انسانیت ہی مقدم اور فلاح ہے!

   انسانیت ہی مقدم اور فلاح ہے!



وزیراعظم محمد شہبازشریف نے یوم تشکر کے موقع پر پاک فوج کی طرف سے جوابی کارروائی پر تشکر کا اظہار کرتے ہوئے خطے میں امن کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اب ہم کو معاشی فتح حاصل کرنا ہوگی اور معیشت کی ترقی خطے میں امن کے بغیر حاصل ہونا ممکن نہیں،انہوں نے امن اور معیشت کو ایک دوسرے سے منسلک کیا جو ایک ایسی حقیقت جسے نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر کے ممالک کو سمجھنا چاہیے اور کوئی ڈنڈی مارے بغیر پرامن معاشروں کی کوشش کرنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ سب مجموعی انصاف کی بناء پر ہو اور انسانیت کے دعوے زبانی یا کاغذی نہیں عملی ہوں اور یہ اسی طرح ممکن ہے کہ انصاف ہوتا نظر آئے، یہ نہیں کہ اپنے محترم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح امن تو ہو لیکن ٹرمپ کارڈ ان کے اور مودی کے پاس رہے، اطلاعات ہیں کہ پہلگام دہشت گردی کے بعد پہلے سے محبوس کشمیریوں کی اور شامت آ گئی ہے، حالانکہ اس حادثے کی تفتیش ہونا لازم ہے بلکہ وزیراعظم پاکستان کے مطابق عالمی سطح پر تحقیق ہو کہ سب کچھ سامنے آ جائے،لیکن بھارت کے برسر اقتدار مودی اور ان کے مددگار آر ایس ایس والے حقائق سے روگردانی پر مصر ہیں۔پاکستان کے وزیراعظم نے درست کہا آؤ میز پر بیٹھ کر بات کریں کہ مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں،بہتر ہو گا کہ تاشقند اور شملہ مذاکرات ہی کو یاد کرلیا جائے۔

مودی ذہنیت کی بات میں اس لئے کرتا ہوں کہ نہ صرف ہمارے وزیراعظم نے امن کی بات کی بلکہ انہوں نے تو اجتماعی بات کی ہے، ہم مسلمان ہیں اور رسول اکرمؐ  کو ماننے والے ہیں انہوں نے اللہ کا جوپیغام انسانوں تک پہنچایا، وہ بھی امن ہی ہے اورخود ہمارے پیارے رسولؐ نے فتح مکہ کے موقع پر اس کی مثال بھی پیش کر دی تھی۔

میں اپنے ذاتی تجربے کی بناء  پر کہہ سکتا ہوں کہ بھارت، برطانیہ، یورپ اور امریکہ سمیت دنیا بھر کے عوام کی مجموعی بھاری اکثریت امن کے حق میں ہے اگر جنگوں سے گریز اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے سے باز رہا جائے تو پھر ہر ملک کے اندر برائیوں کے خلاف جدوجہد شروع ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ہر ایک خود کو ہی سچا اور حق پر جانتا اور سمجھتا ہے، حالانکہ غور کرنا چاہیے کہ غلطی کس کی ہے اور جس کی ہو وہ تسلیم بھی کرے، یوں امن کی ضمانت مل جاتی ہے لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔

اس وقت دنیا بھر میں جو بھی مسائل ہیں ان کا تعلق قوت برداشت سے ہے اور یہی وہ عمل جو مہذب معاشرہ کہلانے والے ملکوں میں بھی مفقود ہوتا جا رہا ہے آج کل موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث انسانوں پر کڑا وقت ہے، درجہ حرارت میں 5سے 6ڈگری تک اضافہ اور گرمی کی مدت زیادہ ہو چکی ہے۔ عالمی ماحولیاتی کانفرنسوں کے مطابق یہ خطرناک ہے کہ اوزان کی تہ کے سوراخ میں اضافہ ہو رہا ہے اور درجہ حرارت میں ہی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ گرمی کی مدت بھی بڑھ گئی ہے۔ انسان اپنی سہولت کے لئے ایئرکنڈیشنر تو ایجاد کر چکا لیکن ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے پر قادر نہیں ہوا، چہ جائیکہ کہ آلودگی پر مکمل قابو پانے کی سعی کی جائے انسان خود زیادہ آلودگی کا باعث بن رہا ہے، روس، یوکرین کی جنگ ہو، غزہ کے فلسطینیوں پر قیامت برپا کرنے کی صورت یا پھر پاک بھارت جھڑپ، ان سب میں بارود کا استعمال ہوا اور یہ سب ماحولیاتی آلودگی کا باعث بھی ہے یوں ہم خود اپنی تباہی کا سامان کرتے ہیں۔

برصغیر کی بات کریں تو بھارت پاکستان سے چھ گنا بڑا اور معاشی حالت بھی اسی طرح بہتر ہے لیکن شرف انسانیت تو ان کو چھو کر نہیں گئی جو گزشتہ دس بارہ سال سے برسراقتدار ہیں،یہ حضرات اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگاتے اور بھبھوت مل کر بھوتوں کا کام کرتے ہیں، ان حضرات سے خود ان کے ہم مذہب تنگ ہیں جبکہ مسلمانوں، عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کا جینا حرام ہے۔ آج بھی برہمن اونچی ذات ہے جو غیر برہمن کو اپنے باورچی خانے تک نہیں آنے دیتے اور یہ چھوت چھات تمام تر ترقی کے باوجود موجود ہے، حالانکہ دنیا بھر میں انسانوں کو برابری سے دیکھنے کی بات کی جاتی ہے، لیکن طاقت ور کے لئے یہ سب فضول ہے اس کے لئے تو طاقت ہی خدا ہے۔بھارتی انتہا پسند اور برہمن ذہنیت کے لوگ خود کو ہزار بار برتر جانیں لیکن ان کے علاوہ دوسری ذاتوں اور مذاہب کے لوگ بھی انسان تو ہیں اور وہ اتنا حق تو رکھتے ہیں کہ انسانی معاشرے جیسا ماحول مانگ سکیں، اگر ان کو یہ بھی نہیں دیا جاتا تو پھر کہاں کی تہذیب اور کہاں کی انسانیت۔

آیئے ذرا جائزہ لیں، مسلمانوں کا اللہ، تو ہندوؤں کا پرماتما، سکھوں کا رب، عیسائیوں کا خدا ایک ہی تو ہے اور سب اسی کو مانتے ہیں، اگر کوئی تقسیم ہے تو اس ذات اور حق کے بعد ہے، مسلمانوں کے لئے اللہ نے جو کتاب اتاری اور ہمارے رسول کریمؐ کو معبوث کیا تو سارا درس انسانیت ہی تو ہے، عیسائیوں کے پیغمبر حضرت عیسیٰ  ؑ بھی تو اسی پیغام کے پرچارک تھے کہ ان کو صلیب پر چڑھا دیا گیا، یوں کہیں ذاتی مفاد اور نفرت کی بناء پر سچ کو صلیب پر لٹکایا گیا۔اسی طرح نافرمان اسرائیلیوں کا معاملہ ہے جنہوں نے اللہ کی دی گئی ہر نعمت کو رد کیا نافرمانی کی، سزا ملی، پھر معافی مانگی اور اس کے بعد بھی یہی کیا اور اب یہ نافرمان صیہونی دنیا خصوصاً مسلمانوں کے لئے عذاب بن چکے ہیں اور خلیج میں عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔

گریٹر اسرائیل کے نعرے کو لے کر نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کررہے ہیں، غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا، ہزاروں مرد و زن اور بچے دارفانی سے کوچ کر گئے، لاکھوں زخموں سے سسک رہے ہیں اور اب یہ صیہونی غزہ پر مکمل قبضے کا اعلان کررہے ہیں اور دنیاوی تھانیدار ٹرمپ ان کا معاون ہے اگر وہ عیسائی ہے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ عیسائیت کی  تعلیم میں برداشت اور انسانیت یہاں تک ہے، کہا گیا کہ اگر تمہیں کوئی ایک تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال پیش کر دو اور ہمارے ٹرمپ اسرائیل کی طرف سے نسل کشی کی مکمل حمایت کررہے ہیں۔ دکھ کی بات ہے کہ ہمارے محترم عرب بھائیوں کا اسلامی تعلیم نے کچھ نہیں بگاڑا اور ٹرمپ کے حالیہ دورہ میں اس کے آگے جس طرح بچھے اور جتنی سرمایہ کاری اسے دی وہ اب ایک مثال بن گئی ہے اس کے عوض ٹرمپ سے فلسطینیوں کے لئے رعائت حاصل کرنا تو دور کی بات اس بارے میں بات تک نہیں کی۔ بھارت کا جہاں تک تعلق ہے تو اسے یہ خیال رکھنا ہوگا کہ آج کے دور میں دو ایٹمی ممالک پورے خطے کو تباہ تو کر سکتے ہیں، فتح حاصل یا قبضہ نہیں کر سکتے، انسانیت کو بچانے کے لئے ناانصافیوں کے خلاف بھرپور جدوجہد کی ضرورت ہے او ریہ ہر انسان کو کرنا ہوگی خواہ اس کا تعلق کسی بھی ملک، قوم یامذہب سے ہے وزیراعظم محمدشہبازشریف کی پیش کش مثبت ہے اور اسے تسلیم کرلینا چاہیے کہ محروم طبقات کی تعداد میں بے حد اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ مراعات یافتہ طبقات کے لئے خطرے کی علامت ہے۔





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں