سہیلی بوجھ پہیلی ایک نہیں د وقربانی کے بکرے اورپولیس گردی!

  سہیلی بوجھ پہیلی ایک نہیں د وقربانی کے بکرے اورپولیس گردی!



یہ درست ہے کہ پاسبانِ عقل کو دِل کے پاس رہنا چاہئے، لیکن ایسا بھی لازم ہے کہ اسے کبھی کبھی تنہا بھی چھوڑ دیا جائے تو مہربانو، قدر دانو!آج یہی صحیح اور اس کے لئے کھیل کھیلتے ہیں، جو کسی سہیلی نے اپنی سہیلی سے کھیلا اور کہا ”آؤ سہیلی، کھیلیں پہیلی(مطلت بوجھیں پہیلی) تو قارئین! پہلی پہیلی یہ ہے کہ دو روز قبل جب دفتر سے واپس گھر آ رہا تھا تو اپنی وحدت روڈ والی گرین بیلٹ میں قریباً ایک درجن تگڑے، پلے ہوئے بکرے  دکھائی پڑے جو بڑے اطمینان سے گھاس اور پودوں سے شکم سیری کر رہے تھے،ان کی نگرانی کے لئے کندھے پر لاٹھی رکھے ایک دیہاتی بھی نظر آ گیا جو ان کا مالک تھا۔حیرت تو ہوئی کہ شادی ہال والوں نے اسے اجازت کیسے دی کہ یہ گرین بیلٹ تو ان کی غیر قانونی ملکیت ہے اور پارکنگ کے کام آتی ہے،ابھی تھوڑے دن قبل اس گریٹ بیلٹ کو صاف کر کے پودے لگائے گئے تھے، ابھی وہ زیر پرورش تھے کہ چند ایک گاڑی پارک کرنے والوں کی کار کے پہیوں کی نذر ہو گئے اور یقینا جو باقی بچ گئے وہ ان بکروں کے کام آ جائیں گے اور ہمیشہ کی طرح گرین بیلٹ نئے پودوں سے محروم ہی رہے گی، یوں نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری، ہر سال کی طرح پی ایچ اے کی یہ کارگذاری کاغذوں میں تو ہو گی لیکن عملاً صفر۔بات پہیلی سے شروع کی گئی تھی تو صاحبو! پہیلی یہ ہے کہ یہ دیہاتی اپنے بکرے مویشی منڈی لے جانے کی بجائے یہاں کیوں لے آیا؟ صوبائی حکومت نے تو ان بیوپاریوں اور گاہکوں کے لئے شہر کے مختلف کونوں میں چھ مویشی منڈیاں بھی قائم کر دی ہیں،ان کا مقصد ہی یہ ہے کہ قربانی کے لئے مویشی شہر میں نہ لائے جائیں اور اِن منڈیوں میں مقیم رہیں، تاکہ شہر میں صفائی ابتر نہ ہو اور مویشی مالکان کو بھی سہولت ہو کہ وہ سائے میں اپنے جانور رکھ کر ان کو دانہ پانی دیں اور خود بھی دھوپ سے بچیں کہ گرمی شدید ہے اب پہیلی تو یہ ہے کہ ان سہولتوں کے باوجود یہ دیہاتی اپنے جانور شہر میں کیوں لے آیا کہ جہاں سرکاری طور پر ممانعت ہے اور پولیس ان کو قبضہ میں لے کر تھانے بھی لے جا سکتی ہے لیکن یہ دیہاتی جو بظاہر بھولا نظر آتا ہے، سیانا ہے اور اسے پولیس والوں کی ”خدمت“ کر کے اپنا مال بیچنے کی جلدی ہے اس کی خواہش اور کوشش ہے کہ وہ جلدی سے جلدی اپنا مال بیچ لے اور اصل آمدنی سمیت کچھ منافع بھی ساتھ لے جائے۔

دوستو!آخر ایساکیوں؟یہ دیہاتی قانون و قواعد کی خلاف ورزی پر کیوں آمادہ ہے، کچھ جواب سوجھتا نہیں تو چلیں، ہم بتا دیتے ہیں۔ یوں کہ صوبائی حکومت نے کمال مہربانی سے مویشی منڈیوں کے لئے جگہ متعین کر دیں، تاکہ سایہ،پانی،دانہ مہیا ہو،ان قربانی کے خواہش مند شہریوں کو بھی جگہ جگہ نہ بھٹکنا پڑے اور وہ اپنے علاقے سے قریب تر مویشی منڈی جا کر جانور خرید لیں۔یہ بڑی سہولت ہے اور فریقین کے لئے ہے لیکن پہیلی یہ ہے کہ یہ مویشی منڈیاں نیلام کر کے نجی ٹھیکیداروں کے سپرد کر دی گئی ہیں جو ان کے منتظم ٹھہرے اور اب اگر کوئی فرد یا ٹھیکیدار شاہ پور کانجراں کی منڈی کے انتظام کے عوض بولی دے کر قریباً ڈیڑھ ارب روپے حکومت کے خزانے میں جمع کرائے گا تو وہ کوئی پاگل ہی ہو گا جو اتنی بڑی رقم کسی منافع کے بغیر ہی انویسٹ کر دے گا، تو اب پہیلی کھل ہی گئی کہ بیوپاری منڈی کیوں نہیں گیا،اسے وہاں روزانہ کے حساب سے اخراجات اور پھر جانور کی فروخت پر ٹھیکیدار کو کمیشن ادا کرنا ہو گی جو وہ اپنے منافع میں سے ادا کرے گا اور پھر اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ صوبائی حکومت کو بھی دُعا دے گا جس نے اتنا اچھا انتظام کیا۔اب ذرا  مزید غور کریں تو اس پہیلی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ جب ٹھیکیدار حکومت کو رقم ادا کر کے بیوپاری سے وصول کرے گا تو یقینا بیوپاری اپنی جیب سے نہیں صارف کی جیب سے وصول کر کے ادا کرے گا اور جانور مہنگے ہوں گے۔یوں ہمارے ساتھی نے جب اپنے دیہاتی بھائی سے ایک تگڑے سے بکرے کا نرخ پوچھا تو وہ جھٹ بولا! سوا لاکھ روپے،جب تکرار ہوئی تو اُس نے اِس  سے کم وزن کے بکرے کو سامنے رکھ کر کے صفات بیان کیں اور کہا چلو! جی! اس کے آپ75 ہزار روپے دے دو، یوں پہیلی کا آخیر یہ ہے کہ بوجھ ثواب کی نیت سے قربانی کا جانور خریدنے والے پر اگرچہ یہ نادان اچھی طرح جانتا ہے کہ یہاں قربانی اس پر فرض نہیں واجب ہے، جسے ہمارے دیندار رہبروں نے فرض عین سے بھی بڑا بنا دیا ہے۔

چلتے چلتے ایک اور پہیلی کا ذکر کر دیں، لیکن اس کا انجام ہم نہ بتا سکیں گے کہ راز کی بات ہے اور اس کا تعلق صوبائی حکومت اور محکمہ پولیس کے ”فرض شناس“ اراکین سے ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ پہیلی صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ اصل ذمہ دار انسپکٹر جنرل پولیس، ایڈیشنل آئی جی، سی سی پی او لاہور اور متعلقہ ایس ایس پی ہی کھولیں، بات کچھ یوں ہے کہ لاہور کے ایک اہم تھانے کا ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر(اے ایس آئی) اپنے علاقے کی بعض خرانٹ خواتین سے مل کر گروہ کی شکل بنائے ہوئے ہے۔ یہ خواتین جو شاید ماں بیٹی ہیں،کسی نہ کسی محلے میں نوکری کی منت کرتی ہیں اور خصوصاً نوجوانوں سے رجوع کرتی اور کچھ نخرے بھی دکھاتی  ہیں، اب جو تازہ وقوعہ ہوا اس میں اِن ماں بیٹی نے ایک نوجوان مزدور کو لبھایا جو ”چیزے“ لینے لگا کہ جوان ہے۔ چند روز بعد ہی بیٹی کی ماں نے پیسوں کا مطالبہ کیا، نوجوان دم بخود کہ وہ صرف ”چیزے“ کے عوض کیا رقم دے۔ چنانچہ  ہلکا پھلکا تنازعہ ہوا اور پھر اے ایس آئی میدان میں آ گیا اس نے خاتون کی طرف سے مبینہ ہراسگی کے الزام میں نوجوان کے خلاف354 کے تحت مقدمہ درج کرا کے اسے گرفتار کرا دیا، وہ دو تین روز سرکاری مہمان رہا اور پھر ضمانت پر باہر آیا۔ اے ایس آئی مذکورہ کو یہ اچھا نہ لگا اور اس نے اُس کے دوسرے بھائی کو بھی شامل مقدمہ کرا دیا،اب معاملہ سب انسپکٹر(تفتیشی) کے پاس چلا گیا،وہ دونوں ضمانتوں کے لئے کچہریوں کے چکر لگانے پر مجبور ہیں اور وہ مدعیہ ان سے پرچہ خارج کروانے کے عوض پانچ لاکھ روپے کا مطالبہ کر رہی اور سودے بازی پر بھی تیار ہے۔یہ نوجوان صرف ”چیزہ“لینے کے عوض اتنی رقم کہاں سے دیں چنانچہ سودا کاری کے لئے اے ایس آئی تو موجود ہے،لیکن بات نہیں بن ر ہی، اب سب انسپکٹر انویسٹی گیشن کے پاس اختیار ہے اس نے ایک نوجوان سے مٹھائی کے لئے مخصوص رقم کے اسے بے گناہ قرار دینے کی پیشکش کر دی ہے۔

تو جناب!وزیراعلیٰ کے خواتین کی ہراسگی کے حوالے سے ویژن کا یہ حال پولیس کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ میں نے واقع سو فیصد درست لکھ دیا،کردار اور مقام خفیہ رکھے کہ آخر کار جدید آئی ٹی دور میں پولیس حکام کے بھی تو کچھ فرائض ہیں وہ یہ پہیلی بوجھ کر ہمیں بھی انجام سے آگاہ کر دیں۔

٭٭٭٭٭





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں