تجمل کلیم پنجابی شاعری کو نئی زندگی دینے والا شاعر

  تجمل کلیم پنجابی شاعری کو نئی زندگی دینے والا شاعر



کسی زبان کی شاعری، شاعروں کو امرکرتی ہے لیکن تجمل کلیم ایک ایسا شاعر ہے جس نے پنجابی شاعری کو نئی زندگی دی ہے ان کی وفات پر ادبی دنیا میں   جو دکھ کی لہر خیمہ زن ہوئی وہ اپنی جگہ ایک بڑی حقیقت ہے، تاہم ان کے لئے جس طرح محبتوں کے نذرانے پیش کئے جا رہے ہیں وہ اس بات کی دلیل ہے کہ تجمل کلیم نے اپنی خداداد تخلیقی صلاحیتوں سے پنجابی شاعری کے دامن کو جس طرح ایک بڑی شاعری کے اوصاف سے بھر دیا اسے فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔چونیاں جیسے ایک چھوٹے سے شہر میں رہ کر انہوں نے عالمی سطح پر پنجابی کے ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے اپنی شناخت منوائی۔ 1960ء میں جنم لینے والے تجمل کلیم کی زندگی اگرچہ خوشحالی سے دور رہ کر گزری،تاہم اپنی 65سالہ زندگی میں انہوں نے کبھی اپنی خودداری اور انا کے برعکس کوئی کام نہیں کیا۔ وہ اساتذہ  کے درجے پر فائز ہو چکے تھے۔ان کے شاگردانہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے، ان کے لئے سب کچھ وارنے کو بھی تیار رہتے، مگر وہ درویشِ خدامست تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو کسی بھی احسان کا زیربار نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پنجابی شاعری سید ھا دل میں ترازد ہوتی ہے۔ کتنے سہل انداز میں وہ کیسی بڑی بات کہہ جاتے ہیں، اس کا اندازہ ان کو پڑھنے والے    ہر شخص کو پڑھ کر بخوبی ہو جاتا ہے۔ ان کے اشعار سے ان کی شخصیت کا جو تاثر بنتا ہے،وہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ عاجز و مسکین کی منزلت کو دنیاوی کروفر پر فوقیت دیتے تھے:

پاٹا گلما سین نئیں آیا

اج میں اتھرو پین نئیں آیا

ربا کیہڑی غلطی ہوئی

بوہے تے مسکین نئیں آیا

تجمل کلیم پچھلے کئی ماہ سے بیمار تھے۔ ان کے چاہنے والے، دوست اور شاگرد  ان کی خبرگیری کو جاتے رہتے تھے۔ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ انہیں بیماری کے دنوں میں دوستوں اور شاگردوں نے تنہا نہیں چھوڑا، البتہ یہ دُکھ ضروری ہے کہ اتنے بڑے شاعر کی بیماری کا عرصہ دراز تک تذکرہ ہونے کے باوجود ان کے کسی اچھے ہسپتال میں علاج کے لئے کسی حکومتی ادارے نے توجہ نہیں دی۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم اپنے ایسے نابغہء روزگار ستاروں کو صرف  وقت کی گرد میں ڈوبنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں،حالانکہ یہ لوگ ڈوبتے نہیں بلکہ اپنی شاعری کے ذریعے ہمیشہ کے لئے امر ہوجاتے ہیں۔ تجمل کلیم اس بات کی بھی ایک بہت بڑی مثال ہے کہ انہوں نے کسی گروپ بندی، لابی یا  سفارش کے بغیر اپنی راہ بنائی۔ ایسی  راہ بنائی کہ بڑے بڑے جفادری جو مختلف ہتھکنڈوں اور حربوں سے آگے آ جاتے ہیں، تمغے اور اعزازات بھی حاصل کرلیتے ہیں، ان سے کہیں زیادہ عزت بھی کمائی اور اپنے فن کی دھاک بھی بٹھائی۔

آج بعض حلقے کہہ رہے ہیں جس طرح بھارتی پنجاب میں شیوکمار بٹالوی نے پنجابی شاعری کو عروج بخشا تھا، اسی طرح تجمل کلیم نے پاکستانی پنجابی شاعری کو بامِ عروج پر پہنچایا ہے۔ میرے نزدیک یہ مماثلت بنتی نہیں، شیوکمار بٹالوی نے بہت اچھی پنجابی شاعری کی اس میں کوئی کلام نہیں، تاہم جو موضوعات، جو لہجہ تجمل کلیم کا ہے، اس کی پنجابی شاعری میں مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے اپنی شاعری کے لئے مقطعہ و مجمع پنجابی کو استعمال نہیں کیا بلکہ وہی زبان استعمال کی جو ان کے روزمرہ محاورے کی تھی۔ وہ جس زبان میں جو بات کرتے تھے، اسی میں اپنا شاعرانہ اظہار بھی کر دیتے تھے، یہ ایک ایسی خوبی ہے جو بہت کم شاعروں کے ہاں نظر آتی ہے۔ ان کی یہی سادگی و سلاست ان کی پنجابی شاعری کو ایک آفاقی شاعری کے قالب میں ڈھالتی ہے۔ ان کے اشعار پڑ ھتے ہوئے آہ بھی نکلتی ہے اور بے ساختہ واہ بھی، وہ ذاتی دکھوں سے لے کر سماج کے المیوں تک کو اس خوبصورت سے بیان کرتے ہیں کہ ترفع کا احساس دوچند ہو جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آغاز میں تجمل کلیم  نے اردو غزل بھی کہی۔اردو غزلیں بھی اس کی انفرادیت کا مظہر تھیں مگر جلد ہی اسے احساس ہو گیا کہ یہ اس کے اظہار کا راستہ نہیں، پھر انہوں نے پنجابی شاعری کو گویا اپنے اوپر اوڑھ لیا ایسا اوڑھا کہ وہ پنجابی شاعری جو اپنا مرتبہ کھو رہی تھی ایک بار پھر ایسے ابھری کہ زبان زد عام بن گئی۔ جس شاعری کی ڈکشن اور خیال ایک ہو جائیں اسے بڑی اور لافانی شاعری بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔تجمل کلیم کے پاس یہ دونوں چیزیں وافر موجود تھیں، یہی وجہ ہے کہ تجمل کلیم کی غزل اپنے پورے رنگ ڈھنگ سے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، اسے زندگی ہی میں بے پناہ مقبولیت اسی لئے ملی کہ اس کی شاعری عام آدمی کے دل کی آواز بن جاتی ہے۔

ذرایہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

دل دا شیشہ صاف تے نئیں نا

توں فیر کیتا معاف تے نئیں نا

پریاں ہر اک تھاں ہندیاں نیں 

ٹوبے وچ کوہ قاف تے نئیں نا

……………………

کچی وستی لنگھن لگیاں 

راتیں بدل ٹٹ کے رویا

لٹھے دی تھاں پائے لیرے

چور قبر نوں پٹ کے رویا

کالم کی کوتاہ دامنی کے باعث اتنی گنجائش تو نہیں، تجمل کلیم کی شاعری کے ہر رنگ کی یہاں مثال دی جا سکے،مگر حقیقت یہی ہے کہ انہوں نے چھوٹی بحر میں معانی کے سمندرسموئے ہیں، پھر ان کی شاعری پڑھ کر یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ پنجابی زبان کا دامن کتنا وسیع ہے۔ اس میں کیسے کیسے موضوعات کس سہل انداز سے بیان کئے جا سکتے ہیں۔ ان کی کتابوں میں ”چیکہ النظر“ ”برناں ہیٹھ تندور“  ”ویہڑے دا رکھ“ اور ”ہان دی سولی“ شامل ہیں۔ ان کا بے شمار غیر مطبوعہ کلام بھی موجود ہے جسے منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔ تجمل کلیم کو زندگی بھر تو نظر انداز کیا گیا کیونکہ ان کی کوئی لابی نہیں تھی، تاہم بعد از وفات انہیں کسی بڑے قومی اعزاز سے نوازا جانا چاہیے تاکہ تمغوں کا اعتبار قائم ہو سکے۔





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں