آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی کے بعد

  آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی کے بعد



 قوم نے ایک عظیم الشان معرکہ سر کر لیا ہے۔ 22اپریل پہلگام فالس فلیگ آپریشن سے شروع کی جانے والی جنگ کو ہماری مسلح افواج نے 10مئی کو جس شاندار پیشہ وارانہ طریقے سے انتہا تک پہنچایا پوری دنیا حیران اور ششدر رہ گئی ہے۔ ہم یہ جنگ جیت گئے ہمارا دشمن،کمینہ اور گھٹیا ہی نہیں بلکہ اسے اقوام مغرب اور یہود کی مکمل سرپرستی بھی حاصل ہے جب یہ جنگ جاری تھی اور اسرائیل کے کامی کازی ڈرون پاکستان کی فضاؤں میں بھوں بھوں کر رہے تھے اس وقت اسرائیل کے یہودی عسکری ماہرین،دہلی میں بھارتی عسکری ماہرین کے ساتھ سرجوڑ کر پاکستان کو برباد کرنے کی پلاننگ پر عملدرآمد کررہے تھے۔ فرانسیسی رافیل اور روسی آئرن ڈوم کے علاوہ امریکی و برطانوی اسلحہ بھی بھارت کے پاس تھا جبکہ پاکستان کے ساتھ اللہ اور چین تھا۔ ہماری مسلح افواج نے وہ کر دکھایا جس کی امید نہیں تھی پوری دنیا کو حیران کر دیا جس طرح بھارت کی ٹھکائی ہوئی،پٹائی ہوئی، ذلت آمیز شکست ہوئی اس نے صرف بھارتیوں کو ہی نہیں بلکہ ان کے حواریوں اور دواریوں کو بھی پریشان کر دیا۔ مغر ب کی جنگی ٹیکنالوجی کا بھرم پھوٹ گیا چینی ٹیکنالوجی اور ہماری مسلح افواج کی منظم جنگی حکمت عملی، جرائت، بہادری اور دلیری نے وہ کچھ کر دکھایا جس کی دنیاکو امید نہیں تھی۔ مودی بھاگا بھاگا امریکہ کے پاس گیا کہ مہاراج جنگ بند کر ادیں،ہم مارے گئے ہیں، اس سے پہلے مودی سرکار کسی تیسرے فریق کی مداخلت کیخلاف بیان دے چکی تھی لیکن شکستِ فاش کو دیکھتے ہوئے مودی نے امریکہ کی منت سماجت کی کہ وہ تیسرا فریق ہے اور جنگ بند کرائے پاکستان نے بھی فہم و فراست کا ثبوت دیا اور بات مان لی، اس طرح جنگ بندی ہو گئی۔ امریکہ نے دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ بات چیت کریں۔ کشمیر پر، سندھ طاس معاہدے پر،دہشت گردی کے خاتمے پر۔ پاکستان نے صاد کیا۔ بھارت نے اس پر انکا رکیا سوائے دہشت گردی کے ایشو پر بات چیت کرنے کے، عملاً بھارت نے خضدار میں سکول کے بچوں کی بس کو نشانہ بنا کر اس ایشو پر بھی بات چیت کرنے سے عملاً انکار کر دیا ہے۔پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے اس دہشت گردی کے پیچھے اور آگے، دائیں اور بائیں، چہار سو بھارت سرکار نظر آتی ہے بھارت نے پاکستان کیخلاف یہ جنگ 2001ء میں اس وقت سے شروع کر رکھی ہے جب امریکی اتحادی فوجیں دہشت گردی کے خاتمے کی عالمی جنگ کے نام پر افغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔ 

ہندوستان نے ان کے ساتھ شریک ہو کر افغانستان کو مرکز بنایا اور پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیاں شروع کیں۔یہ تحریک طالبان پاکستان اسی دور ظلمت کی یادگار ہے جو ابھی تک پاکستان میں وحشت و دہشت گردی میں ملوث  ہے اسے بھارت سرکار کیساتھ ساتھ افغان طالبان کی بھی معاونت حاصل ہے۔ دوسری طرف بلوچستان میں سرگرم عمل دہشت گرد بھی بھارت کی مالی و فنی امداد کے ساتھ پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی کی تمام کارروائیاں بھارت سرکارکی معاونت کی مرہون منت ہیں۔ بھارت سرکار کو یہ بات پہلے بھی معلوم تھی لیکن حالیہ جنگ میں اسے یقین کامل ہو گیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ براہ راست لڑنا، کسی طور بھی ممکن نہیں ہے اسے بتا دیا گیا ہے کہ ”بھارت امریکہ نہیں ہے اور پاکستان افغانستان نہیں ہے، بھارت اسرائیل نہیں ہے اور پاکستان غزہ نہیں ہے، اس لئے بھارت سرکار کو پیغام پہنچ چکا ہے کہ پاکستان کے ساتھ پنگا لینا ممکن نہیں ہے۔ بلوچستان کسی طور بھی مشرقی پاکستان کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتا۔ مشرقی پاکستان جغرافیائی طور پر مغربی پاکستان سے متصل نہیں تھا اس لئے بھارتی سازشیں کامیاب ہو گئیں ویسے ان سازشوں کی کامیابی میں ہماری اپنی مجرمانہ کوتاہیاں بھی شامل تھیں۔ ہمارے رہنماؤں کی عیاریاں اور سیاست بازیاں بھی سقوط ڈھاکہ میں شامل تھیں اب حالات ویسے نہیں ہیں،بلوچستان میں پشتونوں،بلوچوں اور ہزارہ جات کی اکثریت وفاق پاکستان پر یقین رکھتی ہے۔ آئین پاکستان کو مانتی ہے، انہیں وفاق سے کچھ شکائتیں ہیں لیکن وہ علیحدگی ہرگز نہیں چاہتے۔یہ بلوچ لبریشن آرمی والے چند سو افراد پر مشتمل ہیں۔ دشمن کی مالی و فنی معاونت اور پروپیگنڈہ سہولیات کے باعث وہ منظر پر موجود ہیں۔ ہماری مسلح افواج ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹ رہی ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب ان کا مکمل طورپر صفایا ہو جائے گا، ان شاء اللہ۔

اصل بات ہماری معیشت ہے بجٹ 2025-26ء کی آمد آمد ہے قوم کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں کہ شاید اس میں اس کیلئے کوئی نوید مسرت ہو، کوئی آسانی ہو، کوئی بہتری کا پیغام ہو۔ ہمارے ہاں بجٹ روایتی انداز میں ہی ترتیب دیا جاتا ہے۔ گزرے سال کی فائلیں نکالی جاتی ہیں ان میں نئے اعدادوشمار داخل کئے جاتے ہیں۔ معاشی نمو کی متوقع شرح کے پیش نظر ٹیکس کاحجم ترتیب دیا جاتا ہے اور پھر ٹیکس شرحوں کا تعین کرکے گزرے سال کی نسبت سے اسی قدر زیادہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف مقرر کیا جاتا ہے۔ کوئی نئی بات، کوئی بہتری و بھلائی کی صورت ان کے پیش نظر ہوتی ہی نہیں ہے۔ ہاں جب ہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات میں شامل ہوں تو اس کی ہدایات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق حکومتی اخراجات کم کرنے پر لگے ہوئے ہیں، محکمے کم کئے جا رہے ہیں۔ ادغام کے ذریعے وزارتوں کی تعداد کم کی جا رہی ہے۔ خالی پوسٹیں ختم کی جا رہی ہیں اور اس طرح کے کئی ایسے اقدامات ضرور کئے جا رہے ہیں جس سے آئی ایم ایف کو اطمینان ہو اور وہ ہمیں قرض کی اگلی قسط جاری کر دے۔ ہم نے آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق پنشن کا نیا نظام بھی لاگو کر دیا ہے۔سرکاری ملازمتوں کیلئے نئی شرائط بھی جاری کر دی ہیں۔ نجکاری کے پروگرام پر عملدرآمد بھی جاری ہے اس عمل میں ہم نے کئی منافع بخش سرکاری ادارے نجی شعبے کے حوالے بھی کر دیئے ہیں لیکن سرکاری اخراجات کم ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ ہم نے اراکین پارلیمنٹ کی مراعات میں جس بے رحمانہ طریقے سے اضافہ کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اخراجات میں کمی بس ایک نعرہ ہی ہے، پھرسرکاری محکموں میں افسر شاہی کی مراعات بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ گاڑیاں پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں خریدی جا رہی ہیں، نئے محکمے یا اتھارٹیاں ویسے بھی قائم کی جا رہی ہیں جیسے پہلے تھیں، تو یہ سب کچھ دیکھ کر لگتا ہے کہ معاملات میں کسی قسم کی جوہری تبدیلی نہیں آ رہی، اخراجات ویسے ہی رہیں گے، عوام کی مشکلات میں کمی کا امکان نظر نہیں آ رہا، ہماری معیشت ایسے ہی چلتی رہے گی جیسے پہلے چل رہی تھی، ہم قرض لیتے رہیں گے ان کی ادائیگیوں کیلئے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالتے رہیں گے۔ کوئی مثبت تبدیلی آنے کی توقع نہیں ہے۔





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں