قوموں کی زندگی میں بڑی فتوحات صرف لمحوں کی بات نہیں ہوتی بلکہ ایسی فتوحات قوم کو نئی سوچ، نئی امنگ اور نئے عزم سے ہمکنار کرتی ہیں۔ پاکستان کو ایک بڑی، واضح اور شاندار فتح نصیب ہوئی، ایسی فتح جسے دنیا بھی تسلیم کر رہی ہے۔ کیا یہ عظیم الشان فتح بس ایک جشن کے بعد ہوا کا جھونکا بن کر گزر جائے گی یا ہماری سوچ و فکر کو بھی تبدیل کرے گی۔ ہمیں اپنے دامن میں جھانکنے کا موقع دے گی اور صحیح معنوں میں ایک عظیم قوم بننے کی راہ پر ڈال دے گی؟ سب سے پہلے تو ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ جو جذبہ کسی دشمن کے عزائم اور میلی نظر دیکھنے کے بعد ہمارے اندر بیدار ہوتا ہے وہ عام دنوں میں ہمیشہ ہماری زندگیوں کا حصہ کیوں نہیں رہتا۔ ہم انفرادی سطح پر کیوں سوچنے لگتے ہیں اور قومی مفادکو کیوں پسِ پشت ڈال دیتے ہیں، علامہ اقبالؒ نے تو یہ پیغام بہت پہلے دے دیا تھا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
ہم نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ تو بہت لگایا، مگر اسے زندگی کا حصہ نہیں بنا سکے۔ ہم دشمن کے سامنے متحد ہو کر سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں، یہ ہماری صفت بھی ہے سرشت بھی، مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور قوموں کی برادری میں اس کا پرچم اسی طرح سربلند کرنے کے لئے، جیسے ہمارے شیر جوانوں نے بلند کیا ہے، یکجان ہو کر کیوں نہیں سوچتے، یہ کرپشن کی داستانیں ہمارا منہ کیوں چڑاتی ہیں۔ یہ ٹیکس چوری کی عادت کیسے ہمارے گلے پڑی ہوئی ہے۔ ملک قرضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور ہم اسے نکالنے کے لئے اپنا حصہ نہیں ڈالتے۔ کیا فرشتے آکر ہمیں ٹھیک کریں گے۔ یہ جہاز جنہوں نے چند گھنٹوں میں دشمن کی ساری اکڑ فوں نکال دی، مفت میں نہیں ملتے، اس کے لئے ہمیں کثیر زرمبادلہ درکار ہوتا ہے، اگر ہر فرد خود کو ملت کا ستارہ نہ سمجھے تو وطن کیسے آگے بڑھے۔ پوری دنیا نے دیکھ لیا، پاکستانی قوم اپنے وطن کا دفاع کرنا جانتی ہے، اسے کوئی بھولے سے بھی نہ للکارے وگرنہ حشر وہی ہوگا جو بھارت کا ہوا ہے۔ بہت اچھی بات ہے، لیکن اپنا احتساب تو ہم نے خود کرنا ہے۔ اپنے گریبان میں تو ہم نے خود جھانک کے پوچھنا ہے میں نے پاکستان کے لئے کیا کیا ہے۔ یہ 77برس بعدبھی ہماری پسماندگی، غربت اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے رہ جانے کی وجہ کیا ہے۔ اتنا بڑا ملک، اتنی بڑی آبادی، زمین کے سارے موسم، ذہانت و صلاحیت کی فروانی، جذبوں کا سمندر، بہادری و جرائت کی عظیم داستانیں، یہ سب موجود ہے تو ہم معاشی طور پر پیچھے کیوں ہیں۔ قرضوں کے لئے کشکول کیوں پکڑے ہوئے ہیں یہ پانسہ بھی پلٹ کیوں نہیں دیتے۔ ایک حملہ ان خود غرضیوں، ذاتی مفاد پرستیوں اور خامیوں پر کیوں نہیں کرتے جنہوں نے اس ملک خداداد کو ایک عظیم فلاحی ریاست نہیں بننے دیا، جو قائداعظم کا بھی خواب تھا اور ہمارے آباؤ اجداد کا بھی جو لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر پاکستان کی منزل تک آئے تھے۔
معاف کیجئے صاحبو! میں آپ کی فتح کے سرور کا مزا کراکر نہیں کرنا چاہتا۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں جس طرح کا فاتحانہ سرور ہمیں آج حاصل ہے، اسی طرح کا سرور اور سرشاری ہمیں ہمہ وقت حاصل رہے۔ کوئی آئی ایم ایف ہمیں ڈکٹیشن نہ دے۔ کسی کے آگے ہمیں دست سوال دراز نہ کرنا پڑے۔ جب میں سنتا ہوں کہ ہر سال کھربوں روپے کا ٹیکس چوری ہو جاتا ہے تو یہ سوچ کر ہوک اُٹھتی ہے ہم نے یہ ٹیکس چوری کرکے کتنے گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ ہم اس فتح اور خود داری کے سرور سے محروم ہو گئے ہیں، جو ہر غلامی ہر ذلت سے آزاد کرتی ہے۔ ہمارے پاس اپنے اس قدر وسائل تھے کہ جنہیں بروئے کار لا کر ہم قرضوں کی زنجیر توڑ سکتے تھے، مگر ہم نے اس کی بجائے اپنی ذات اپنے ذاتی مفاد کو آگے رکھا۔ یہ تو کوئی فتح و ظفر والی سوچ نہیں ہے۔ کل ایک اردو کی استاد اور شاعرہ ڈاکٹر شمائلہ حسین نے سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ لگائی کہ زندگی میں پہلی بار گرین پاسپورٹ پر فخر محسوس ہو رہا ہے، اسے چومنے کو جی چاہ رہا ہے۔ صرف ایک فتح نے کس قدر تیزی سے حالات اور خیالات کو بدل دیا ہے۔ کتنا فخر اور کس قدر خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ جب ملک کا پرچم سربلند ہوتا ہے تو ہم سب کے سر بھی بلند ہو جاتے ہیں۔ پھر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ سر اُٹھا کے جینے میں کتنا مزا آتا ہے۔ ہماری جیبیں لاکھ بھری ہوں، عالیشان بنگلوں میں رہتے ہوں، بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہوں لیکن یہ سب کچھ ایک دھوکہ اور واہمہ ہے اگر ملک چلانے کے لئے ہمیں قرضوں کی بھیک مانگنی پڑے، اس کے لئے اس کے اقتدارِ اعلیٰ کو سرنگوں کرنے کی نوبت آ جائے۔ دنیا کی بڑی قوموں نے ترقی اس وقت کی ہے جب وہ انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کے حصار میں داخل ہوئی ہیں۔ امریکہ سپرپاور ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے وہاں کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ میرا خزانہ بھرتا رہے ملک کا خزانہ خالی رہتا ہے تو رہے۔ وہاں ٹیکس چوری کا تصور بھی محال ہے۔ ہمیں اپنی ذات کو نہیں پاکستان کے مفاد کو اوپر لے جانا ہے۔ پھر آپ دیکھیں گے اس مک میں خوشحالی بھی ہوگی اور ہم پر پوری دنیا فخر بھی کرے گی۔
ہم جن خرابیوں کا رونا روتے ہیں کہ ہمارا نظام ٹھیک نہیں، کرپشن ہے، ظلم ہے، ناانصافی ہے۔ ادارے قانون کا احترام نہیں کرتے، وہ بھی اسی وجہ سے ہے کہ ہم نے پاکستان کو پہلے رکھ کر سوچنا مفقود کیا ہوا ہے، ایک فلاحی اور ترقی یافتہ پاکستان بنے گا تو اس کی چھاؤں سے ہم سب مستفید ہوں گے۔ ہم میں صلاحیت بھی ہے اور طاقت بھی، ہم تو وہ قوم ہیں جو دنیا کو معجزے دکھانے کی صلاحیت رکھتی ہے تو پھر کیا یہ ضروری ہے ہم اپنی اس طاقت کا صرف اس وقت اظہارکریں جب بھارت جیسا کوئی دشمن ہمیں للکارے۔ عام حالات میں عام زندگی میں، ہم ایک عظیم قوم بننے کا جذبہ کیوں پیدا نہیں کر سکتےّ ترقی ہوگی، پسماندگی ختم ہوگی، خوشحالی آئے گی تو وہ شکوے اور شکائتیں بھی ختم ہو جائیں گی جو صوبوں کے درمیان رہتی ہیں۔ ہمارے بالادست طبقوں کو بھی اب اپنی سوچ بدلنی چاہیے۔ وہ اس ملک کو حقیقی فلاحی، جمہوری اور اسلامی پاکستان بنانے کے لئے اپنی سوچ کی تنگنائے سے نکلیں، جب اس قوم پر کڑا وقت آتا ہے تو اس کے 25کروڑ عوام اسکی طاقت بن جاتے ہیں، اسی طاقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے، اس کی رائے، اسکے حقوق اور اس کے معاشی حالات کو بہتر اور یقینی بنانے پر توجہ دی جانی چاہیے، اس فتح سے اگر ہم یہ سبق حاصل کرلیتے ہیں تو پھر فتوحات ہمارا اسی طرح مقدر ہوں گی۔