شیکسپیئر بلا کے ڈرامہ نگار تھے۔انھوں نے ڈراموں میں انسانی جبلت اور کمزوریوں کوبلیغ انداز اور باریک طرزمیں لفظ بند کیا ہے۔ باریک مشاہدے کی صلاحیت سے قدرت کم کم ہی لوگوں کو بہرہ ور کرتی ہے بالخصوص جو سوچ سے قلم تک اتر آئے۔ شیکسپیئر کے ڈرامے پڑھتے پڑھتے تخیل چونک اٹھتا ہے، چھپی ہوئی سچائیوں کا انکشاف ہوتا ہے اور قطرے میں دجلہ دکھائی دیتا ہے۔ ویسے تو اس کا ہر ڈرامہ معاشرتی سچائیوں کی تصویرہے، لیکن ڈرامہ، کوریولینس، گنجینہ معنی کا طلسم ہے۔
اس کی کہانی کوریولینس نامی رومی جرنیل کے گرد گھومتی ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ ملک سماجی کشمکش کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ قحط اور سیاسی حالات میں افراتفری ملک میں کشیدگی کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ بے چینی کا افعی معاشرتی اعتدال کو ڈس لیتا ہے۔ عوام کھل کر بالخصوص متکبرفوجی جرنیل کائیس مارسیئس سے علی الاعلان نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو اشرافیہ کے خلاف اکساتے ہیں۔ شہری سمجھتے ہیں کہ امرا نے غلہ اپنے لیے ذخیرہ کر رکھا ہے۔ زمانہ بھر کی تعیشات اور آسائشیں انہی کے لیے مختص ہیں۔ بھوک کے ہاتھوں پیٹ پھٹ جانے کے باوجودان میں خیر خواہی کا جذبہ تو درکنار احساس کی رمق تک باقی نہیں۔ بیگانگی کا یہ احساس انھیں غصے میں بھر دیتا ہے۔ بالآخر، روم میں خانہ جنگی کا لاوا پھوٹ پڑتا ہے۔ انہی جنگی حالات میں قدیم روم کے سیاسی افق پر رومی جنرل، کائیس مارسیئس، وولسکی قبیلے کو دھول چٹاتے، فتح مندی کا نقارہ بجاتے، بہادری و جواں مردی کا جبہ پہنے طلوع ہوتا ہے۔اسی معرکے میں ’کوریولی‘ نامی شہرکو تسخیر کر کے وہ ”کوریولینس“ کے خطاب سے متصف ہو جاتا ہے۔فتح مندی کے بعد، روم واپسی پر، اشرافیہ اسے سینٹ کا ممبر بننے کے لیے پیش کش کرتی ہے لیکن اس کی خاطر عوام سے تائید کی بہرحال ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اس امر کو بادل نخواستہ قبول کرتا ہے۔ مگر اپنی فطری سخت مزاجی اور عوام سے نفرت کو چھپانے میں ناکام رہتا ہے۔ پردہء ساز کی آڑ میں چھپی اس کی فوجی شخصیت عیاں ہو جاتی ہے۔ تکبر اور تلخ نوائی میں ڈوبی زبان نشتر کا کام کرتی ہے۔ شہری اسے عوام دشمن قرار دیتے ہیں۔ کوریولینس کی جلاوطنی کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔مایوسی کے عالم میں وہ اپنے دشمن، وولسکی جنرل آفیدیئس سے روم پر حملے کے لیے ہاتھ ملا لیتا ہے۔ کوریولینس کی ماں اور بیوی اس کے سامنے ملتجی ہو کر اسے روم پر یلغار سے روکتے ہیں اور وہ مجبورا پیچھے ہٹ جاتا ہے، لیکن وولسکی فوج اسے غدار سمجھ کر قتل کر دیتی ہے۔ یوں کوریولینس کو اس کی ضد، غیر لچک رویے اور سخت مزاجی کی وجہ سے ایک المناک انجام سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔
اس ڈرامے کے ہر لفظ کی نوک سیخوں ناب ٹپک رہا ہے اور جزو میں کل دکھائی دے رہا ہے۔ تاریخ میں کورولینس جیسی غیر لچکدار، ذہن میں انا کے سومنات تعمیر کیے اور اپنی ذات کو بلند و ارفع خیال کرنے والے رہنما اس عمل سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔ سختی کے نتائج ہمیشہ خوفناک رہے ہیں۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جس جس حکمران نے جبر کے کوڑوں سے حکمرانی میں چمک پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہ خود ہی اس سے ہلاک ہوا ہے۔ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ فکر اور آواز کو نہ تو کبھی دبایا گیا ہے اور نہ ہی دبایا جا سکتا ہے۔ سختی سے معاملات الجھتے ہیں۔ بلکہ ذہنی فضا میں اور بھی درد ناک نغمے بکھرتے ہیں۔ ہم کیسے بھول سکتے ہیں سقوطِ ڈھاکہ سے قبل سیاسی لیڈروں اور مقتدرہ کے رویوں میں بہت سے عوامل میں سے ایک اہم وجہ ہٹ دھرمی اور مزاج میں سختی تھی۔
حکمراں طبقے نے اختلاف کرنے والوں سے خوف ہی کھایا ہے۔ سلطنتِ روم میں اختلاف کرنے والوں کو سرکاری اکھاڑے میں وحشی درندوں کے سامنے پھینک دیا جاتا تھا تا کہ وہ اختلاف پر آمادہ لوگوں کی تکہ بوٹی کر ڈالیں۔ جرمنی میں نازیوں کے زمانے میں مخالف شہریوں کو ایذا رسانی کی کال کوٹھریوں میں کچھ عرصہ رکھ کر نابود کرنے والے کیمپوں میں بھیج دیا جاتا تھا۔اسی طرح، زار روس کی شہنشاہی کے دور میں رومنوف کارندوں نے ریاست سے اختلاف کرنے والوں کو سائبریا کے جنگلوں بیابانوں میں پہنچا دیا جہاں سے کوئی واپس نہ آتا تھا۔ نتیجتاً، معاشرے میں شورش پنپی اور نفرت و عناد کے جذبات کے لاوے میں سب خس و خاشاک کی مانند بہہ گیا۔
سختی اور جبر سیاسی مسائل کا حل کبھی نہیں رہے۔ اس لیے یہ کہنا قطعی ناموزوں نہیں کہ سختی کرنے والے تاریخ میں چیرہ دست کے طور پر ہی یاد رکھے گئے ہیں۔ مشرقی پاکستان سے فسادات کو ختم کرنے کے لیے،مارچ 1954 کے انتخابات کے بعد مولوی فضل الحق کی بننے والی وزارت کو معطل کرتے اور گورنر راج نافذ کرتے ہوئے سیاسی مسائل حل نہیں ہو سکے تھے۔ مشرقی پاکستان کا گورنر بننے کے بعد سکندر مرزا نے بندوق کی نال اور عوام کی جبری حراست، ڈر اور خوف پھیلا کر معاشرتی و سیاسی حالات کو نارمل کرنے کی کوشش کی لیکن الٹا نقصان ہوا۔اسی طرح، اکتوبر 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے دستور ساز اسمبلی کو منسوخ کرنے اور سکندر مرزا کو مرکزی وزیر داخلہ بنانے، سیاسی تشدد کے رجحان کو فروغ دینے بلکہ تشدد کے مئے سے سیاستِ پاکستان کے چہرے کو تر کر کے کچھ فائدہ نہ ہوا۔ افسوس، کہ ان اقدام سے سیاسی عمل بحال ہونے کے بجائے تلپٹ ہو گیا۔ ایک دن، اقتدار سے سکندر مرزا، غلام محمد اور ایوب خان کو رخصت ہونا ہی پڑا۔ وقتی طور پر ان کو فائدہ ہوا لیکن، آج پاکستانی تاریخ کے سینے پر یہ کینسر کے پھوڑے کی طرح احساس دلاتے ہیں۔
شورش اور جبر میں سیاست کا جوبن پھٹ جاتا ہے۔ جمہوریت کی گردن میں سنگِ گراں لٹک جاتے ہیں۔ حالیہ وقت میں پاکستانی سیاست کی قباء میں مکالمے کے پیوند لگائے جانے کی ضرورت ہے۔ بے مہری یاران وطن کی وجہ سے تیرگی امڈتی چلی آ رہی ہے اور معرکہء ظلمت و نور برپا ہے۔ ذہنی فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ سیاسی معاملات کا حل مکالمہ ہے نہ کہ جبر و استبداد۔ اس لیے تمام اہل سیاست و دانش کو مل بیٹھنا چاہیے۔ بحران کا حل اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ محبت ہی فاتح عالم ہے۔ اے کاش یہ الفاظ بوئے گل ٹھہریں، بلبل کی زباں ٹھہریں۔ ہزار شمع بہ کشتند، انجمن باقیست۔