ہمارے عوام بھی کتنے ندیدے اور ترسے ہوئے ہیں۔ ملک میں ذرا سی بھی تبدیلی آئے تو لمبی لمبی آسیں، اُمیدیں باندھ کے بیٹھ جاتے ہیں،جس طرح کسی علاقے میں کئی دن بعد پانی آئے تو لوگ اپنے گھر کے سارے برتن لے کر پہنچ جاتے ہیں اُسی طرح پاکستان میں کوئی نیا کام شروع ہو، کوئی نئی تبدیلی آئے تو انہیں لگتا ہے اب اُن کی سنی جائے گی۔ سارے دلدر دور ہو جائیں گے انہیں امن ملے گا، انصاف ملے گا، روزگار ملے گا، عزت و احترام سے جینے کی آزادی ملے گی،جس دن جنرل سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنایا گیا۔اُس دن مجھ جیسے عام طبقوں سے تعلق رکھنے والے کئی لوگوں نے پوچھا یہ کیا عہدہ ہے، اُن میں ایسے افراد کی تعداد بہت ز یادہ تھی جن کی عمر تیس چالیس سال کے درمیان تھیں انہیں نہیں معلوم تھا صدر ایوب بھی فیلڈ مارشل تھے، میں اپنی بساط کے مطابق انہیں سمجھاتا رہا،بتاتا رہا کہ یہ فوج کا سب سے بڑا عہدہ ہے اور کسی چیف آف آرمی سٹاف کے غیر معمولی صلاحیت، قابلیت اور بڑے کارناموں کو پیش ِنظر رکھ کر دیاجاتا ہے۔سید عاصم منیر کو وفاقی کابینہ نے فیلڈ مارشل بنانے کی منظوری اپنی خوبیوں کی وجہ سے دی ہے، یہاں تک تو میں انہیں مطمئن کر سکتا تھا، مگر جب وہ اپنی محرومیوں اور امیدوں کا ذکر کرتے تھے تو میرے پاس اُس کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔ایک پڑھے لکھے نوجوان نے سوال کیا کتابوں میں پڑھا ہے، صدر فیلڈ مارشل محمدیوب خان کے دور میں بے مثال ترقی ہوئی تھی، آج جتنے بڑے بڑے پراجیکٹس کام کر رہے ہیں یہ انہی کے دور میں مکمل ہوئے۔کیا سید عاصم منیر کے دور میں بھی ایسا ہو گا، میں نے اُسے سمجھایا جب صدر ایوب فیلڈ مارشل تھے تو ملک میں صدارتی نظام تھا، حکومت بھی انہی کے پاس تھی،اس لئے انہوں نے یکسو ہو کر حکومت کی،فیلڈ مارشل لاء سید عاصم منیر فوج کے سربراہ ہیں، ملک میں سول حکومت کام کر رہی ہے اس لئے ایوب خان اور اُن میں بہت فرق ہے۔ البتہ اِس وقت حکومت اور فوج میں جو ہم آہنگی موجود ہے اس کی وجہ تے توقع کی جا سکتی ہے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر ملک کی بہتری کیلئے بوقت ضرورت کردار ادا کر سکیں گے۔
اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان کو بڑے بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔بھارت بذاتِ خود ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو ہمیشہ سے ہماری سلامتی کے در پے رہا ہے۔ اب بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ کوئی اور حماقت کرے گا،اگرچہ ہم اُس کا جواب دینے،بلکہ اسے سبق سکھانے کے لئے بالکل تیار ہیں، تاہم اس حوالے سے ہمیں ایک تشویش تو لاحق ہے۔ خضدار میں سکول کے بچوں کو نشانہ بنایا گیا، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا اس کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے کیونکہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں عرصے سے ملوث ہے دہشت گردی ایک بہت بڑا ایشو ہے۔وزیرستان سے لیکر بلوچستان تک ہم اس کے عذاب سے گزر رہے ہیں۔عوام کی سب سے بڑی خواہش تو یہی ہے ملک میں امن و ا مان ہو، ہر شہر محفوظ اور ہر علاقہ امن کا گہوارہ بنے۔ایک پختون نوجوان سے ملاقات ہوئی جو زکریا یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔اُس نے کہا سید عاصم منیر فیلڈ مارشل بن گئے ہیں،ہمیں خوشی ہے، لیکن ہمیں اصل خوشی تب ہو گی جب وہ ملک سے دہشت گردی کا قلع قمع کریں گے۔دہشت گردی جہاں بھی ہوتی ہے پاکستانی مرتے ہیں۔اِس حوالے سے قوم کی سوچ کو مجتمع کرنے کی ضرورت ہے،اگر ہم بھارت کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں تو دہشت گردوں کا صفایا کیوں نہیں کر سکتے۔میں نے اُس کی بات سے اتفاق کیا،میں نے کہا قوم کو اِس حوالے سے ایک نکتے پر لانا بہت بڑا چیلنج ہے۔ وزیرستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈرونز گرائے جائیں تو بڑی مخالفت ہوتی ہے۔اسے سیاسی مسئلہ بنانے کی بجائے قانونی و دفاعی معاملہ سمجھنا چاہئے۔ بے شک فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر ہیں، لیکن انہیں بھی کوئی بڑا فیصلہ کرنے کے لئے قومی اتفاقِ رائے سے حاصل ہونے والی قوت کی ضرورت ہے۔ہمارے پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام کس طرح کسی مسیحا کی راہ دیکھتے ہیں اور بڑی خبر پر اپنے خواب لیکر جینے لگتے ہیں اس کا اندازہ کل مجھے موچی رفیق کے پاس جا کر ہوا،جوتی کی تھوڑی سی مرمت کرانی تھی، میں گیا تو اُس نے مجھے سٹول دیا کہ میں بیٹھ جاؤں۔ بابو جی چائے پئیں گے؟ میں نے کہا نہیں بہت گرمی ہے۔ ویسے بھی گھر جا کے کھانا کھاؤں گا۔ کہنے لگا بابو جی ایک بات تو بتائیں کیا سید عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بننے سے غریبوں کو بھی کوئی فائدہ ہوگا؟ میں نے کہا تم کس قسم کے فائدے کی بات کر رہے ہو۔کہنے لگا کیا بتاؤں۔ کہنے لگا کیا عرض کروں، محلے کا ایک بدمعاش بہت تنگ کرتا ہے، پیسے مانگتا ہے،بچیوں پر آتے جاتے آوازیں بھی کستا ہے، کوئی بولے تو اُسے مارتا ہے، کوئی بہت زیادہ تنگ کرے تو پولیس سے مل کر جھوٹے پرچے کرا دیتا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں سید عاصم منیر فیلڈ مارشل بن گئے ہیں اگر وہ ایسے غنڈوں کو سیدھا کر دیں تو جینا آسان ہو جائے۔ میں ہنسا، سوچنے لگا کہ اس بے چارے کو اس ظالم نظام نے کتنا مایوس کتنا بے بس کر دیا ہے۔ جس پولیس نے اُسے تحفظ دینا تھا وہ اوباشوں کے ساتھ مل کر جھوٹے پرچے درج کرتی ہے۔اتنا بڑا نظام موجود ہے،مگر اس نے اسی فیلڈ مارشل سے لو لگا لی ہے۔
ہم یہ تو کہتے ہیں جمہوریت کے بغیر ہمارا کوئی مستقبل نہیں، لیکن انفرادی سے لے کر اجتماعی سطح تک جمہوریت ہمارے اندر نہیں آ سکی،اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ عوام جمہوری نظام کے ہوتے، اسمبلیوں اور اداروں کی موجودگی کے باوجود یہ سوچ رہے ہیں، ملک میں فیلڈ مارشل کا دور آیا ہے تو کیا اُن کے حالات بھی بدلیں گے۔ایک تاجرر ہنما نے مجھے جوشِ جذبات میں کہا،یہ روزانہ کی سیاسی کِل کِل ختم کر کے دس سال کے لئے فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی سربراہی میں ایوب خان کی طرز پر ایک نظام نافذ کر دیا جائے اور پورے ملک کی اوور ہالنگ کر کے ایک صاف ستھرے نظام کی بنیاد رکھی جائے، میں نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا، ہمارا آئین اس کی اجازت نہیں دیتا، ہم نے وفاقی پارلیمانی نظام کے ذریعے ہی تبدیی لانی ہے اِس کے سوا ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں، میری یہ بات سن کر انہیں خاصی مایوسی ہوئی اور مجھے ایک دو جلے کٹے جملے بھی سننے کو ملے۔بات بہت سادہ سی ہے۔ عوام اِس فرسودہ اور بے حس دفتری نظام سے تنگ ہیں یہ اُن کی اُمیدوں کو کچلتا ہے پورا نہیں کرتا،کوئی بھی تبدیلی آتی ہے تو انہیں یوں لگتا ہے استحصالی نظام بھی بدل جائے گا،مگر یہ اُمید بھی مایوسی کے قبرستان میں دفن ہو جاتی ہے۔کاش اب ایسا نہ ہو۔
٭٭٭٭٭