حب الوطنی مفت میں تھوڑا ملتی ہے، اس کے لئے قیمت چکانا پڑتی ہے۔ کبھی اپنے مفادات کو چھوڑ کر، کبھی اپنی خود غرضی سے بلند ہو کر، کبھی دوسروں کے لئے جی کر کبھی اپنے منصب کے تقاضوں سے انصاف کرکے، کبھی اپنے غصے، انا اور انانیت پر قابو پا کر۔ دشمن کے مقابلے میں تو ہماری حب الوطنی کسی شک وشبے سے بالا ہے۔ بھارت جیسے گھٹیا دشمن کے لئے تو ہم سیسہ پلائی دیوار ہیں۔ اسے سبق بھی سکھاتے ہیں اور اس پر خوشیاں بھی مناتے ہیں، مگر جناب حب الوطنی کوئی وقتی یا پارٹ ٹائم جاب تو نہیں، یہ تو لمحے لمحے عمر بھر کا سودا ہے۔ اپنی دھرتی سے اٹوٹ اور غیر مشروط عشق ہی ارفع و اعلیٰ نصب العین ہے۔ کیا ہم اس نصب العین کو اپنائے ہوئے ہیں۔ کیا ہمارے روزمرہ معاملات، ہمارے افعال و افکار، ہماری زندگی کے روز و شب میں وہ حب الوطی جھلکتی ہے جو ہماری محبت کا تقاضا ہے؟ میں جب خود اپنا جائزہ لیتا ہوں تو بدقسمتی سے جواب نفی میں ملتا ہے۔ میں جھوٹ بولوں، ڈھٹائی کا مظاہرہ کروں، اپنی بات کو حرفِ آخر سمجھوں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہاں مجھ سے بڑا محب الوطن کوئی نہیں، لیکن میں تو سب کچھ اس کے خلاف کررہا ہوں، نہ اس کے قانون کو مانتا ہوں، نہ ایمانداری کا راستہ اپناتا ہوں، ٹیکس سے بچنے کے لئے ہر جتن کرتا ہوں۔ اپنے گھر کا کوڑا باہر پھینک دیتا ہوں، اس جگہ کو اپنی جگہ ہی نہیں سمجھتا۔ غرض بہت سی ایسی باتیں ہیں جو مجھے احساس دلاتی ہیں کہ میں حب الوطنی کی قیمت ادا نہیں کر رہا بلکہ وطن سے اپنے زندہ رہنے کا خراج وصول کررہا ہوں۔ ہمارے پاکستانی جب امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ممالک کی شہریت لیتے ہیں تو ایک جج کے سامنے حلف اٹھاتے ہیں۔ اس میں اقرار کرتے ہیں کہ ہم ملک کے وفادار رہیں گے۔ اس کے قوانین، روایات کا احترام کریں گے۔ اس کی بہتری اور ترقی کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرکے حصہ ڈالیں گے۔ پھر ہوتا بھی یہی ہے۔ وہاں کے شہری بن کر وہ بالکل بدل جاتے ہیں۔پاکستان کی موجیں انہیں وہاں نہیں ملتیں، مجال ہے کوڑا باہر پھینکیں یا ہمسائے کو تنگ کریں، یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ رات گئے تک لاؤڈ سپیکر چلا کر موج میلہ کریں اور انہیں کسی کا ڈر نہ ہو۔ پھرانہیں یہ ڈر بھی ہر وقت لاحق رہتا ہے کہ حلف کی خلاف ورزی کی تو ان کی شہریت منسوخ کرکے انہیں ملک سے نکال دیا جائے گا، انہیں اپنی شہریت کی قدر ہوتی ہے۔ ایک ایک قدم پھونک کر رکھتے ہیں گویا وہ حلف میں دی گئی حب الوطنی کی پوی پوری قیمت ادا کرتے ہیں۔
اور ہم پاکستانی جنہوں نے کوئی حلف اٹھایا ہے نہ شہریت کے لئے لمبے چوڑے کشٹ کاٹے ہیں نہ گرین کارڈ اور بعد ازاں سٹیزن شپ لینے کے لئے اپنے پیاروں سے سالہا سال تک دور رہے ہیں پاکستان کی مفت میں ملی ہوئی شہریت کو اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھتے ہیں، پاک دھرتی کا احسان نہیں سمجھتے بلکہ یہ احسان جتاتے ہیں کہ ہم نے یہاں پیدا ہو کر پاکستان پر احسان کیا ہوا ہے۔ ہمیں نہ یہ خوف ہوتا ہے کوئی ہماری شہریت منسوخ کر سکتا ہے اور نہ یہ ڈر ہوتا ہے کوئی پاکستان سے نکال دے گا۔ جب یہ پاک دھرتی اپنا دامن اتنا کشادہ کئے ہوئے ہے تو ہم اس کے لئے اپنا دل کشادہ کیوں نہیں کرتے، اسے عظیم دھرتی بنانے پر کیوں توجہ نہیں دیتے۔ ایک ہجوم بن کر کیوں سوچتے ہیں، قوم بن کر کیوں نہیں سوچتے۔ جو بھی پاکستان سے باہر جاتا ہے، واپس آکر اس ملک کے گن گانے لگتا ہے۔ اس کے اصول و ضوابط، قانون کے احترام، ملاوٹ سے پاک اشیاء، صاف ستھرے ماحول اور احترام انسانیت کی مثالیں دیتا ہے، لیکن یہاں آتے ہی وہ سب کام شروع کر دیتا ہے، جو اسے وہ ملک نہیں کرنے دیتے جس کی مثالیں دی جاتی ہیں یہ سیدھی سادی دوعملی ہے، سفاکی ہے، منافقت ہے اور وطن سے زیادتی ہے۔ پاکستان ایک عظیم ملک ہے اسے قدرت نے ہر نعمت سے نوازا ہے۔ یہ ان چند ملکوں میں سے ہے جہاں سمندر بھی ہے اور صحرا بھی۔ جہاں پہاڑ بھی ہیں اور میدان بھی۔ جہاں چار موسم ہیں اور سورج بارہ مہینے نکلتا ہے، جس میں دنیا بھر کے پھل، میوے اور فصلیں پیدا ہوتی ہیں۔ بعض پھل تو ایسے ہیں، جو پوری دنیا میں اپنے ذائقے اور مٹھاس کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ مجھے امریکہ میں مقیم میرے دوست سید الطاف بخاری نے بتایا ملتان کے آم یہاں اتنے مہنگے بکتے ہیں کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ انہوں نے کہا یہ سوچ کر پاکستانیوں پر رشک آتا ہے کہ انہیں یہی آم گرمیوں میں سو یا دو سو روپے کلو مل جاتے ہیں جبکہ امریکہ میں ایک عام ڈالروں میں ملتا ہے۔ اب ایسی بہت سی باتیں ہمارے لئے فخر کا باعث ہونا چاہئیں، ہمیں اپنے نظام کو بھی ترقی یافتہ ملکوں کی طرح بنا لینا چاہیے جو اس وقت دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اجتماعی طور پر کبھی اس پہلو پر سوچتے نہیں۔ انفرادیت کے لالچ نے ہمیں اس بُری طرح جکڑ رکھا ہے کہ ملک کو بہت پیچھے رکھ کر سوچتے ہیں۔
ہم میں سے ہر پاکستانی ملک پر جان وار دینے کا جذبہ رکھتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں، مگر سوال یہ ہے جب ہم اپنے کسی عمل سے پاکستان کے خلاف کام کررہے ہوتے ہیں تو یہ جذبہ کیوں بیدار نہیں ہوتا۔ جب کوئی بیوپاری اشیاء میں ملاوٹ کررہا ہوتا ہے تو اس کا یہ جذبہ کہاں سو جاتا ہے جب کوئی منصف چند پیسوں کے لئے انصاف کا خون کرتا ہے تو اسے پاکستان کا خیال کیوں نہیں آتا، جب کوئی بڑا افسر جس کا کام پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے میں کردار ادا کرنا ہے، اپنے مفادات کے لئے فرض سے انحراف کرتا ہے تو اس کی پاکستانیت اسے کیوں نہیں روکتی۔ جب کوئی سیاستدان عوام کے لئے دیئے گئے ترقیاتی فنڈز میں کرپشن کرتا ہے تو اسے ضمیر کچوکے کیوں نہیں لگاتا کہ پاکستان اس مقصد کے لئے انہیں بنا ہے ایسی بہت سی باتیں ہمارے اردگرد بکھری پڑی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی حب الوطنی کی قیمت چکانے سے انکار کیا ہوا ہے۔ ہم اپنا کوئی فائدہ، کوئی مفاد، کوئی ضرورت یہ سوچ کر نہیں چھوڑنا چاہیے کہ اس سے پاکستان کو نقصان پہنچے گا یہی تو وہ قیمت ہے جو ہمیں ادا کرنی ہے مگر اسے بھولے ہوئے ہیں۔