ریاست ہائے متحدہ امریکہ دفاعی لحاظ سے بہت طاقتور اور کثیر مادی وسائل رکھنے والا ایک بڑا ملک ہے۔ وہ اقوام متحدہ کا اہم بانی ممبر اور اس کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین میں بھی شامل ہے۔اسے برطانیہ سے آزادی حاصل کئے 250 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ دنیا بھر سے بے شمار لوگ امریکہ آ کر اور آباد ہو کر اس کے شہری بن گئے ہیں۔ گزشتہ دو صدیوں سے زائد عرصے میں وہاں انسانی آبادی کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے۔ ان لوگوں میں مختلف شعبوں اورپیشوں سے تعلق رکھنے والے بہت قابل، با صلاحیت، تکنیکی اور تجربہ کار ایسے ماہرین بھی شامل ہیں جو اپنے امور میں اعلیٰ درجہ کی صفات کے حامل ہیں۔ اب وہاں سے غیر قانونی دستاویزات کے ذریعے جانے والے افراد کا انخلاء کیا جا رہا ہے اور دیگر ممالک سے مزید لوگوں کی آمد پر قانونی پابندیاں، نسبتاً سخت کی جا رہی ہیں۔
صدر ٹرمپ مورخہ 20 جنوری 2025ء کو اپنے عہدہ کا حلف اٹھانے کے بعد امریکہ کی برتری عالمی سطح پر قائم رکھنے بلکہ مستحکم کرنے کی ممکنہ سعی کے دعویدار ہیں۔ وہ اس ملک کو گریٹر امریکہ بنانے کے لئے زیادہ طاقتور اور معاشی طو رپر خوشحال بنانے پرخوب زور دیتے ہیں۔ انہوں نے ماہ جنوری 2025ء میں شمال میں واقع ہمسایہ ملک کنییڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست بننے پر دباؤ ڈالا تھا۔ جس پر چند روز بعد وزیراعظم جسٹس ٹروڈو اس مقتدر منصب سے مستعفی ہو گئے تھے۔ ان کی لبرل پارٹی نے قیادت کے لئے مارک کورنی کو منتخب کر لیا۔ انہوں نے کنییڈا میں پارلیمانی انتخابات کے لئے مورخہ 28 اپریل 2025ء کی تاریخ مقرر کر دی۔ اب وہ 168نشستیں جیت کر چند نشستوں کی کمی پر کسی دیگر جماعت کے منتخب نمائندوں کے ساتھ اتحاد کر کے اپنی حکومت بنا سکتے ہیں۔ ووٹ ڈالنے کی شرح 68 فیصد سے زائد رہی۔کینیڈا کے وزیر اعظم اب پُراعتماد ہو کر صدر ٹرمپ کے ساتھ باہمی تجارت کی مصنوعات پر ٹیرف عائد کرنے کی شرح پر کوئی قابل قبول فیصلہ کر سکتے ہیں۔ امریکہ جدید ٹیکنالوجی پر مبنی نت نئی ایجادات کی بنا پر عالمی سطح پر اپنی تعمیر و ترقی کے لحاظ سے بہت بہتر اور نمایاں مقام رکھتا ہے۔ بالخصوص دفاعی اسلحہ جدید جنگی سامان حرب اور تباہ کن ہوائی جہازوں اور بحری بیڑوں کی تیاری میں امریکہ دیگر ممالک پر غیر معمولی سبقت کا تسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔
صدر ٹرمپ نے صدارتی حلف اٹھانے سے چند ہفتے قبل ہی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ جنگیں کرانے نہیں، بلکہ بند کرانے کی تگ و دو کریں گے۔ اس بارے میں وہ تا حال روس اور یوکرین کے درمیان، تین سال سے جاری جنگ کو روکنے کے لئے توحتی الوسع اپنی سفارت کاری کی صلاحیتیں اور اثرو رسوخ بہت احتیاط اور سنجیدگی سے بروےء کار لا رہے ہیں۔ آج کل کے جدید اور مہذب کہلائے جانے والے دور میں بے قصور انسانوں کی کثیر تعداد کو حکمرانی کی سفاکی اور اقتدار میں مدہوش ہاتھوں سے تسلسل کی قتل و غارت اور بربادی سے بچایا جا سکے۔
صدر ٹرمپ آج کل دنیا کی ایک سپر پاور کے سربراہ ہیں وہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو مظلوم بے بس او ر تباہ حال باقی ماندہ فلسطینی عوام کی مزید نسل کشی سے روکنے کے لئے اپنے بڑے ملک کا کوئی موثر اور منصفانہ کردار ادا کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟ غزہ میں تا حال کم و بیش 53 ہزار فلسطینی لوگوں کو نہایت بے رحمی سے دن رات بمباری سے شہید کر دیا گیا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد افراد کوشدید معذور کر دیا گیا ہے اور ان کی تمام املاک کو مسمار کر کے ملیا میٹ کیا جا چکا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے لئے اس سفاکی کے تسلسل پر منصفانہ کردار ادا کر کے اہل فلسطین کو سابق امریکہ صدور کا کئی بار اعلان کردہ منصوبہ یعنی دو ریاستی قیام کا حل آج کل قابل ِ عمل بنانے میں آخر کون سی رکاوٹ حائل ہے؟اس شدت کی تباہ حالی کے بعد بھی اسرائیلی جارحیت روک کر بے قصور فلسطینی عوام کو غزہ میں آباد کاری کے لئے ان کی اپنی اراضی پر نئی عمارات کی تعمیر کی منصوبہ بندی کا عمل اب جلد شروع کیوں نہیں کیا جاتا؟ صدر ٹرمپ ایک طاقتور ملک کے سربراہ ہو کر اس کارکردگی میں تاخیر کیوں کر رہے ہیں؟
عالمی سطح پر قیام امن کی ذمہ داری دنیا کی بڑی طاقتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اہل فلسطین کا مطالبہ کسی لحاظ سے غیر قانونی اور نا جائز نہیں ہے۔ وہ کسی دیگر ملک، ادارے یا طبقے کی اراضی پر نا جائز قابض نہیں ہیں۔اس لئے فلسطینی عوام کو اسی علاقہ میں مستقل قیام کا بالکل جائز اور قانونی حق حاصل ہے۔ ان کو یہاں سے زبردستی بے دخل کرنے کی کوئی سازش یا چالبازی کسی منصفانہ اصول و ضابطہ سے مطابقت نہیں رکھتی۔اس بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عمل سے اب تک گریز کیوں کیا جا رہا ہے؟ واضح رہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہوکے دور حکومت میں کئی فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے لوگوں کی رہائش اور دیگر ضروریات کے لئے وسیع اراضی پر دوھونس اور زبردستی سے قابض و کر وہاں نئی بستیاں تعمیر کر لی گئی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یہ جارحانہ روش تو ہرگز کوئی منصفانہ طرز عمل نہیں،بلکہ 1967ء سے قابض ان علاقوں کو بھی واپس کیا جائے۔ اس غلط کاری کی فوری روک تھام کرنا، بین الاقومی قوانین کا ضروری تقاضا ہے۔ اہل فلسطین کے حقوق آزادی کو بھی امریکہ اور اسرائیل کو جلد تسلیم کرنا لازم ہے، کیونکہ وہ اقوام متحدہ کی منطور شدہ قرار دادوں پر عملدرآمد کے پابند ممالک ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو بھی جنوری 1948ء اور بعد ازاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پاس کردہ قرار دادوں کے لئے مطابق کسی دباؤ کے بغیر اپنا حق ِ خود ارادیت استعمال کرنے کا موقع بلا مزید تاخیر فراہم کیا جائے۔ وہاں بعض سرگرم حریت پسندوں کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ خواتین کی آئے روز بے حرمتی کی جاتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے کئی رہنماؤں کو آزادی کی جدوجہد سے باز رکھنے کے لئے طویل عرصوں کے لئے عقوبت خانوں میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔
اس بنیادی مقصد کے لئے وہاں کے ایک کروڑ لوگ آئے روز مظاہرے اور ہڑتالیں کر کے بھارت کے حکمرانوں سے آزادی کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن بھارت کے نو لاکھ فوجی انہیں طاقت کے اندھے استعمال سے شہید زخمی اور گرفتار کرتے رہتے ہیں۔یہ وحشیانہ انداز اقوام متحدہ کے چارٹر اور متعلقہ قراردادوں کے سراسر منافی ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
٭٭٭٭٭