔ میرے ایک دوست وکیل فیملی کیسز کے ماہر ہیں۔ ان سے اکثر ملاقات ہوتی ہے۔ وہ ہر ملاقات میں اپنی اس تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ طلاق اور خلع کے کیسوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بعض اوقات تو صرف چند دن کی شادی کے بعد طلاق ہو جاتی ہے یا خلع کی درخواست دائر کر دی جاتی ہے۔ میں جب پوچھتا ہوں کہ اس کی سب سے عمومی وجہ کیا ہو سکتی ہے، تو وہ یہی کہتے ہیں دونوں میاں بیوی یا دونوں خاندانوں میں سے کوئی ایک بھی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ ہمیشہ دوسرے کو غلط قرار دیتے ہیں، ایک دوسرے پر الزام دھرتے ہیں۔ بعض حالتوں میں صاف نظر آ رہا ہوتا ہے غلطی کس فریق کی ہے مگر اس کے باوجود وہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے، جو گھر صرف ایک جملہ کہہ کر ”ہاں میری غلطی ہے تسلیم کرتا ہوں“ بچائے جا سکتے ہیں وہ ”تم غلط ہو، سارا قصور تمہارا ہے“ کہہ کر تباہ کئے جاتے ہیں۔

کیا زبردست محاورہ ہے کہ ہم دوسروں کی آنکھ کا بال بھی دیکھ لیتے ہیں، اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا۔غلطیاں انسانوں سے ہوتی ہیں، فرشتے تو زمین پر آکر غلطی نہیں کرتے، ایک درزی اگر قمیض غلط سیتا ہے اور پھر اس پر بضد رہتا ہے کہ اس نے درست سلائی کی ہے تو اس سے غلط کو صحیح تو نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ایسا بھی نہیں کہ معاشرے میں اچھی مثالیں موجود نہ ہوں۔ خود میں کئی بار ایسے واقعات سے گزرا ہوں جس میں کسی دوسرے نے اپنی غلطی تسلیم کرکے مجھے متاثر کیا۔ ایک بار میں ایک میڈیسن لے کر گھر پہنچا تو میرے پیچھے میڈیکل ہال کا مالک بھی آ گیا۔ میں نے سوچا شاید پیسے دینا بھول گیا ہوں، مگر اس نے کہا سر وہ میڈیسن مجھے دے دیں اور یہ رکھ لیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا غلطی سے ایسی میڈیسن آپ کو دے دی تھی جس کی ایکسپائری ڈیٹ قریب تھی، اس غلطی پر معذرت خواہ ہوں، میں نے کہا سوچا میری شکایت کے بغیر یہ اپنی غلطی کی تلافی کرنے آ گیا ہے اس کا مطلب ہے سب غلطی پر اصرار کرنے والے نہیں کچھ اسے تسلیم کرنے والی بھی ہیں،کاش ہم غلطی تسلیم کرنے والا معاشرہ بن جائیں پھر دیکھیں کتنا سکون ملتا ہے اور کتنی برکت کرتی ہے۔

  





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں