ساٹھویں سالگرہ دوستوں کی محبتیں اور مدرز ڈے پر والدہ کیلئے ایک دعا

   ساٹھویں سالگرہ دوستوں کی محبتیں اور مدرز ڈے پر والدہ کیلئے ایک دعا



 جیون کے ساٹھ برس مکمل ہوئے تو ملازمت کا طوق بھی گلے سے اتر گیا۔ پچھلے تین روز کے دوران دوستوں نے جس والہانہ انداز میں محبتیں نچھاور کیں اس نے ساری تھکن اتار دی۔ اور تھکن کو ہم نے کبھی خود پر طاری ہی کب کیا تھا۔اگر ہم تھک جاتے، کہیں کسی سائے کے نیچے سستانے کے لیے بیٹھ جاتے تو اس بھاگتے دوڑتے ہجوم نے ہمیں کب کا کچل دیا ہوتا۔6 مئی کو دفتر کو خدا حافظ کہنے کے بعد سب سے پہلے نصف صدی کے صحافتی سفر کا احوال بہت تفصیل کے ساتھ تحریر کیا۔ کتنی خوبصورت بات ہے سات مئی کو ہمارا فون بھی خراب تھا۔ سو بہت سے احباب نے اسے ہمارا نخرہ بھی سمجھ لیا۔ اب فون کا ذکر آیا ہے تو لگے ہاتھوں یہ دکھڑا بھی سن لیں۔ ہوا یوں کہ 23 مارچ کو کسی نے یوم پاکستان کی خوشی میں ہمارے دونوں فون ہماری جیب سے نکال لیے۔ اب اگر فون گم یا چوری ہو جائیں تو سمجھیں آپ کا سب کچھ ہی ختم ہو  جاتا ہے۔ رابطہ نمبر، واٹس ایپ، فیس بک غرض سبھی کچھ اس ایک فون میں موجود ہے۔۔ بہت سی کتابوں کے مکمل اور نا مکمل سرورق۔ بہت سی رسیدیں۔ تصاویر اور جانے کیا کچھ اس فون میں موجود تھا۔ ایک دو ٹائٹل ہم نے برادرم راشد سیال سے بنوائے تھے۔ کچھ مکمل اور کچھ ادھورے تھے اور ان میں ایک ٹائٹل برادرم انور زاہدی کی کتاب کا بھی تھا جو جلد سازی کے مراحل میں تھی سب سے پہلے تو اس کی فکر لاحق ہوئی۔ وہ تو شکر ہے مدتوں بعد ہمیں ایک روز برادرم افتخار ندیم نے اپنے گھر افطاری پر بلا لیا اور ان کیساتھ ٹیلی فون نمبروں کا تبادلہ ہو گیا سو وہ ٹائٹل ان کی مدد سے مکمل ہوا۔ پھر آفس کے کچھ ادھورے فیچر اور گردوپیش کی کچھ ویڈیوز بھی انہیں دو فونز میں تھیں۔ بینک اکاؤنٹس کی ایپس تھیں جنہیں فون نمبر کے ساتھ ہی بلاک کرانا پڑا۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ بھارت کو حال ہی میں شکست دینے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ سب اکاؤنٹ بحال کرانا کتنا مشکل کام ہے۔ پھر ایک سستا سا سیکنڈ ہینڈ فون لیا تاکہ گزارا ہو سکے اور رابطے بحال ہو جائیں لیکن سیکنڈ ہینڈ فون بھی ایک دو روز بعد ہی مرمت کا طلب گار ہو گیا اور ہم سکون ڈاٹ کوم میں چلے گئے۔ نہ رہا فون اور نہ بجی گھنٹی۔۔ اسی دوران سات مئی آ گیا۔اور فون بھی درست ہوگیا۔ سات مئی کو پہلا رابطہ بھائی شاہ نواز خان کے ساتھ ہواکہنے لگے ہم کیک لے کرآ رہے ہیں۔ وہ کتاب نگر پہنچے تو قمر اور نوازش بھی پہلے سے شاکر کے پاس موجود تھے۔ کچھ دیر میں قیصر عباس صابر بھی کہیں سے برآمد ہو گئے اور ہم نے پہلا کیک ریڈیو پاکستان کے قریب واقع ایک ہوٹل کی آٹھویں منزل پر جا کر کاٹا۔وہیں معلوم ہوا کہ ہمیشہ کی طرح برادرم ناصر محمود شیخ بھی ہم سے فون پر رابطہ نہ ہونے کے بعد کتاب نگر پر ہمارے لیے کیک چھوڑ گئے ہیں۔ اسی طرح فیس بک اور سوشل میڈیا پر بھی دوستوں کی بڑی تعداد نے ہمارے لیے محبت بھری تحریریں پوسٹ کیں۔۔ دوستوں اور بچوں کی جانب سے بہت سے تحائف موصول ہوئے۔۔۔ڈاکٹر مقبول بخاری اور ڈاکٹر عامر سہیل نے پہلے ہی وعدہ لے رکھا تھا کہ سالگرہ کی پہلی باضابطہ تقریب ملتان آرٹس فورم میں ہو گی۔ اس کی صدارت ہماری خواہش پر ڈاکٹر صلاح الدین حیدر نے کی جو آرٹس کونس کے بانی پروفیسر خالد سعید کے ماموں ہیں۔ ان کی موجودگی میں ہم نے خالد صاحب کو بھی اپنے درمیان محسوس کیا۔ اس تقریب کے مہمان خاص ڈاکڑ محمد امین تھے۔ اظہار خیال کرنے والوں میں قمر رضا شہزاد، نواز ش علی ندیم، آصف کھیتران، ڈاکٹر عامر سہیل، اکمل وینس، جاوید یاد، نئیر مصطفی، خلیفہ مسرور صدیقی نورالامین خاکوانی، پروفیسر امجد رامے، طارق قادری شامل تھے۔ آرٹس فورم کے سیکریٹری فرحت عباس نے گزشتہ اجلاس کی بہت خوبصورت رپورٹ پیش کی۔۔۔برادرم امجد بخاری خود تو تقریب میں شریک نہ ہو سکے لیکن انہوں نے روہی ٹی وی کی ٹیم کو کوریج کے لیے بھیجا تھا اسی طرح شیراز درانی صاحب نے بھی پی ٹی وی کے لیے کوریج کا اہتمام کیا۔ یہ تقریب کم و بیش تین سے چار گھنٹے جاری رہی۔ نو مئی کو ہونے والی یہ تقریب ایک ایسے وقت میں ہو رہی تھی جب پاکستان اور بھارت میں جنگ چھڑ چکی تھی اور ہمیں یاد آ رہا تھا کہ ہماری والدہ نے ہمیں بتایا تھا کہ ہماری پیدائش کے کچھ عرصہ بعد ہی 6 ستمبر 1965ء کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تھا۔ اس برس میری سالگرہ پر میری والدہ کی صحت ٹھیک نہیں وہ جو مجھے کہانیاں سناتی تھیں اور مجھے گود میں اٹھاتی تھیں۔ اب میں رات بھر ان سے باتیں کرتا ہوں انہیں لوریاں سناتا ہوں اور انہیں گود میں لے کر واش روم تک جاتا ہوں پھر وہ مجھے بتاتی ہیں کہ میرا ایک بیٹا بھی بالکل تمہارے جیسا ہے اس کا نام شیخ رضی الدین اوپل ہے اور وہ اخباروں میں کام کرتا ہے۔۔ پھر میں انہیں بتاتا ہوں کہ میں ہی آپ کا بیٹا رضی ہوں وہ مجھے گلے لگا کر پوچھتی ہیں کہاں سے آئے ہو آج کل کہاں ہوتے ہو۔ میں تو بہت دن سے انتظار کر رہی تھی۔۔ یہ تحریر میں مدرز ڈے پر تحریر کر رہا ہوں اس دعا کے ساتھ میری ماں آنے والے برسوں میں بھی میرے ساتھ رہے کہ وہ میری ماں ہی نہیں میرے والد کی جگہ بھی تو ہیں۔۔ جنہوں نے اپنی جوانی ہمارے لیے وقف کر دی اور میں ان کی وجہ سے ہی رضی الدین اوپل سے رضی الدین رضی بن گیا۔





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں