انتشار پھیلانے والوں کی پاکستان میں کوئی جگہ نہیں محسن نقوی 

   انتشار پھیلانے والوں کی پاکستان میں کوئی جگہ نہیں محسن نقوی 



وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ ” دہشتگردی اور انتشار پھیلانے والوں کی پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ” اس لیے اگر انہوں نے اپنا کام جاری رکھنا ہے تو انہیں یہاں اپنے لیے جگہ بنانی اور تلاش کرنی ہوگی کیونکہ ہم پہلے ہی کثرتِ آبادی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ہمارا اپنا جینا مرنا مشکل ہو رہا ہے اور ہماری آبادی رفتہ رفتہ دوسرے ملکوں میں منتقل ہو رہی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے کہ پورے ملک کی آبادی دوسرے ملکوں میں منتقل ہو جائے اور یہاں صرف دہشت گرد اور انتشار پسند ہی باقی رہ جائیں اس لیے انہیں چاہیے کہ اس وقت کا انتظار کریں آپ اگلے روز یومِ پاکستان کے موقع پر اپنا پیغام جاری کر رہے تھے۔ 

ن لیگ کا ایجنڈا ہے پاکستان کو ترقی کی دوڑ میں بھارت سے جیتوانا ہے۔احسن اقبال 

وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی و ترقی پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ ” ن لیگ کا ایجنڈا پاکستان کو ترقی کی دوڑ میں بھارت سے جتوانا ہے ” اگرچہ اس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اور یہ ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا لیکن خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے نیز اگر فارم سینتالیس کی مدد سے حکومت بن سکتی ہے تو یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے بے شک ایسا ہونا سراسر ہی ناممکن کیوں نہ ہو جبکہ بیان دینے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے اور ہمیں ایسے بیانات دینے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی جبکہ ہماری کارکردگی بھی صرف بیان دینے کی حد تک ہے آپ اگلے روز ظفر وال میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔

آثارِ ہنر 

یہ حسن عسکری کاظمی کی تصنیف ہے جس میں ولی دکنی تا احمد فراز مختلف مصنفین اور ان کی تحریروں کا ذکر کیا ہے اور جس میں ولی دکنی کے علاوہ خواجہ میر درد۔ میر تقی میر، میر انیس،غالب،مومن خاں مومن، حیدر علی آتش، ابراہیم ذوق داغ، جگر مردابادی، حسرت موہانی، سر سید، اقبال، فیض، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، فراق گورکھ پوری، جون ایلیا، طالب جوہری، ناصر کاظمی اور احمد فراز کے بارے میں معلومات مہیا کی گئی ہیں پسِ سرورق خورشید رضوی کا تحریر کردہ ہے جس میں انہوں نے مصنف کا مختصر تعارف پیش کیا ہے انتساب اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ، طلبہ اور طالبات کے نام ہے اسے رضا سنٹر پرنٹرز فروز پور روڈ لاہور نے شائع کیا ہے اور قیمت 600 روپے ہے۔ 

جوتے کی تلاش 

ایک بار مشاعرہ ختم ہوا اور شاعر واپس جانے کے لیے اپنے جوتے پہن رہے تھے۔ طفیل ہشیار پوری نے جب جوتا ڈھونڈنے میں کافی دیر لگا دی تو گلزار وفا چوہدری بولے، 

” لطیف صاحب آپ جوتا ڈھونڈ رہے ہیں یا پسند کر رہے ہیں؟”

آج کا مقطع 

ظفر کی خاک میں ہے کس کی حسرتِ تعمیر 

خیال و خواب میں کس نے یہ گھر بنایا تھا 





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں