تین اسلامی جمہوریے گرم لوہا اور بنیان مرصوص 

  تین اسلامی جمہوریے گرم لوہا اور بنیان مرصوص 



 بلوچستان کے توجہ طلب حالات پر امید اور حوصلہ دلانے کی خاطر میں 22 ستمبر 2024 کے کالم میں یہ چند جملے کیا لکھ بیٹھا کہ احباب نے میری خوب بھد اڑائی: “لو جی ہر در پر جا کر مانگنے والا ملک اب سپر پاور بننے جا رہا ہے”۔ میرے جملے یہ تھے: “آنے والے دنوں میں اپنا یہ اسلامی جمہوریہ کس شکل میں ہوگا، اس کی نوعیت ہنگری کے وزیر خارجہ (معذرت کہ وہ وزیراعظم ہیں) وکٹر اورین سے سنیے اور اپنے اوپر اعتماد کیجئے: “مستقبل میں پاکستان عالمی طاقتوں میں شمار شامل ہوگا”. تو کیا حالیہ پاک بھارت جنگ سے پاکستان ایک عالمی طاقت کے طور پر متعارف نہیں ہوا؟ مزید بات آئندہ کبھی ہوگی۔ ویسے دنیا تو خوب جان چکی ہے. کسی نے خوب کہا: “اب ٹیکنالوجی وہی کہلایا کرے گی جسے پاکستانیوں کے ہاتھ مس کر چکے ہوں گے”۔

حالیہ جنگ بندی کے نتیجے میں کشمیر کی آزادی موخر تو ہوئی ہے، تحریک ختم نہیں ہوئی نہ ہو گی۔ اس جنگ بندی کی ساخت کلیتاً وہی ہے جو 1947 میں بھی ہم بھگت چکے ہیں۔ فیلڈ مارشل آکلنک دلی اور سری نگر کے مابین بذریعہ ہوا پل(air bridge) دھڑا دھڑ اسلحہ پہنچا رہے تھے۔ جموں کے راستے میں دریائے راوی کی رکاوٹ آئی تو راتوں رات کشتیوں کا پل بنا کر وہاں بھی اسلحہ پہنچا دیا۔ دوسری طرف پاکستانی فوجی چیف جنرل گریسی کو قائد اعظم نے کشمیر کی جانب پیش قدمی کا حکم دیا تو ان کا جواب تھا کہ میں جنرل آکلنک کی کمان میں ہوں، اسی کے حکم پر یہ کام کر سکتا ہوں۔ پھر نجی شعبہ ریاست کے کام آیا۔ کشمیری مجاہدین آزادی اور سرحدی قبائل نے ناقص اسلحے لیکن جذبے سے لیس ہو کر ایک تہائی تزویراتی کشمیر آزاد کرا لیا۔ مجاہدین اور قبائلی لشکر جب سری نگر سے صرف 25 میل دور تھے, فتح قریب تھی تو نادیدہ ہاتھ نے جنگ بندی کا کہا جو قبول کرنا پڑی. افسردہ مجاہدین اور قبائلی واپس لوٹ آئے۔ 

یہ جنگ بندی اسی 1947 کا تسلسل ہے۔ جاگیردار کا مرغا ہارنے لگے تو وہ لڑائی بند کرا دیتا ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ تب ہم یکسر تنہا تھے۔ آج سفارتی اعتبار سے اکثر دنیا ہمارے ساتھ ہے۔ جنگی لحاظ سے ہم نے دوستوں اور علاوہ ازیں اپنے احباب کو خوب پہچان کر جنگ کی ہے۔ ترکی، چین اور آزربائجان نے ہر اعتبار سے ہماری مدد کی۔ میں پوری جرآت کے ساتھ کہتا ہوں کہ ملک آج نہایت مضبوط ہاتھوں میں ہے۔  اس سے مراد سیاسی قیادت، پارلمانی جماعتوں اور دیگر جماعتوں کی مکمل ذہنی یکسوئی ہے۔ کہیں کوئی کجی نہیں۔ پہلگام سانحے نے دفعتاً پوری قوم کو یکجا کر دیا۔ “دانشوروں ” کا ایک گروپ البتہ منٹو کا آسیب اٹھائے مطالعہ پاکستان اور دو قومی نظریے کی مخالفت میں بلا شبہ مودی کی بولی بول رہا ہے۔ فکر اس لیے نہیں کہ یہ لوگ لبرل ہیں نہ سیکولر۔  پاکستان کے تناظر میں لبرل اور سیکولر کا ترجمہ نفس پرست کے علاوہ بنتا ہی نہیں، ورنہ لبرل اور سیکولر تو بڑے قابل احترام لوگ ہوتے ہیں۔ اپنے ان نفس پرستوں کو ان کے حال میں مست رہنے دیجیے۔

دو قومی نظریہ اس بر صغیر تک محدود نہیں تھا۔ قائد اعظم نے تو یہ نظریہ دنیا کو متعارف کرایا تھا۔ لیاقت علی خان کی قرارداد مقاصد کے آخری جملے پر غور کر کے نتیجہ خود نکالیے: “۔۔۔۔ تاکہ پاکستان کے لوگ۔۔۔۔۔ عالمی امن اور نوح انسانی کی مسرتوں اور ترقی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں “۔ دو قومی نظریہ وہ خط امتیاز ہے جس نے ہمیں ہندتوا سے جدا کر رکھا تھا۔ جزوی اختلافات اپنی جگہ لیکن ہماری ہر نوع کی قیادت اس بابت ہمیشہ یکسو رہی۔ ایوب خان کے بارے میں ہماری رائے کبھی اچھی نہیں رہی۔ لیکن 1965 کی جنگ انہوں نے بھی کلمہ طیبہ پڑھ کر شروع کی تھی۔ اس نظریے کو عالمی ریاستی سطح پر متعارف کرانے کا آغاز مرحوم بھٹو نے کیا تھا۔ 1974 کی مسلم سربراہ کانفرنس کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ جنرل ضیا شہید تو اس دو قومی نظریے کو اس کے تصور جہاد سمیت کہیں آگے لے گئے۔

دو قومی نظریے کو جنرل پرویز مشرف اور اس کی باقیات نے بہت نقصان پہنچایا۔ الحمدللہ حالیہ پاک بھارت جنگ سے قبل جنرل عاصم منیر نے اپنی ایک تقریر میں اس نظریے کو حیات نو دے دی ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ تو دو قومی نظریے کی بنیاد ہی پر لڑی گئی ہے۔ اس جنگ سے جتنا کچھ حاصل ہوا وہ ہماری قیادت بخوبی جانتی ہے۔ میں نہ حربی ماہر ہوں اور نہ سفارت کی نزاکتوں سے باخبر۔ حرب و  سفارت اپنی جگہ۔ لیکن “زندگی کچھ اور شے ہے، علم ہے کچھ اور شے / زندگی سوز جگر ہے علم ہے سوز دماغ”۔ آپ امور حرب اور امور سفارت سوز دماغ سے نمٹائیے۔ ایک سے ایک بڑھ کر اکیڈمیاں اور تربیتی ادارے سوز دماغ کی بخیہ گری کو موجود ہیں۔ لیکن ہمیں تلاش ہے عارضہ سوز جگر کے شکار ان مجنون سودائیوں کی جن کی عقابی نگاہ  دور افق کے اس پار دیکھ سکتی ہو۔

اس ایک قرآنی اصطلاح “بنیان مرصوص” نے کل عالم اسلام کے مرد و زن کو چند گھنٹوں میں ایک لڑی میں پرو دیا۔ اوپری سطح پر لارنس آف عریبیہ کی باقیات کو ناچنے گانے دیجیے۔ خس و خاشاک اور تلچھٹ اپنی ہی بدرو کے رخ پر ہوتے ہیں۔ ہم تو سوز جگر کے عارضے میں مبتلا چند آشفتہ سروں کے متلاشی ہیں۔ 1956 کا اسلامی جمہوریہ پاکستان، 1979 کا اسلامی جمہوریہ ایران اور 2004 کا اسلامی جمہوریہ افغانستان (اب امارت اسلامیہ افغانستان) ایک ہی لڑی کے تین موتی ہیں لیکن ان کی مقتدرہ یکجا ہونے کی روادار نہیں. ان میں سے دو تو روز اول سے گرفتار ابوبکر و علی ہیں. تیسرے کو اپنی آزادی کے بعد کبھی سر اٹھا کر کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا۔

یہ تینوں ممالک آئینی اعتبار سے ایک کتاب اور ایک نبی کو ریاستی سطح پر تسلیم کر چکے ہیں. قرآن و سنت پر یہ تینوں یکجا اور یکسو ہیں. رہے مسائل تو وہ ایک ماں کی اولاد میں بھی ہوتے ہیں۔ مسائل کا تعلق مذہب نہیں، حقوق اور ضروریات وغیرہ سے ہوا کرتا ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ نے عالم اسلام کے اتحاد کا لوہا ایک دفعہ پھر گرم کر دیا ہے جس پر ضرب لگانا باقی ہے۔ یہ عمل طویل مدتی ہے۔ لیکن ہر سفر کی ابتدا پہلے قدم ہی سے ہوتی ہے۔ یہ پہلا اور نسبتاً آسان قدم ان تینوں پڑوسی اسلامی جمہوریاؤں کی یکجائی میں مضمر ہے۔ یہ کام ان تین ملکوں میں سوز جگر کے عارضے میں مبتلا افراد ہی کر سکتے ہیں۔ ہمیں انہی گمشدگان کی تلاش ہے (باقی آئندہ).





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں