بھارت کی ایک اور شکست

    بھارت کی ایک اور شکست



 عالمی سطح پر ممالک کے تعلقات اور ان کی پالیسیوں کا دار و مدار صرف عسکری طاقت پر نہیں بلکہ سفارتی حکمت عملی اور بین الاقوامی تعلقات میں مہارت پر بھی ہوتا ہے۔پاکستان سے عسکری محاذ  پر شکست کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف حالیہ جھوٹے الزامات، گمراہ کن بیانیے اور بے بنیاد پروپیگنڈے کے تناظر میں پاکستان نے ایک مؤثر اور ہمہ جہت سفارتی مہم شروع کی،اس مہم کا مقصد بھارتی جھوٹ، سازشوں اور خطے میں امن کو لاحق خطرات کو دنیا کے سامنے لانا ہے۔وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے موجودہ بین الاقوامی صورتحال کا درست ادراک کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ بھارت کی بڑھتی ہوئی جھوٹ پر مبنی سفارتی مہم کا مؤثر جواب دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے سابق وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی سفارتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اس کمیٹی میں چار سابق وزرائے خارجہ، تجربہ کار ماہرینِ خارجہ اور سفارت کار شامل کیے گئے ہیں۔یہ کمیٹی نہ صرف اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بلکہ دنیا کے مختلف خطوں میں جا کر پاکستان کا مؤقف پیش کرے گی، بھارت کی سازشوں کا پردہ چاک کرے گی اور یہ واضح کرے گی کہ جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کون ہے۔بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جھوٹے الزامات کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے۔ بھارت ہمیشہ اپنے داخلی مسائل، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، کشمیر میں جبر و تشدد اور مذہبی اقلیتوں پر ہونے والے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان پر الزامات لگاتا آیا ہے۔ پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر بھارتی میڈیا اور حکومت نے پروپیگنڈے کی انتہا کر دی۔ اس واقع میں کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے باوجود پاکستان کو بدنام کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔بھارتی میڈیا نے اس واقع کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ نہ صرف اس کی ساکھ متاثر ہوئی بلکہ خود بھارت کے اندر بھی کئی حلقوں نے اس پر سوالات اٹھائے۔ بھارت کی اس جھوٹ پر مبنی مہم کے جواب میں پاکستان نے نہایت تحمل، وقار اور سنجیدگی سے ردِعمل دیا، جس کی عالمی سطح پر پذیرائی کی گئی۔

مودی سرکار کو جب سفارتی محاذ پر ناکامی ہوئی تو حکومت نے آپریشن سندور” کے نام سے ایک خفیہ عسکری کارروائی کی جس کا مقصد پاکستان پر دباؤ بڑھانا اور داخلی طور پر اپنی ساکھ کو بہتر کرنا تھا۔ تاہم یہ آپریشن بری طرح ناکام ہوا اور بھارت کو جنگی، سفارتی اور اخلاقی محاذ پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔بھارتی حکومت اس ناکامی کا بوجھ چھپانے کے لیے دنیا بھر میں ایک سفارتی مہم چلا رہی ہے، جس کے تحت ستر سے زائد ممالک کے سفارتی نمائندوں کو بلوا کر پاکستان کے خلاف جھوٹے بیانات دیے جا رہے ہیں۔ تاہم عالمی برادری اس مہم کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہی کیونکہ بھارت کوئی قابل قبول ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔پاکستان نے اس موقع پر جس بردباری اور حکمت عملی کا مظاہرہ کیا وہ نہ صرف قابل تعریف ہے بلکہ ایک مہذب اور پْرامن ریاست کی عکاسی کرتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں تشکیل دی گئی کمیٹی آئندہ ہفتوں میں مختلف ممالک کے دورے کرے گی جہاں وہ بھارتی جارحیت، جھوٹے الزامات اور خطے کے امن کو لاحق خطرات پر عالمی رہنماؤں کو آگاہ کرے گی۔

یہ وفد اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی پاکستان کا موقف بھرپور انداز میں پیش کرے گا، جہاں یہ واضح کیا جائے گا کہ پاکستان نہ صرف دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑ چکا ہے بلکہ امن کے قیام کے لیے مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔پاکستان کی سفارتی مہم کا ایک اہم پہلو سندھ طاس معاہدے سے متعلق ہے۔ بھارت کی جانب سے دریاؤں پر ڈیمز بنا کر پاکستان کے پانی پر قابض ہونے کی کوششیں ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ یہ خلاف ورزیاں نہ صرف بین الاقوامی قانون بلکہ انسانی اقدار کے بھی خلاف ہیں۔ پاکستان اس فورم پر دنیا کو یہ بھی باور کرائے گا کہ بھارت کی یہ آبی جارحیت مستقبل میں ایک انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔پاکستان کی جانب سے برداشت، حقائق اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نے اسے عالمی سطح پر عزت و وقار عطا کیا ہے۔ چین، ترکیہ، آذربائیجان اور دیگر دوست ممالک نے پاکستان کے مؤقف کی بھرپور حمایت کی ہے۔ ان ممالک نے بھارت کے جارحانہ رویے کی مذمت کی ہے اور پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔

اس کے برعکس بھارت کو سوائے اسرائیل کے کسی بڑی عالمی طاقت کی عملی حمایت حاصل نہیں ہو سکی، جو اس کی سفارتی تنہائی کا واضح ثبوت ہے۔ اسرائیل کی حمایت کا حصول بھی دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ بھارت کن عناصر کے ساتھ کھڑا ہے، اور اس کا مقصد کیا ہے۔پاکستان کی سفارتی مہم صرف سفارت خانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ میڈیا، تھنک ٹینکس، بین الاقوامی تنظیموں اور سول سوسائٹی کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے۔ مختلف زبانوں میں بیانیے، رپورٹس، اور تحقیقی مواد تیار کیا جا رہا ہے تاکہ دنیا کو یہ بتایا جا سکے کہ بھارت کا بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہے، جب کہ پاکستان ایک پرامن اور ذمہ دار ریاست ہے۔پاکستانی میڈیا نے بھی اس مہم میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ متوازن تجزیے، تاریخی حقائق اور جدید سفارتی رجحانات پر مبنی پروگرامز کے ذریعے عوامی رائے عامہ کو ہموار کیا جا رہا ہے تاکہ قومی بیانیے کو عالمی سطح پر مضبوط کیا جا سکے۔بلاول بھٹو زرداری کی بطور سفارتی کمیٹی کے سربراہ تقرری نہ صرف سیاسی اتفاق رائے کا مظہر ہے بلکہ ایک نئی نسل کو قیادت سونپنے کی علامت بھی ہے۔ انہوں نے بطور وزیر خارجہ بھی کئی اہم مواقع پر پاکستان کا مؤقف عمدگی سے پیش کیا ہے اور ان کی بین الاقوامی ساکھ پاکستان کے لیے ایک اثاثہ ہے۔

ان کی قیادت میں پاکستان کی سفارتی مہم نوجوان سفارت کاروں، محققین اور تھنک ٹینکس کے تعاون سے مزید مؤثر بنائی جا رہی ہے، جو کہ پاکستان کے مستقبل کی خارجہ پالیسی میں ایک مثبت اور جدید رجحان ہے۔پاکستان کی سفارتی مہم اس بات کا ثبوت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں طاقت صرف عسکری قوت کا نام نہیں بلکہ سچائی، حکمت عملی، اور مؤثر سفارت کاری سے بھی دنیا کو قائل کیا جا سکتا ہے۔ بھارت کی جھوٹ پر مبنی مہم ناکامی سے دوچار ہے، جب کہ پاکستان حقائق، ثبوت، اور تدبر سے آگے بڑھ رہا ہے۔

یہ مہم نہ صرف پاکستان کے عالمی تشخص کو بہتر بنائے گی بلکہ خطے میں امن کے قیام، بھارت کی جارحیت کو بے نقاب کرنے اور پاکستان کے دیرینہ مسائل (خصوصاً کشمیر اور پانی کے مسائل) پر عالمی ہمدردی حاصل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو گی۔ آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سفارتی محاذ پر پاکستان کی حالیہ سرگرمیاں نہ صرف مؤثر ہیں بلکہ عالمی امن کے لیے ایک مثبت قدم بھی ہیں۔ مودی حکومت کو نہ صرف جنگی میدان میں بلکہ سفارتی سطح پر بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ سچائی ہمیشہ جھوٹ پر غالب آتی ہے





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں