بڑی دیر کی مہربان آتے آتے!

  بڑی دیر کی مہربان آتے آتے!



ملکی اور صوبائی حالات تو بعض امور کی نشاندہی کا تقاضہ کرتے ہیں،لیکن حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں کہ ان کا ذکر مجبوری بن جاتی ہے۔غزہ کے فلسطینیوں پر اسرائیل کے جاری مظالم نے تاریخ کو مات دے دی ہے یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ زمین کے باسیوں کی نہ صرف نسل کشی کی جائے، بلکہ ان کی جائیدادیں ملبے کا ڈھیر بنا کر ان کو اس سرزمین ہی سے نکالنے کا اعلان کر دیا جائے،فلسطینی تو تباہ کن بمباری ہزاروں شہادتوں اور لاکھوں زخمیوں کے باوجود اپنی سرزمین چھوڑنے کے لئے تیار نہیں،لیکن طاقتور اپنی طاقت کے زعم میں ان کی نسل مٹانے کے در پے ہیں اور یہ ہمت و استطاعت اسرائیل کی اپنی نہیں،اسے یہ ساری طاقت امریکہ نے مہیا کی اور آج بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ قاتل نیتن یاہو کے بعد قصاب مودی کو اپنا دوست کہتے ہیں اور پھر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے برصغیر کے دو ایٹمی ممالک کے درمیان جنگ بندی کرائی اور ان کو تجارت کے لئے کہا،پاکستان نے ان کے اس دعویٰ کو تسلیم کیا ہے تاہم مودی جنتا خفت مٹانے کے لئے ان کی بات کو رد کرتی چلی جا رہی ہے اور ٹرمپ صاحب کو بُرا نہیں لگا کہ انہوں نے جنوبی افریقہ کے صدر سے ملاقات کے وقت پھر سے اپنا دعویٰ دہرا بھی دیا ہے۔ ٹرمپ صاحب اب بزعم خود گریٹ امریکہ کے دعویدار ہوتے ہوئے دنیا کے واحد طاقتور تھانیدار کے روپ میں سامنے آ رہے ہیں اور ذرا ان کی انصاف پروری ملاحظہ ہو کہ یوکریئن کے صدر سے گفتگو کی باز گشت ابھی فضاء میں موجود ہے کہ انہوں نے جنوبی افریقہ کے رنگدار صدر پر ان کے منہ پر الزام لگا دیا کہ جنوبی افریقہ میں گوری اقلیت کو  قتل کرا رہے ہیں اور اس سلسلے میں بعض دستاویزات بھی دکھائیں۔ جنوبی افریقہ کے صدر نے فوراً ہی تردید کی اور کہا کہ ان کا ملک دہشت گردی کا شکار ہے اور نسل دیکھے بغیر ناگہانی واقعات ہو رہے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ الزام لگاتے وقت پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کو واضح طور پر نظرانداز کر گئے اور اب تک انہوں نے پاکستان کی طرف سے دہشت گردوں کو بھارتی اعانت کے واضح ثبوتوں کے بعد بھی مذمت کا ایک لفظ  نہیں کہا اور نہ ہی وہ مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی پر بول رہے ہیں۔جنوبی افریقی صدر کے ساتھ ان کے ڈائیلاگ کے باعث مجھے جنوبی افریقہ کے ایک بڑے مصنف ولبر سمتھ کی کتاب وائلڈ جسٹس یاد آ گئی،جس میں مصنف نے بڑی چابکدستی سے ثابت کیا کہ امریکہ اور اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان بھرپور تعاون موجود ہے اور دہشت گردی کے خلاف اور اسے کسی واردات سے قبل کچلنے کے لئے بنائے گئے عالمی ادارے کو بھی عالمی دہشت گردی کے لئے کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔امریکی صدر دنیا بھر کے ”مظلوموں“(جو ان کے نزدیک ہوں) اور انسانی حقوق کا چیمپئن ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن غزہ پر قبضے کی سازش میں مکمل شریک ہیں۔اب انہوں نے خود تو غزہ پر قبضہ کر کے اسے امریکی ریاستوں کا حصہ بنانے کی بات ترک کر دی ہے، لیکن اسرائیل کو تھپکی دی ہے کہ وہ فلسطینیوں کا قتل ِ عام جاری رکھے اور ان کو غزہ سے نکال باہر کرے۔اِس سلسلے میں دس لاکھ افرا کو لیبیا میں بسانے کی خبر بھی آ چکی ہوئی ہے۔

بہرحال ظلم کبھی چھپا ہے اور نہ چھپ سکتا ہے۔ دیر ہی سے سہی اب یورپی ممالک کے حکمرانوں کو بھی مظلوموں کا خیال آ ہی گیا ہے اور ان کی طرف بھوک سے بلبلاتے بچوں کی چیخیں برداشت نہیں ہوئیں اور ان کی طرف سے اسرائیل کو بمباری روکنے اور امداد ی سامان کی ترسیل جاری کرنے کے لئے وارننگ دی گئی ہے ،اس سلسلے میں اس بار فرانس نے پہل کی، برطانیہ اور کینیڈا کے بعد اب دوسرے یورپی ممالک نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور اسرائیل کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ برطانیہ نے تو فوری طور پر تجارت بھی بند کر دی ہے، نیتن یاہو پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور نہ ہی امریکی صدر نے ہمدردی کا ایک لفظ کہا ہے اس تمام صورتحال کے باعث ان حضرات کے الزام میں بھی وزن ہے کہ محترم ڈونلڈ ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ بندی میں بھی کردار بھارت کے حق میں استعمال کیا کہ بھارت ہی شکست خوردہ تھا اور اسے ہی سہارے کی ضرورت تھی جو امریکی صدرا ور ان کے معاونین نے مہیا کر دیا،(اگرچہ مودی ڈھیٹ ہے اور اب تک انکارکررہا ہے)۔

میں نے یہ جو سب لکھا کوئی بریکنگ نیوز نہیں، یہ سب سامنے آ چکا،بلکہ یورپی ممالک نے بڑی دیر کر دی، ان ممالک کے عوام کی بھاری اکثریت مسلسل مظاہرے کر کے اپنی اپنی حکومتوں اور حکمرانوں کو متوجہ کر رہی تھی،لیکن کسی بھی حکومت یا حکمران نے توجہ نہ دی تاہم اب ان کی طرف سے انسانیت کا بھرم رکھا گیا ہے اور یہ بھی شاید ڈونلڈ ٹرمپ کی مہربانی ہے کہ عالمی تجارت کے حوالے سے انہوں نے یورپی ممالک کو بھی نہیں بخشا تھا اور اسی تجارت اور ٹیکس گردی کے باعث تنازعہ ہوا پھر نیٹو کے ساتھ محترم ڈونلڈ ٹرمپ کے یوکرین کے مسئلہ پر اختلاف ہوگئے اور یوں حالات کی ستم ظریفی اور نئی کروٹ نے یورپی ممالک کو سوچنے پر مجبور کر دیا اور اب انسانیت یاد آ گئی۔چلو دیر آید درست آید،اب ان سب کو باہم مل کر اپنا دباؤ اس قدر بڑھانا چاہئے کہ اسرائیل کو مجبور ہونا پڑے اور یہ ظلم بند ہو،یوں بھی اگر اسرائیل غزہ کی جان چھوڑ دے اور مغربی دنیا اور امریکہ ہی کے مطابق دو ریاستی فارمولے پر عمل ہو تو امن بھی ہو سکتا ہے،اِس وقت امریکی شہہ پر اسرائیل غنڈہ بنا ہوا ہے اور ہمارے مسلمان ممالک بوجوہ قراردادوں اور بیانات سے آگے نہیں بڑھ پا رہے۔یہ بھی بدقسمتی ہی ہے۔ کیا کِیا جائے آج کے گلوبل ولیج اور اطلاعاتی ترقی میں کچھ بھی چھپا نہیں ہوا، ہم سب کے بارے میں جانتے ہیں توکیا   وہ سب بھی ہمارے بارے میں علم رکھتے ہیں،یہ تو اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ بھارت کے قصاب جیسے مکار، جھوٹے اور فریبی حکمران سے ہمیں تحفظ ملا اور اسی اللہ نے ہمارے جوانوں کے اندر حوصلہ پیداکیا۔

اب ہمیں نیا مرحلہ دہشت گردی میں تیزی کا ہے یہ بھی اللہ ہی کے کرم اور جوانوں کے حوصلے اور بہادری سے طے ہو ہی جائے گا۔

٭٭٭٭٭





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں